منجانب فکرستان ٹیگز: طبعیت؛ بی جے پی ؛ نواز شریف؛ زائچہ
آجکل ایک سوال گردش میں ہےکہ پاکستان کی اِس بحرانی کیفیت میں پاکستان کے صدرمملکت کہاں ہیں؟
کالم نگارمحترم ڈاکٹر مجاہد منصوری صاحب نے تو آج اپنے کالم کا عنوان تک یہی رکھا ہےکہ"صدر مملکت
کہاں ہیں؟"
بھارت کے وزیر اعظم جناب من موہن سنگھ کو گونگا، بہرا اور مُسکراہٹ سے نا آشنا وزیر اعظم کہا جاتا
تھا، یہ تو بھلا ہو اُنکی بیٹی کا کہ اس بارے میں ایک کتاب لکھ کراپنے باپ پر لگے اِس الزام کو دُھونے کی
اپنی سی کوشش کی کہ وہ گونگے بہرے بالکل بھی نہیں ہیں، مُسکرانا تو کیا وہ تو ہنسنا بھی جانتے ہیں ، مزاق
کرنا بھی آتا ہے،قہقہہ بھی لگا سکتے ہیں، مجبوری یہ تھی کہ اُنہیں وزیراعظم سونیا گاندھی نے بنا یا تھا اس
لئیے وہ سونیا کے ممنون تھے (جس طرح ممنون حسین نواز شریف کے ممنون ہیں)۔۔
من موہن سنگھایک وضع دار انسان ہیں:اس لیے شاید وہ سمجھتے تھے کہ بولنے پر کہیں منہ سےکوئی ایسی
بات نہ نکل جائے جو سونیا کی طبعیت پرگراں گُزرے،بات سونیا کو پسند نہ آئی تو کہیں احسان فراموشی نہ
ہوجائے۔۔۔شاید اسی خیال کے زیرِ اثر وہ خاموش رہنے کو ہی بہتر حکمت عملی سمجھتے تھے، لیکن بُرا ہو بی
جے پی والوں کا کہ اُنہوں نےمن موہن سنگھ کی اس خاموشی کوالیکشن نعرے میں استعمال کیا کہ"بھارت
کو گونگا بہرا وزیر اعظم نہیں چاہئیے"
من موہن کی طرح ہمارے صدر بھی وضع دار شخصیت کے مالک ہیں، نام کے زائچہ ماہرین بتاتے ہیں
کےشخصیت پر نام کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، ہمارے صدر کا نام ممنون سے شروع ہوتا ہے،اس لیے
ممکن ہے کہ آپ نے بھی من موہن کی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہو کہ خاموشی اُس سے بہتر ہے کہ کوئی
بات منہ سے ایسی نہ نکل جائے جو نواز شریف کی طبعیت پر گراں گُزرے اورممنون کہلائے جانے کے
بجائے احسان فراموش کہلائے جائیں۔۔۔
کےشخصیت پر نام کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، ہمارے صدر کا نام ممنون سے شروع ہوتا ہے،اس لیے
ممکن ہے کہ آپ نے بھی من موہن کی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہو کہ خاموشی اُس سے بہتر ہے کہ کوئی
بات منہ سے ایسی نہ نکل جائے جو نواز شریف کی طبعیت پر گراں گُزرے اورممنون کہلائے جانے کے
بجائے احسان فراموش کہلائے جائیں۔۔۔
٭۔۔۔٭ ۔۔۔٭
پوسٹ میں کہی گئی باتوں سےاختلاف/اتفاق کرناآپکا حق ہے،اب مجھےاجازت دیں،پڑھنے کا بُہت شُکریہ۔
{ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }