سب سے پہلے میں فکرستان والوں کا شُکریہ ادا کرتا ہوں کہ اُنہوں نے مذاہب کو
سمجھنے کا ایک اچھا موقع فراہم کیا ۔۔۔اصل میں فکرستان والوں نے مجھ بے دین
شخص کو ایک ٹاسک دیا تھا کہ میں اپنے ساتھیوں اور ساتھیوں کے ساتھیوں میں
سے ایسے بے دین سائنسدانوں کواس سیمینار میں شرکت کے لیے آمادہ کروں۔ تاکہ
ان سائنسدانوں میں سے اگر کوئی کسی دین سے مُتاثر ہو تو وُہ اُس دین کو اپنا لے ۔
چائے کے وقفہ کے دوران ان سب نے اپنی اپنی رائے لکھ کر مُجھے دے دی ہے
جسے میں آخر میں پیش کروں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ پہلے میں مذہب کے بارے میں کچھ باتیں کروں گا ۔ پھر سائنسدانوں کی باتیں
ہونگیں ۔۔ تینوں مذہب کے ہرعالم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ خُدا صرف اُنکے مذہب
کے ماننے والوں کے گُناہ معاف کرے گا اور صرف اُسی مذہب کے ماننے والے
جنت میں جاسکیں گے۔اگرآپکا تعلق دوسرے مذہب سے ہے تو چاہے آپ کتنے ہی
حقوق العباد کے پاس دار، عبادت گُذار، ہمدرد، نیک اورفلاہی کام کرنے والے کیوں
نہ ہوں آپکی بخشش نہیں ہوگی ،آپ جنت میں نہیں جاسکیں گے۔۔۔۔۔۔
کیااسطرح خُدا لامحدود کو محدود کرنے کےمترادف نہیں ہے ؟
اب فرض کریں خُدا کی بخشش اور جنت پانے کیلئے میں کسی مذہب میں شامل
ہوجاتا ہوں مگر یہ کیا ؟ یہاں تو مُجھے ہر طرف فرقے ہی فرقے نظر آرہے ہیں اور
ہر فرقہ یہ کہتا ہے کہ اس مذہب کی اصل تعلیمات پر ہم عمل پیرا ہیں اسلئے خُدا کی
بخشش اور جنت کے صرف ہم ہی حقدار ہیں باقی تمام فرقے بددتی ،شرک والے ،
کافر دوزخی ہیں ۔۔۔ ہر فرقہ کا یہ دعویٰ ۔۔۔ میرے لیے سوالیہ نشان ہے ؟ یہاں ان
فرقوں نے خُدا لامحدود کو اور بھی محدود کردیا ۔۔
یہ فرقے کیا ہیں ،ہر مذہب کے بانی کے اُٹھ جانے کے بعد اصل مذہب کی تحریف
(تبدیل ) شُدہ شکلیں ہیں اسکی بہترین مثال گوتم بُدھ بُدھا کی ہے جسکی تعلیم ہے کہ
کسی قسم کا بت نہ بنا نا لیکن بُدھا کے مرتے ہی مذہبی رہنماؤں نے بُدھا کے اتنے
بڑے بڑے بُت بنائے کہ دُنیا حیران رہ گئی۔۔۔اسی سے آپ اندازہ لگائیں کہ بُدھا کی
تعلیم کیا تھی کیا بن گئی۔۔۔
۔ با نی مذہب کے اُٹھ جا نے کے بعد ہر مذ ہب کا یہی حال ہُوتا ہے۔۔۔ اُس مذہب کے
مختلف الخیال مذہبی رہنما اپنیاپنی اجارہ داری کیلئے اس مذہب پرقبضہ کرلیتے ہیں
اسطرح ایک مذہب مختلف فرقوں میں بٹ جاتا ہے ۔ بانی مذہب کی اصل تعلیم پس
پشت چلی جاتی ہے۔ تحریف( تبدیل )شدہ مذہبی فرقوں کی تعلیمات سامنے آجاتی ہیں۔
آخری پیغمبر نے اسی خدشہ کے پیش نظر آخری حج کے خطبہ میں فرمایا تھا کہ
دیکھو دین میں تبدیلیاں کرکے فرقے نہ بنانا کہ تم سے پہلی قومیں بھی اسی وجہ سے
تباہ ہوگئیں تھیں اور ایسانہ ہو کے میرے بعد تم بھی آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں
کاٹ نے لگو لیکن ہُوا وہی کہ جسکا خدشہ ظاہر کیآ گیا تھا۔۔۔ اور آج تک بھی ہورہا۔
نوجوان نسل ان فرقوں سے کافی پریشان ہوتی ہے اور طرح طرح کے الجھنوں میں
گرفتارہوجاتی ہے اب میں اُنکے خدشات دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔خُدا ایک
اُسکا پیغام ایک ، تمام پیغمبر۔۔۔ خُدا کا ایک ہی پیغام لائے ہیں ۔ جوکہ یہ ہے ۔ "حقوق
العباد کی پاسداری کروکہ آخرت میں سب سے پہلے اسی کی پوچھ ہوگی ۔۔۔ خُدا واحد
کی عبادت کرو۔۔۔ اور یوم آخرت میں اعمال کی بُنیاد پر جزا اور سزاپر یقین رکھوا
سارے پیغمبر خُدا کا یہی پیغام لائے ہیں سارے آسمانی مذا ہب والے اس پیغام کی
حقانیت کومانتے ہیں باقی رہےفرقے تو ۔ یہ سب پادری،ربی،مولوی نے اپنی اپنی
اجارہ داری کیلے بنائے ہوئے ہیں۔ ۔ خُدا نے کسی فرقے کو گُناہوں سے بخشش اور
جنت کا ٹھیکا نہیں دیا ہے۔۔۔
۔ میں نے اسلام کو سمجھنے کیلئے قُرآن کابھی مُطالعہ کیا ہے اب آپ دیکھیں اپنے
آخری پیغیمبر کے زریعے بھی خُدا نے اپنا وہی آفاقی پیغام دوہرایا ہے قُران کی آیات
2۔62اور5۔59 میں صاف لفظوں میں خُدا کا آفاقی پیغام لکھا ہے قُرآن کے الفاظ۔(
مسلمان ہوں یا یہودی ،عیسائی ہوں یا ستارہ پرست یا جوکوئی بھی نیک عمل کرے گا
یوم آخرت کی جزا و سزا پر یقین رکھے گا وہ کسی خوف میں مبتلا نہ ہوں اُنہیں پورا
پورا اجر ملے گا ) یعنی کسی مذہب یا کسی فرقے کی کوئی اجارہ داری نہیں ہے ۔ ان
آیات کے مُطابق طرز عبادت کی بھی کوئی شرط نہیں اصل چیز دل سے عبادت ہے
طرز عبادت نہیں۔
حضرت محمد ص نے آخری حج کے خطبہ میں بھی خُدا کا آفاقی پیغام دوہرایا تھا کہ
تمام انسان آدم کی اولاد ہیں تم میں کوئی اعلیٰ یا ادنیٰ نہیں ہے اعلیٰ وہی ہے جس نے
خُدا کے پیغام پر عمل کیا۔۔۔آپ ص نے فرمایا اے لوگو ایسا نہ ہو کہ یوم آخرت میں
میری اُمت کی گردنیں دنیا وی بوجھ سے جُھکی جارہی ہوں جبکہ دوسری اُمتیں
سامان آخرت لیکر پُہنچیں ایسی صورت میں، میں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ ہر
شخص اپنے کئے کا خود ذمہ دار ہوگا ۔۔۔
میں مسلمانوں کی عبادت دیکھنے خانہ کعبہ بھی گیا تھا وہاں میں نے دیکھا کہ
مختلف لوگ مختلف طریقہ سے نماز پڑھ رہے ہیں ۔ کوئی ہاتھ باندھ کر پڑھ رہا ہے تو
کوئی ہاتھ کُھلے رکھ کر پڑھ رہا ہے، کوئی کسی طرح پڑھرہا ہے تو کوئی کسی طرح
لیکن ان میں کوئی بھی اپنے کوصحیح ظاہر کرا نے کیلئے کسی دوسرے کی نماز
پراعتراض نہیں کرتا ہے نہ کوئی کسی کو کا فر کہتا ہے نہ ہی نفرت کرتا ہے سب
اعتقاد سے بھائیوں کی طرح اپنی اپنی عبادت نماز پڑھتے ہیں ۔ طرز عبادت کیساہی
کیوں نہ ہو دل سے عبادت ہو نی چاہیئے۔۔۔نوجوان نسل سے مُجھے یہی کہنا ہے کہ
آپکا تعلق کسی مذہب کے کسی فرقے سےکیوں نہ ہو آپ اُسی میں رہیں
صرف پیغام خُدا کی پاسداری کا خیال رکھیں۔۔ دل سے عبادت کریں پھر کسی خوف
اوراندیشہ میں مبتلا نہ ہوں ۔۔۔۔ویسے آپکی مرضی۔۔۔۔آپ سوچ رہے ہونگےکہ میں
اسلام کے بارے میں بُہت کچھ جانتا ہوں تو عرض ہے کہ میرا یقین ہے کہ اس دین پر
سے فرقہ پرست اپنا قبضہ ہٹالیں اسکو بانی دین کی اصل تعلیمات پر رہنے دیںتو یہ
دین پہلے کی طرح بُہت تیزی سے دُنیا پر چھا جائے گا ۔چونکہ یہ عقل کے بُہت قریب
ہے۔۔۔
اب میں کچھ بےدین لوگوں کی بات کروں گا سب سے پہلے میں نوبیل انعام یافتہ چینی
ادیب گاؤژینگیان کے احساسات کا ذکر کروں گا کہ اس بے دین شخص نے خُدا کی
جو ڈیفینیشن ( تعریف) کی ہے ۔اتنی اچھی تعریف میں نے کسی فرقہ پرست مذہبی
رہنما سے کبھی نہیں سُنی جو کہ اُنہوں نے نوبیل انعام ملنے پر اپنے خطاب میں کی
تھی اُنکے الفاظ یہ ہیں" باوجود بے دین ہونے کے میں نےہمیشہ ایک ناقابل تعارف
وجود کا احترام کیا ہے " کیا ہم ایسے شخص کو بے دین کہیں گے جو خُدا سے اتنے
گہرے طور پر وابستہ ہے کہ خُدااُسکے احساس میں رچا /بسا ہُوا ہے۔۔ یہی حال اکثر
سائنسدانوں کا ہے جو بے دین کہلاتے ہیں ۔۔بعض سائنسداں ہوتے تو پکے مذہب
پرست ہیں مگراپنے آپ کو بے دین ظاہر کرتے ہیں جبکہ بعض ایسے بھی ہیں جونہ
صرف کھلم کھلا اپنے مذہب کا اظہار کرتے ہیں بلکہ اپنے مذہبی عبادات بھی دلجمی
سے ادا کرتے ہیں۔جیسے یہودی سائنسداں رابرٹ ونسٹن یا نوبیل انعام یافتہ
سائنسداں ڈاکٹر عبدالالسلام کہ جن کا نوبیل خطاب ایک سائنسداں کے بجائے ایک
مذہبی رہنما کا خطاب لگتا ہےاب آپ خود اندازہ لگائیں۔ایسے پکے دیندار شخص کو
بھی بے دین /کافر کہہ کراُسکا گھر جلادیا گیا اُسکو مارنے کے درپہ ہوگئے۔ صرف
اسلیئے کہ وہ ہماری طرح کا عقیدہ نہیں رکھتا ہے ۔تو یہ ہیں فرقہ پرست کہ جنہوں
نے دُنیا کو جہنم بنایا ہُوا ہے ۔
جب ایک سائنسداں انسانی سیل میں موجود چھوٹی کائنات کو دیکھتا ہے پھر بڑی
کائنات کو دیکھتا ہے پھر ان سب میں موجود مربوط توازن ،انرجی، اور قوانین کو
دیکھتا ہے تو اسکے دل میں لامحدود ذات ، لامحدود طاقت اور لامحدود ذہانت کا
تصورابھرتا ہے ۔ آسٹریلوی بے دین سائینسداں / پروفیسر پال ڈیویز نے کتاب مائنڈ
آف گوڈ لکھی ہے جس میں اُنہوں نے لکھا ہے کہ سائینس کے مختلف میدانوں
میں مصروف کاربے دین سائنسدان بھی عمیق معنوں میں دیندار ہیں وہ لامحدودخُدا کو
مانتے ہیں یہاں تک کہ سخت سے سخت قسم کے دہریے سائنسدان بھی بعض دفعہ ایک لامحدود
ہستی کو ماننے پر مجبور پائے گئے ہیں۔ پھر سائنسدان/ پروفیسرصاحب نے اپنی ذاتی
رائے ان الفاظوں میں ظاہر کی " اب تک کی سائنسی تحقیقات کے باعث میں اس ایقان
تک پُہنچا ہوں کہ تمام طبیعی کائنات اس طور پر مربوط ہےکہ اسے محض بے معنی
اتفاق نہیں کہا جاسکتا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ وضاحت کی کسی گہری سطح پر کوئی
عمیق معنویت موجود ہے مزید یہ کہ میرے اخذ کردہ نتائج کے مُطابق ذہن بھی مادہ
کی حادثاتی پیداوار نہیں ہے بلکہ یہ کسی ایک حقیقت کا نہایت بنیادی پہلوہے"دیکھا
آپ نے عام معنی میں یہ بے دین سائنسدان بھی ۔۔عمیق معنی میں کتنے دیندار نکلے
۔ انہیں سہولیات حاصل تھیں اسلیے خُدا کی قدرت کودیکھ کر لامحدود ہستی پر ایمان
لانے پر مجبورہوئے ۔ لیکن عام انسان کو یہ سہولت حاصل نہیں اسلئے پیغمبروں کا
آنا ضروری تھا۔ رسوماتی عبادات کی بھی اپنی ایک اہمیت ہے کہ جس سے کوئی
بھی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ اس سے روح کو طمانیت حاصل ہوتی ہے سائنسدان
جسکو لامحدود ہستی کہتے ہیں اُسی کو مذہب والے برہما،یہووا،خُدا ،بھگوان
،گوڈ،اللہ جیسے ناموں سے پُکارتے ہیں ۔یہ سب اسم معرفہ ہیں اور اسم معرفہ محدود
کے معنی میں بولا جاتا ہے ۔ اسلیئے میں اُسکوعموما"خالق کائنات یا رب جیسے
صفاتی نام سے یاد کرتا ہوں لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے آپکا تصوراتنا
وسیع ہوکہ جس میں سارے صفاتی نام بھی شامل ہوجاتے ہوں ۔اصل آپکا تصورہے
نام چاہے کچھ بھی ہو۔۔اُسکو۔۔احساس میں۔۔ روح سے۔۔ محسوس کرو۔۔ بیشک کوئی نام
نہ دو۔
اب میں اپنے ساتھیوں کی رائے آپ لوگوں پر ظاہر کر رہاہوں کہ اُنہیں کسی مذہب
نے بھی مُتاثر نہیں کیا ہے ۔
میری فرقہ پرست مذہبی رہنماؤں سے گُذارش ہے کہ مخلوق خُدا پر رحم فرمائیں ۔
نوجوانوں کے ذہنوں کو پرا گندہ نہ کریں ۔ لامحدود خُدا کو اپنے فرقہ تک محدود نہ
رکھیں ۔کفر، بددت، شرک،جیسے خُدائی فیصلے خود نہ کریں ،آخرت میں خُدا کو
کرنے کیلئے بھی تو کچھ فیصلے چھوڑیں ۔ اسلیئے کہ آپ دلوں کے حال نہیں جانتے
ہیں ۔
مُجھے یہ دُعا بُہت پسند ہے جسے میں اکثر سُنتا ہوں ۔کیوں سُنتا ہوں ؟ شاید اسکے
بول متاثر کن ہیں یا شاید ماحول متاثر کن ہے( چونکہ سامنے جنازہ رکھا ہے) یا
موسیقی متاثرکن ہے یا پھر یہ سب کچھ ملکر ہی مُتاثر کن ہے ۔میں بھی آپ کے ساتھ
سُنتا ہوں جہاں مُجھے اتنا برداشت کیا ہے تین منٹ اور سہی۔الوداع