فکرستان سے پیش ہے پوسٹ ٹیگز: مغربی معاشرہ/عبادات / معاملات / توازن/اسلامی معاشرہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جاوید چوہدری صاحب کا کہنا ہے کہ اُنکا بس چلے تو وہ یورپ ،امریکہ اور جاپان سمیت پوری ترقی یافتہ دُنیا کو اسلامی معا شرہ قرار دے دیں ۔۔۔ کیونکہ ان معاشروں نے صفائی سے لیکر ایمانداری تک کے وہ تمام اصول اپنائے ہوئے ہیں جو کہ اسلامی ہیں ۔ لیکن جب ہم اسلامی معاشروں میں جھانکتے ہیں تو ہمیں اِن معاشروں میں مسجدیں ،ذکر، اور اہل ایمان کی تقاریر تو بہت ملتی ہیں لیکن ان معاشروں میں صفائی سے لیکر ایمانداری تک میں اسلام کا کوئی اصول دکھائی نہیں دیتا اور چوھدری صاحب کا کہنا ہے کہ یورپ ، امریکہ یا مشرقی بعید کےترقی یافتہ ممالک کا دورہ کرکے دیکھ لیں وہاں پورا پورا اسلام ملے گا/ سوائے کلمہ کے۔ جبکہ ہمارے پاس کلمہ وافر مقدار میں موجود ہے/ لیکن ہمارے پاس اسلام نہیں ہے ۔
جاوید چوھدری صاحب کا مغربی معاشروں کے بارے میں یہ کہنا کہ کلمہ کے علاوہ باقی سب کُچھ اسلامی ہے ۔ انتہا پسندانہ دلیل ہے مثلاً مسلم معاشرہ یکساں جنس کے درمیان شادی کی اجازت نہیں دیتا ہے اور نہ ہی بالغوں کی بغیر نکاح ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے وغیرہ وغیرہ اس لیے چوھدری صاحب کامغربیمعاشروں کو مکمل اسلامی قرار دینا انتہا پسندانہ بات ہے۔۔۔
اس کے علاوہ جاوید چوھدری صاحب نے اپنے کالم میں مسلمانوں میں پائی جانے والی بُرائیاں تو گنوا دیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ مسلما نوں میں یہ بُرائیاں کیونکر پیدا ہوئیں یوں اُنکا یہ کالم ادھورا کالم ہے ۔ میرے خیال میں اسلامی معا شروں میں پائی جانے والے ان بُرائیوں کی مکمل ذمہ داری علمائے کرام پر ہی عائد ہوتی ہے/ چونکہ اسلام کی ٹھیکیداری سوائے علماء کےکسی اور کے پاس نہیں ہے مسلمانوں میں یہ بُرائیاں یوں پیدا ہوئیں کہ علمائے کرام کو عبادات اور دُنیاوی معاملات (وسیع معنیٰ میں) میں جوتوازن برقرار رکھنا چاہئیے تھا وہ نہ رکھ سکے/ عُلمائے کرام نے اپنا سارا زور عبادات پر رکھا اور معاملات کو پسِ پشت ڈالدیا / جسکا نتیجہ توازن بگڑ گیا مثلاً نماز کی پابندی پر تو بہت زور رہا لیکن قُرآن کی معاملات والی اس آیت کو نظر انداز کردیا گیا کہ نماز بُرائی کو روکتی ہے ۔ اسی طرح علمائے کرام نے عبادت کے حوالے سے احادیث میں سے ایسی چھوٹی چھوٹی حدیثیں منتخب کرکے مسلمانوں کو دے دیں کہ یہ اتنی بار پڑھو اتنے گُناہ معاف ہو جائیں گے اس سے مسلمان معاشروں میں یہ ہُوا کہ صحیح معاملات کی عملی ادائیگی کی بجائے اُنکے ہاتھوں میں تسبیح اور کاؤنٹر آگئے ۔اس طرح عبادات اور معاملات کے درمیان توازن بگڑ گیا ۔( توازن کائنات کا ذرہ ذرہ جسکا مظہر ہے ) توازن بگڑ جائے تو اوزون میں سوراخ ہوجاتا ہے ،گلیشئیر پگھل جاتے ہیں ، گھر اُجڑ جاتے ہیں جبکہ مذاہب عبادات فرقہ واریت اور عدم برداشت تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں ۔۔۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ علمائے کرام کی مہر بانی سے پوری دُنیا میں مسلمانوں سے زیادہ عبادت گُذار کوئی نہیں ہے،ماشا اللہ عبادات پر بہٹ زور ہے/ لیکن یہ بھی اپنی جگہ ایک ایسی ہی حقیقت ہے کہ ان ہی علمائے کرام کی مہربانی سے معاملات( وسیع معنیٰ میں ) میں مسلمان ٹھیک اتنے ہی بُرے ہیں جتنے کہ جاوید چوھدری نے اپنے کالم" کلمہ ہے لیکن اسلام نہیں " میں دکھایا ہے ۔۔۔
مکمل کالم ذیل لنک پر ہے۔( تبصروں کی پبلشنگ بند ہے ) ۔
۔ ( ایم ۔ ڈی )۔