منجانب فکرستان
ہمارے دوست کے والد صاحب جن کی عُمر 75-80 کے قریب ہوگی، تمام ذمہ داریوں سے عہدہ براں
ہوچُکے ہیں، بیوی بھی مر چُکی ہے، حج بھی کر چُکے ہیں، دُل میں درد اُٹھا، ٹیسٹ رپورٹوں نے دل کے
وال خراب کی گواہی دی، یوں آپریشن ناگُزیر ٹھہرا۔۔۔جس دن وہ آپریشن کیلئے جارہے تھے ،اتفاق سے
رشتے داروں کے ساتھ میں بھی انکے گھر میں موجود تھا، اُنکی حالت کافی خوف زدہ تھی ،ہر رشتے دار کا
ہاتھ پکڑ پکڑ کر بار بار کہہ رہے تھے،دُعا کرنا میں بچ جاؤں، دُعا کرنا میں بچ جاؤں، اُنکا حد درجہ موت کا خوف اور جینے کی خواہش نے میرے ذہن کو خود کشی کرنے والوں کی جانب موڑ دیا کہ: وہ کیسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ہاتھوں اپنی زندگی ختم کرلیتے ہیں۔۔۔ خودکشی کرنے والوں کے ذہنوں میں ہمارے دوست کے والد کی طرح کا مرنے کا خوف یا جینے کی آرزو والے جذبے کیوں دم توڑ دیتے ہیں؟؟
ایک سوال اور وہ یہ کہ اعدادوشمار کے مطابق خودکشی کرنے والوں کی اکثریت تعلیم یافتہ اور مناسب آمدنی والے لوگ ہوتے ہیں، پھر ایسا کیوں کرتے ہیں ؟؟؟ یعنی یہ بھی ایک معمہ ہے، سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ۔۔۔ ارے بڑے میاں کا قصہ تو رہ گیا!!!آپریشن تو کامیاب رہا لیکن بڑے میاں نے بیڈ اور دواؤں کی شیشیاں پکڑ لیں، بیڈ اور دواؤں کی شیشیاں پکڑنا گویا نئی بیماریوں کو جنم دینا ہے۔ بے انتہا کمزور ہوگئے ہیں ،ایسے میں بیوی کا نہ ہونا تکلیف دہ بات ہے، کس سے بات کریں، بہوؤں سے کیا کہیں؟؟
جو آیا ہے اُسنے جانا ہے ،اِس آنے جانے کے بیچ ایک شاہکار ڈرامہ ہے ۔۔
اب اپنے دوست کو اجازت دیں ۔۔۔پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔۔۔
نوٹ: درج بالا خیالات سے اختلاف/ اتفاق کرنا: ہر پڑھنے والے کا حق ہے
{ ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }