منجانب فکرستان
خشونت سنگھ غُسل خانے میں گِر پڑ تے ہیں،اُٹھ نہیں پاتے ہیں،سمجھتے ہیں کہ اب دم دمِ آخر آن پہنچا ہے ،جس پراُنہیں
دُعا کا خِیال آتا ہے( کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ جو شخص کسی مذہب کا لیبل لگانا پسند نہ کرتا ہو، وہ دمِ آخر دُعا کے
بارے میں سوچتا ہے ،جبکہ دُعا کا تعلق مذہب سے ہے ) لیکن یہ کیا؟؟ مغفرت کی دُعا مانگنے کے بجائے اُن کے ذہن میں علامہ اقبال کا ایک فلسفیانہ شعر گونجنے لگتا ہے۔۔
دُعا کا خِیال آتا ہے( کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ جو شخص کسی مذہب کا لیبل لگانا پسند نہ کرتا ہو، وہ دمِ آخر دُعا کے
بارے میں سوچتا ہے ،جبکہ دُعا کا تعلق مذہب سے ہے ) لیکن یہ کیا؟؟ مغفرت کی دُعا مانگنے کے بجائے اُن کے ذہن میں علامہ اقبال کا ایک فلسفیانہ شعر گونجنے لگتا ہے۔۔
خشونت سنگھ کے مطابق ۔۔ جب اُنہوں نے اپنے رسالے میں سِتاروں کی پیش گوئی کا صفحہ (جو اُنکی عقل پرستانہ مزاج سے
مطابقت نہیں رکھتا تھا) بند کردیا تو رسالے کے خریدار کم ہوگئے مجبوراً اُنہیں وہ صفحہ دوبارہ شروع کرنا پڑا ، پھر یہاں تک ہُوا کہ ستاروں کا حال لکھنے والے کی عدم موجودگی میں، مجبوراً تین ماہ تک یہ صفحہ خود لکھتے رہے تاکہ میگزین کی سر کولیشن پر کوئی اثر نہ پڑے۔۔۔(غور طلب بات یہ ہے کہ آج کا انسان بھی توہم پرستی پر کس درجہ یقین رکھتا ہے)۔۔۔
مطابقت نہیں رکھتا تھا) بند کردیا تو رسالے کے خریدار کم ہوگئے مجبوراً اُنہیں وہ صفحہ دوبارہ شروع کرنا پڑا ، پھر یہاں تک ہُوا کہ ستاروں کا حال لکھنے والے کی عدم موجودگی میں، مجبوراً تین ماہ تک یہ صفحہ خود لکھتے رہے تاکہ میگزین کی سر کولیشن پر کوئی اثر نہ پڑے۔۔۔(غور طلب بات یہ ہے کہ آج کا انسان بھی توہم پرستی پر کس درجہ یقین رکھتا ہے)۔۔۔
اب اپنے دوست کو اجازت دیں ۔۔۔۔پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔۔۔
نوٹ: درج بالا خیالات سے اختلاف/ اتفاق کرنا: ہر پڑھنے والے کا حق ہے
{ ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }