Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Sunday, April 28, 2013

" موبائل فون کا استعمال "


منجانب فکرستان: آگہیکے لیے۔۔ 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نیویارک: عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او ) نے موبائل فون کے حد سے زیادہ استعمال سے متعلق جاری گئی اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ موبائل فون کا زیادہ استعمال کرنے والوں میں دماغی اور ہڈیوں کی بیماریاں سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں اور وہ برین کینسر میں بھی مبتلا ہوسکتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے مختلف ملکوں جن میں بھارت بھی شامل ہے میں مختلف سروے کرانے کے بعد ایک رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ روزانہ تیس منٹوں تک موبائل کالیں کرتے ہیں وہ مختلف دماغی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ ٹیومر اور برین کینسر میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔۔۔
 رپورٹ کے مطابق ایس ایم ایس کا زیادہ استعمال کرنے سے نہ صرف ہاتھ کی انگلیاں متاثر ہوتی ہیں بلکہ کمر کی ہڈیوں کو بھی زبردست نقصان پہنچ جاتا ہے۔ ادارے نے کہا ہے کہ موبائل کی روشنی سے لوگوں جن میں بچے بھی شامل ہیں کی آنکھ میں بیماریاں پائی جا رہی ہیں اور ساتھ ہی لوگوں کا وہ طبقہ جو موبائل کا دیوانہ ہوگیا ہے ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ دس برسوں کی زبردست تحقیقات کے بعد منظر عام پر لائی گئی ہے اور اس میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ زیادہ موبائل کے استعمال سے سننے اور یادداشت کی طاقت  بھی کم ہو رہی ہے۔ ریاست کے وزیر جنگلات میاں الطاف نے اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ ریاست میں موبائل ٹاوروں کے بارے میں سرکار پوری طرح سے جانچ پڑتال کے بعد ضروری اقدامات اٹھائے گی تاہم اس سلسلے میں ابھی تک کوئی قدم نہیں اٹھایا  گیا، اس کے برعکس ٹاوروں کی تعداد میں مسلسل  اضافہ ہو رہا ہے۔( بشکریہ اردو ٹائمز)۔
{ پڑھنے کا شکریہ،  رب راکھا }

Friday, April 26, 2013

" مُلک کے حوالے سے "

 منجانب فکرستان :ایکسپریس اخبار میں شائع شُدہ چیئرمین نیب، جناب فصیح بُخاری کی باتیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایکسپریس کے جناب غلام محی الدین اور جناب فصیح بُخاری چیئرمین نیب کے  درمیان جوباتیں ہوئیں وہ  ملک کے حوالے سے غور طلب ہیں کہ پاکستان کے ادارے کس وجہ سے تباہ ہوئے ؟؟  سیاست دانوں اور بیوروکریسی، کے بارے میں اُن کی کیا رائے ہے ؟؟ زندگی کسطرح گُذارنی چاہئیے ؟؟ آپ خود پڑھ کر دیکھ لیں، مجھے جو باتیں پسند آئیں، اُنہیں بلو کلر سے ہائی لائٹ کیا ہے ۔۔جناب فصیح بُخاری صاحب کی کنِ باتوں سے اتفاق کرنا ہے یا نہیں کرنا یہ ہمارے اختیار کی بات ہے ۔۔ ۔۔۔۔۔۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایکسپریس: زندگی میں کبھی سوچا تھا کہ آپ چیئرمین نیب کی حیثیت سے ملک کے لیے خدمات سرانجام دیں گے؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری: چیئرمین نیب کا عہدہ سنبھالنے سے کوئی ایک ڈیڑھ سال پہلے میں بڑی شدت سے سوچا کرتا تھا کہ ملک روز بہ روز کم زور ہو رہا ہے، معاشی، معاشرتی اور ہر سطح پر عدم تحفظ محسوس کرنے کے بعد مجھ جیسے لوگ ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر باتیں کر کے، اخباروں میں کالم لکھ کر یا انٹرنیٹ بلاگس پر اپنی رائے دے کر وقتی طور پر دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں لیکن کوئی مثبت تبدیلی سامنے نہیں آ سکی۔
مجھے محسوس ہونے لگا کہ یہ صرف خیالی دنیا کی سرگرمیاں ہیں، عملی سطح پر وہی موجود ہے جس کو ہم بدلنے پر آمادہ نہیں۔ پھر میں نے ضروری سمجھا کہ آگے بڑھ کر کوئی عملی قدم اٹھانے اور ٹھوس کام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، میرا ایمان ہے کہ خلوص نیت سے کچھ کرنے کا ارادہ ہو تو وہ کام ہو جاتا ہے، تب میں نے محسوس کیا کہ ملک کو درپیش سب سے بڑا چیلنج بدعنوانی ہے ،سو مجھے اِس عہدے کی آفر ہوئی تو میں نے اِس کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کر لیا۔
ایکسپریس:اِس عہدے کو پانے کے لیے باقاعدہ کوشش کی؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری:سوچا ضرور تھا لیکن ہاتھ پاؤں نہیں مارے، جب مجھے آفر ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ اب عملی سطح پر کچھ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
ایکسپریس:آپ نے ملک کے لیے کچھ کرنے کی خاطر یہ عہدہ سنبھالا، وہ کون سا کام ہے جس کے متعلق آپ کہ سکیں کہ میں نے عملی سطح پر یہ کام کیا ہے، جس سے ملک میں بدعنوانی میں نمایاں کمی ہوئی؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری:میں نے جو سب سے بڑا کام کیا، وہ یہ ہے کہ میں نے ادارے کو ایک درست سمت فراہم کردی ہے۔
پہلے صرف یہ سوچا جاتا تھا کہ احتساب تب ہی ہو گا جب آپ کسی بڑی مچھلی کو پکڑیں گے، گزشتہ 65 سال سے اِسی سوچ کے ساتھ ملک کو ٹھیک کرنے کی کوششیں ہو رہی تھیں جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں بڑی مچھلی کو پکڑنے کی بجائے اُسے بڑی مچھلی بننے سے روک دینے پر کام ہو رہا تھا جو جاری ہے۔ اِس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے اداروں کو مضبوط کریں، ان کو فعال بنائیں تاکہ بدعنوانی کرنے کے لیے جو آسان راہیں بنا دی جاتی ہیں وہ ختم ہوں۔ پاکستان میں ادارے بدعنوانی کی وجہ سے تباہ و برباد ہو چکے ہیں، ادارے جتنے مضبوط ہوں گے کرپشن اسی تناسب سے کم ہو گی۔
ایکسپریس:اداروں کے مضبوط نہ ہونے کی وجوہات پر آپ نے کبھی غور کیا؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری:اس میں غور کرنے والی بات ہی نہیں، جب بھی کسی ملک کے ریگولیٹری نظام میں سیاست کا عمل دخل بڑھتا ہے تو وہ کم زور ہونے لگتے ہیں۔ اداروں کو کم زور کرنے والی سوچ کا حامل ایک گروہ ہوتا ہے جو نہیں چاہتا کہ ادارے مضبوط ہوں، اِس سوچ کے حامل لوگ سب سے پہلے اداروں میں کام کرنے والی بیوروکریسی کو روپے پیسے کے ذریعے زرخرید غلام بناتے ہیں۔ ادارے جب اِس مرحلے سے گزر جاتے ہیں تو ان کا وقار اور مرتبہ ختم ہو جاتا ہے اور یوں وہ اندر سے کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔ کرپشن کی ابتدا ہمیشہ لالچ سے ہوتی ہے۔
جب ارباب اختیار کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے یا بٹھا دی جاتی ہے کہ ان کی ترقیاں جلد ہو جائیں گی ان کو من پسند عہدے مل جائیں گے، پلاٹ ملیں گے اسی طرح کی اور بہت سی ترغیبات دی جاتی ہیں، پھر سیاسی عمل دخل بھی شروع ہو جاتا ہے اور یوں تالی دونوں ہاتھوں سے بجنے لگتی ہے۔ اس کھیل میں پرائیویٹ سیکٹر، سیاست دان اور بیوروکریسی مکمل اتفاق رائے سے بدعنوانی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ ایک گٹھ جوڑ ہے جس کو توڑنے کی ضرروت ہے۔
ایک طریقہ تو یہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کا آپریشن کیا جائے؟ یہ غلط طریقہ ہے کیوں کہ یہی شعبہ تو ملک کی شرح نمو اور ترقی کا ذریعہ ہوتا ہے، اِس شعبے میں لوگ پیسہ بنانے اور کمانے آتے ہیں، اس کو چھیڑنے کے بجائے اِس شعبے کو مزید فعال اور شفاف بنانا چاہیے تاکہ معاشی سطح پر استحکام کی پائدار بنیادیں رکھی جا سکیں۔ اب آ جائیے دوسرے عنصر یعنی سیاست دانوں پر؛ کیا ان کو شکنجے میں لایا جائے؟ ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جا سکتا ہے لیکن یہ حقیقت خاصی تلخ ہے کہ وہ بہت زیادہ طاقت ور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اِس طاقت کو بہت سے معنوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے، جب یہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو کوئی ادارہ ان کے خلاف کچھ کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔
نظریاتی اختلاف کے باوجود یہ ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں۔ میں یہاں دوسروں کی مثال ہرگز نہیں دوں گا، اُسی کی بات کروں گا جس کا میں چیئرمین ہوں، سیاست دان اِس ادارے کے سخت خلاف تھے، حکومت اور حکومت سے باہر تمام سیاست دان اِس کوشش میں تھے کہ کسی طرح یہ ادارہ ہی بند ہو جائے۔
ایکسپریس:تو پھر بند کیوں نہیں ہوا؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری:نیب کا ادارہ آج قائم ہے تو یہ میری وجہ سے نہیں بل کہ سیاست دانوں کے آپس کے اختلاف کی وجہ سے بچ گیا۔ میں اِس کو اللہ تعالیٰ کا کرم ہی کہوں گا۔
ایکسپریس:آپ نے سیاست دانوں کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کیا، کیا حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک ہی حمام میں ہیں؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری:آپ میثاق جمہوریت کا مسودہ اٹھا کر پڑھیں جس پر دونوں فریقوں نے اتفاق کیا تھا کہ ملک سے نیب کے ادارہ کو ختم کر دیا جائے گا۔ اگر یہ میثاق کام یاب ہو جاتا تو یہ ادارہ کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔ یہ بات تو فلور آف دی ہاؤس پر اس وقت کے وزیراعظم گیلانی نے کہی تھی کہ اس ادارے کو ختم کرنا ہے۔
ایکسپریس:پھر تو احتساب سیاست دانوں سے شروع ہونا چاہیے؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری:نہیں، سیاست دانوں سے بھی نہیں بل کہ بیورو کریسی سے احتساب شروع ہونا چاہیے، سیاست دان تو آتے جاتے رہتے ہیں، بیورو کریسی جگہ ضرور بدلتی ہے مگر وہ قائم دائم رہتی ہے، بیورو کریٹ ہی اس ملک کے اصل ریگولیٹر ہیں۔
ایکسپریس:آپ کی وضاحت میں کچھ ابہام ہے کہ بیورو کریسی کو زنجیریں ڈالنی ہیں یا…؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری:زنجیریں ڈالنے سے کچھ نہیں ہوتا، ماضی میں جھانک لیں کچھ نہیں ہوا، آپ نے اب ملک کی بیورو کریسی کو اخلاقی سطح پر مضبوط کرنا ہے تاکہ وہ لالچ اور دیگر فوائد کے سامنے ڈٹ جائے اور اس گروہ کا حصہ نہ بنے جو انھیں بہکانے میں کام یاب ہو جاتا ہے، نیب نے اِس پس منظر میں 64 اداروں کو سامنے رکھا ہے جہاں پر یہ سب کچھ ہوتا چلا آ رہا ہے۔
ایکسپریس:اگر بیورو کریسی کا قبلہ درست ہو جائے تو کرپشن کا خاتمہ ممکن ہوگا؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری: صرف بیورو کریسی ہی کیوں؟ میں نے اِس عہدے پر رہتے ہوئے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ بیورو کریسی کے علاوہ بھی ادارے ہیں۔اگر یہ طے کر لیا جائے کہ ہر شعبے میں فیصلے میرٹ پر ہوں گے تو بیورو کریسی میں موجود آدھی سے زیادہ کالی بھیڑیں یا تو ریوڑ سے نکل جائیں گی یا وہ بھی درست سمت میں چلنے لگیں گی۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ آزاد عدلیہ ہی وہ پلیٹ فارم ہے جہاں پر آپ غاصب اور فراڈ کرنے والوں کو لے جا کر ان کا احتساب کر سکتے ہیں۔
میں جب اس عہدے پر نہیں تھا تو آزاد عدلیہ کے تحفظ کے لیے ’’ایکس سروس مین‘‘ کے پلیٹ فارم سے سڑکوں پر نکلا تھا، پوری قوم نے آزاد عدلیہ کے لیے جو جدوجہد کی اس کا بہت بڑا حصہ میرے خیال میں حاصل ہو چکا ہے لیکن گنجائش اب بھی باقی ہے۔ اچھائی کے لیے گنجائش ہر وقت موجود رہتی ہے۔ اِس مرحلے کے بعد بیورو کریسی کی باری آتی ہے اور آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں وہ بیورو کریسی کی اصلاح کا وقت ہے۔ بڑی سے لے کر چھوٹی سطح تک بیورو کریسی کی اصل ذمے داری یہ ہوتی ہے کہ ملک کے خزانے میں جوپیسہ آتا ہے اس کی حفاظت کو ممکن بنائے تاکہ وہ رقم ملک کے بہترین مفاد میں استعمال ہو سکے۔
ایکسپریس:ملک کے خزانے میں آنے والے پیسے کو محفوظ رکھنا احسن بات ہے لیکن کس سے محفوظ رکھنا؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری:(ہنستے ہوئے) یہی بات میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ وہ کون سا عنصر ہے جس سے محفوظ رکھنا ہے؟… دیکھیں، ملک کے پیسے کو نقصان فرد کی بجائے فرد کی نیت پہنچاتی ہے، نیت بد ہوجائے تو پھر لالچ آ جاتا ہے اور لالچ ہی سے کرپشن کاآغاز ہوتا ہے یہ ہی کرپشن کا منفی طریقۂ کار ہے۔ اسی کوتوڑنا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہو گا جب ہم بیورو کریسی کواخلاقی سطح پر مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے اوپر آزاد عدلیہ کو بھی مضبوط بنائیں گے۔
ایکسپریس:سیاست دان تو پھر مکمل طور پر بری الذمہ ہو گیا؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری: آزاد عدلیہ اور اخلاقی سطح پر مضبوط بیوروکریسی کے مرحلے سے جب ہم گزر جائیں گے تو سیاست دان خواب میں بھی کرپشن کرنے کا نہیں سوچیں گے۔ کرپشن جس نظام کے تحت قائم ہوتی ہے اُس میں ’’چین سسٹم‘‘ کی خصوصیت ہوتی ہے، کوئی بھی اکیلا کچھ نہیں کر سکتا، اب سیاست کمانے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے جب اداروں کا وجود اور نظام فعال ہو گا تو سیاست میں کمائی کے لیے آنے والوں پر سیاست کے دروازے خود بہ خود بند ہو جائیں گے۔ یقین کریں جس دن کمائی نہ کرنے والے سیاست دان پارلیمنٹ میں آ گئے اُس دن پارلیمنٹ کو اپنی بالادستی کا ڈھنڈورا پیٹنا نہیں پڑے گا۔
ایکسپریس:لیکن آج کل تو ایک تاثر یہ بھی ابھر رہا ہے کہ سیاست دان ہی سب سے زیادہ آسان ٹارگٹ ہیں، ان کا احتساب جب چاہو کر لو، ان کی نسبت دیگر ادارے یا لوگ مشکل ٹارگٹ کے زمرے میں آتے ہیں! مثلاً اِس میں فوج بھی شامل ہے۔
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری:میری رائے اِس کے بالکل برعکس ہے۔ اِس ملک میں سب سے مشکل ہدف سیاست دان ہی ہیں، جو اپنے پیچھے ثبوت تک نہیں چھوڑتے، اِن کا احتساب جان جوکھوں کا کام ہے، رہی بات فوج کی تو وہاں پر احتساب کا اپنا نظام ہے جو نہایت عمدہ ہے۔ فوج کے احتساب کی ذمے داری نیب کی نہیں لیکن ہم سب کو الگ الگ کرکے دیکھنے کی بجائے یوں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ہم سب ایک ہیں، فوج، سویلین اور سیاست دان الگ ہرگز نہیں ہیں۔ اگر ایک بھائی فوج میں ہے تو دوسرا بیوروکریسی کاحصہ ہے اور تیسرا سیاست کے میدان میں ہے، کام کی نوعیت کو خانوں میں نہیں بانٹنا چاہیے، اِس طرح کے تاثرات ہمیں بحیثیت قوم کم زور کرتے ہیں۔
ایکسپریس:لیکن فوج والے جب اپنی گفت گو میں ایک اصطلاح ’’بلڈی سویلین‘‘ استعمال کرتے ہیں تو اُس سے ’’ہم سب ایک ہیں‘‘ کے تاثر کو تقویت کیسے مل سکتی ہے؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری:میں نے اپنے پورے بتالیس سالہ فوجی کیریئر میں یہ ٹرم کسی فوجی کی زبان سے ادا ہوتے نہیں سنی۔ یہ ٹرم جب بھی سماعت سے ٹکرائی تو میرے سامنے ہمیشہ ایک سویلین ہی ہوتا ہے، میں نہایت ایمان داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ فوج کے خلاف ایک زہریلا پروپیگنڈا ہے تاکہ فوج کو عوام کی حمایت سے محروم کیا جا سکے۔ میں نیوی کے علاوہ آرمی اور ایئر فورس کے اعلیٰ رینک کے سیکڑوں آفیسروں سے ایک عرصہ سے گفت گو کرتا چلا آ رہا ہوں مجال ہے دوران گفت گو کسی نے بھی یہ ٹرم استعمال کی ہو۔
اِس ٹرم کا پروپیگنڈا کرنے والے وہ لوگ ہیں جو یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس ملک کو آج تک اگر کسی ادارے نے متحد رکھا ہوا ہے تو وہ پاکستان کی فوج ہی ہے، میری یہ بات لکھ لیں کہ جس دن اس ملک کی فوج کے حصے بخرے کر دیے گئے اسی دن ملک کے بھی حصے بخرے ہو جائیں گے۔ میں خبردار کرتا ہوں کہ ملک کو تباہ کرنے والے اس کھیل کو جاری رکھے ہوئے ہیں، ہم نے پوری ہوش مندی کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا ہے۔
ایکسپریس:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ چیئرمین نیب کی ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد اِس ادارے کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری:میں اِس ادارے کی کارکردگی کو بہتر سے بہترین بنانے کے لیے کوشاں ہوں، مجھے ایک بڑی آرگنائزیشن چلانے کا تجربہ ہے لیکن ایک اکیلا آدمی وہ سب کچھ نہیں کر سکتا جو وہ چاہتا ہے۔ اِس ادارے کی بہتری کے لیے تمام ترمشترکہ کوششیں ہی رنگ لا سکتی ہیں اِس ادارے کو درست سمت میں آگے بڑھانے کی جو بنیاد میں نے رکھی ہے وہ آنے والے دنوں میں ضرور رنگ لائے گی، مینجمنٹ لیڈر شپ میں درست وقت پر درست فیصلہ نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
ایکسپریس:آپ کے ادارے کی راہ میں روڑے اٹکانے والے ادارے بھی ہوں گے، کیا ان سے کبھی پریشانی ہوتی ہے؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری: جو کام نہیں کرنا چاہتا وہ ہمیشہ جواز ڈھونڈتا ہے، کام نہ کرنے کے لیے جس طرح سیکڑوں بہانے ہوتے ہیں اسی طرح کام کرنے کے لیے بھی بہت سے محرکات ہوتے ہیں جو آپ کے لیے راستے کھول دیتے ہیں کام کرنے والا جب اپنا ہدف منتخب کر لیتا ہے تو پھر روڑے اٹکانے والے بہت سے لوگ خود بخود پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
ایکسپریس:آپ نے چیئرمین نیب کی حیثیت سے صدر مملکت کو ایک خط لکھا تھا اِس خط کے لکھنے کے محرکات بتانا پسند کریں گے؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری: یہ معاملہ کیوں کہ ملک کی اعلیٰ عدالت میں زیر سماعت ہے اس لیے اس بارے میں فی الوقت کچھ کہنا مناسب نہیں لگتا، بہتر یہ ہو گا کہ میں نے جو کچھ کہنا ہے وہ عدالت کے ہی روبرو کہوں۔
ایکسپریس:نیب جب کسی کیس کی تفتیش کرتا ہے اور اُس میں ثبوت نہیں ملتے تو کیا اُس کیس کو عدالت میں لے جانے سے گریز نہیں کرنا چاہیے؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری: بالکل ایسا ہی ہونا چاہیے۔
ایکسپریس:اِس بات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہی کیا عدالتوں میں جا کر ملزمان رہا ہو جاتے ہیں؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری: دیکھیں ہمارا کام انویسٹی گیشن ہے، ثبوت اکٹھے کرکے کیس تیار کرنا ہے، اگر عدالت ان کو تسلیم نہیں کرتی اور ملزم کو چھوڑ دیتی ہے تو اِس پر ہم عدالت کے فیصلے کو غلط ہرگز نہیں کہ سکتے، کیوں کہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہمارا نہیں، عدلیہ کا کام ہے۔
ایکسپریس:نگران حکومت کے آنے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ نیب پہلے سے زیادہ متحرک اور فعال ہو گیا ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ درست ہے؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری: حکومت جانے اور نگران حکومت کے آنے سے نیب کی کارکردگی میں فرق نہیں آیا، یہ ادارہ پہلے بھی متحرک اور فعال طریقے سے کام کر رہا تھا اور اب بھی کر رہا ہے یہ ادارہ انفرادی سطح کی کوششوں کے بجائے مشترکہ اور اجتماعی کوششوں سے اپنے کام اور ذمے داریوں کو سرانجام دیتا ہے، جیسے میں نے پہلے کہا کہ جانے والی حکومت اس ادارے کو بند کرنے کا ارادہ رکھتی تھی لیکن فضا سازگار نہ ہو سکی، مثلاً اِس ادارے میں غیر ضروری بھرتیوں کی بھرمار ہو چکی تھی، اِس ادارے کے بہت سے ونگز بند ہو چکے تھے اب ہم ان کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بہت سے شعبے دوبارہ کام کرنے لگے ہیں، ادارے نے نئے ’’انویسٹی گیٹرز‘‘ بھرتی کر لیے ہیں، ان کی تربیت ہو رہی ہے، ایف بی آئی، یورپی یونین اور کینیڈین پولیس ان کی تربیت میں حصہ لے گی تاکہ یہ سراغ رساں عالمی معیار پر پورا اتر سکیں۔ اگر ہماری سراغ رسانی عالمی معیار کی ہو گی تو تب ہی ملک سے کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف ثبوت اکٹھے ہو سکیں گے۔
ایکسپریس:ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے مختصر مگر جامع حکمت عملی کیا ہو گی جس پر فی الفور کام شروع کیا جا سکے؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری:کرپشن کے خاتمے کے لیے سب سے اہم حکمت تو یہ ہے کہ آپ قبل از وقت ایسا حصار قائم کر دیں کہ بدعنوانی کے لیے فضا سازگار ہی نہ رہے، بدعنوانی کی ایک بہت اہم اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کرپشن کے لیے ہم خود فضا سازگار کر دیتے ہیں، اپنی غفلت، سستی اور نا اہلی کی وجہ سے حفاظتی حصار قائم ہی نہیں کرتے۔ آپ خود سوچیں کہ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم چور کو چوری کرنے کا موقع ہی نہ فراہم کریں یا پھر یہ کہ ہم پہلے اُسے چوری کرنے کاموقع دیں اور جب وہ چوری کر لے تو اُس کو پکڑ کر عدالت میں لے جائیں اور اُس کو سزا دلا کر خود کو کامیاب تصور کریں میرے خیال میں اصل کامیابی یہ نہیں، کامیابی یہ ہے کہ ہم چور کے تمام ارادوں پر پانی پھیر دیں، ہمارا ادارہ پہلے والی پالیسی پر گام زن ہو چکا ہے۔
یہ بہ ظاہر بڑی پھیکی سی پالیسی ہے، اکثر و بیش تر ہماری کارکردگی اس لیے تنقید کی زد پر بھی آ جاتی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہی درست سمت ہے۔ نیب نے حال ہی میں ہونے والی تمام سرکاری خریداریوں اور منصوبوں کے معاہدوں پر نظر رکھی ہوئی ہے کہ کون کہاں، کیا کر رہا ہے؟ اس حکمت عملی کے تحت اب تک 64 ڈیپارٹمنٹس کو ہم مانیٹر کر چکے ہیں، 1.5 کھرب روپے کی خریداری کو ہم نے مختلف منصوبوں میں فوکس کیا اور انھیں راہ ہدایت پر لانے کے بعد خزانے کو 200 ارب روپے کی بچت فراہم کی۔
ایکسپریس:جعلی ڈگریوں کی وجہ سے بہت سے سیاست دان نااہل ہو چکے ہیں اور مزید نا اہل ہونے کا امکان ہے لیکن یہ جعلی ڈگریاں جو لوگ تیار کرتے ہیں، ان کے خلاف ابھی تک کوئی آپریشن شروع نہیں ہوا، جعلی ڈگری والے ان لوگوں کی بڑی آسانی سے نشان دہی کر سکتے ہیں… کیا کہیں گے آپ؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری: دیکھیں جعلی ڈگری کے ذریعے جن لوگوں نے الیکشن لڑا، کام یابی حاصل کرنے کے بعد اسمبلیوں سے تن خواہیں اور مراعات حاصل کیں وہ اس قوم کے مجرم ہیں، جو پکڑے نہیں جاتے وہ ابھی تک معزز ہیں، یہ ہمارے نظام کی ایک خرابی ہے جس کو دور کرنے کی ضرورت ہے، جعلی ڈگریاں تیار کرنا اور جعلی ڈگریوں کے ذریعے خود کو تعلیم یافتہ ثابت کرنا دونوں جرم ہیں، اِس مائینڈ سیٹ کو بدلنا پڑے گا، اِس طرح کی اور اسی نوعیت کی دیگر کرپشن کو ختم کرنے کے لیے نیب کو مرکز کے ساتھ ساتھ صوبائی، ڈویژن اور ضلع کی سطح تک اپنے دائرہ کار کو بڑھانا ہوگا بل کہ میری خواہش تو یہ ہے کہ نیب کے دفاتر یونین کونسل کی سطح تک ہونے والی کرپشن کو بھی دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
اس کو نیب کی توسیع پسندی کہا جائے گا لیکن میرے پاس اِس کا مضبوط جواز ہے۔ ہمارے ہاں بڑی بڑی مچھلیاں پکڑنے کو ہی بدعنوانی کے خاتمے کی نشانی قرار دیا جاتا ہے حالاں کہ معمولی معمولی سیکڑوں اور ہزاروں روپے تک کی یومیہ بدعنوانی کو اگر آپ جمع کریں تو یہ اربوں روپے سے تجاوز کر جاتی ہے، اگر ہم اس کو روک لیں تو یومیہ اربوں نہیں تو کروڑوں کے حساب سے حکومت کے خزانے میں رقم جمع ہو سکتی ہے۔
نیب کے ادارے میں رہتے ہوئے ایک اور بات میں بڑی شدت سے محسوس کرنے لگا ہوں کہ ہمارے تعلیمی ادارے بچوں کی تربیت سے غفلت برتنے لگتے ہیں، تعلیم اور تربیت میں فرق ہوتا ہے، تربیت فرد کے کردار کو کمپوز کرتی ہے، صبر و تحمل، برداشت، حق بات کہنے کی جرأت اور خود احتسابی جیسے اوصاف پیدا کرتی ہے، جب ہمارے تعلیمی اداروں میں اساتذہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر زور دیا کرتے تھے تو اُس وقت کرپشن کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی لیکن آج کرپشن کو برائی سمجھنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں، طرح طرح کے جواز بہانے اور حیلے تراشے جا رہے ہیں، یہ سب کچھ ہمارے اسکول کالجوں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں کم زوری سے لے کر گھر اور اسکول میں دی جانے والی تربیت میں کم زوری ہی تو ہے۔
ایکسپریس:نیب کے چیئرمین کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے آپ کو آپ کی فوجی تربیت نے مدد فراہم کی؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری:فوج میں رہ کر حاصل ہونے والی تربیت نے مجھے بہت مدد دی، فوج کی تربیت سے میں نے یہ سیکھا کہ جو اپنے تخلیق کردہ ’’آئیڈیاز‘‘ ہوتے ہیں ان کو آگے بڑھانے میں جہاں آسانی ہوتی ہے وہاں ان میں بہتری کی گنجائش بھی ہوتی ہے۔
ایکسپریس:گزشتہ دنوں شریف خاندان نے نیب کی طرف سے عدالتوں کو فراہم کیے گئے مواد پر تحفظات کے ساتھ ساتھ برہمی کا بھی اظہار کیا اور پھر دوسرے دن شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں تو نیب نے کلیئر کر دیا ہے اگر ہم پر قرضے ہیں تو ہم سیاست کو خیر باد کہ دیں گے، اصل معاملہ کیا ہے؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری:ہمیں جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ آپ کے پاس جو ریکارڈ ہے وہ ہمیں فراہم کر دیں، ہم نے تمام ریکارڈ ای سی پی کو دے دیا۔ ہمارے ریکارڈ میں یہ تھا کہ شریف خاندان کا جو قرضہ معافی کا کیس ہے وہ احتساب عدالت میں زیر سماعت ہے۔ یہ گزشتہ دس سال سے بند تھا، ہمیں جب کورٹ نے کہا کہ آپ اس کیس کو اوپن کریں تو ہم نے اس کو شروع کردیا، جس پر متعلقہ فریق ہائی کورٹ میں چلا گیا اور اب وہ ہائی کورٹ میں چل رہا ہے۔
یہاں دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ ہم نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو وہی چیز دی ہے جو خود شریف خاندان نے لکھ کر دیا ہوا ہے، اب یہ ای سی پی پر منحصر ہے کہ وہ اِس میٹر کو کیسے دیکھتا ہے۔ نیب اس ضمن میں نہ تو کسی کو ٹارگٹ کر رہا ہے اور نہ ہی کسی کو کلیئر کر رہا ہے، نہ ہی کوئی ہمارا ایسا ایجنڈا ہے۔ میری تمام سیاست دانوں سے گزارش ہے کہ ان کو بولنے سے پہلے ضرور سوچنا چاہیے ،ہر بات یا ہر معاملہ کو سیاست نہیں بنانا چاہیے۔
اگر وہ ملکی اداروں کو جھکائیں گے تو اصل میں وہ خود کو جھکائیں گے، فرض کریں کل یہ ہی لوگ ملک کے حکم ران بن جاتے ہیں تو کیا وہ ان اداروں کی عزت نفس کا خیال نہیں رکھیں گے؟ آج کل پورے ملک میں یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ پاکستان کرپٹ ہو چکا ہے، تباہ ہو چکا ہے، جب ہم اپنے اداروں اور ایک دوسرے پر حملے کرتے ہیں تو ہم اپنے عوام سمیت دوسروں کی نظروں میں بھی آ جاتے ہیں، لوگ سمجھتے ہیں کہ سارے ہی نکمے ہیں، خدا کے لیے تھوڑی سی دور اندیشی کے ساتھ کام لینا چاہیے۔ اس ملک کو توڑنے سے پہلے اپنے خود ساختہ روّیوں کو توڑ دیں تو ہم بہت سی مشکلات سے باہر آ جائیں گے۔
ایکسپریس:آپ نے جس صورت حال کا نقشہ پیش کیا اُس سے محسوس ہوتا ہے کہ ہم بہ حیثیت قوم ایک ہجوم میں بدل چکے ہیں، آپ اتفاق کریں گے؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری: جب ہماری لیڈر شپ سوچے گی نہیں تو پھر یہ ہی کچھ ہو گا وہ نہیں سوچتے کہ آج جو میں کہ رہا ہوں اُس کا کیا اثر ہو گا؟ دور اندیشی اور معاملہ فہمی جیسے اوصاف سے ہمارے راہ نما خالی ہوتے جا رہے ہیں۔
ایکسپریس:سال 2013 کے انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے نیب مددگار ثابت ہو گا؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری: ہمارے پاس جو کچھ ریکارڈ پر ہے وہ ہم نے الیکشن کمیشن کو فراہم کر دیا ہے، جو نام ہمیں ملے ہم نے ان کے متعلق تمام کوائف الیکشن کمیشن کو فراہم کر دیے۔ اس بارے میں ہم نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بھی کہا تھا کہ جس نے فائدے اٹھانے اور مراعات لینے کے لیے غلط بیانی سے کام لیا ہے، ہم اُس کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں۔ پورے ملک سے صوبائی اور قومی اسمبلی کے 728 ارکان منتخب ہونے والے ہیں، الیکشن سے پہلے ای سی پی ہزاروں لوگوں کے کوائف کی جانچ پڑتال کر رہا ہے، جب ان میں سے 728 منتخب ہو کر آئیں گے تو ہم ای سی پی ان کے وہ کاغذات مانگیں گے جو انھوں نے جمع کرائے ہوں گے پھر ان کی روشنی میں ہم چھان بین کریں گے۔ اُس میں دیکھا جائے گا کہ پوری معلومات فراہم کی گئی ہیں، غلط بیانی سے کام تو نہیں لیا گیا۔
اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ انھوں نے دھوکا کیا گیا ہے تو ہم نیب آرڈینیس کے تحت ان کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں۔ منتخب ہونے کے باوجود جرم ختم نہیں ہو جاتا۔ اس کی مثال اب دیکھی جا رہی ہے کہ پانچ سال جعلی ڈگری پر مراعات لینے والے اب جیل جا رہے ہیں۔
ایکسپریس:آپ زندگی کے جس حصے میں ہیں وہ تجربات سے بھرپور ہوتی ہے، کیا کھویا کیا پایا؟
ایڈمرل(ر) فصیح بخاری: خدا کا شکر ہے کہ میں نے تمام زندگی بہترین ماحول میں گزاری۔ میری زندگی میں مختلف ناقابل فراموش واقعات بھی موجود ہیں جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ جو انسان اپنے تجربات سے سیکھ نہیں سکتا وہ ہمیشہ دکھی رہتا ہے لیکن میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا، میں آپ کے اخبار کے توسط سے یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ انسان کو بہتر سے بہتر کے لیے محنت سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ کوشش خود کریں نتیجہ خدا پر چھوڑیں، میرے خیال میں ہم سب دنیا میں اس لیے آئے ہیں کہ ہمیں ایک دوسرے کا سہارا بننا چاہیے، جو ایسا نہیں کرتا یا کر سکتا وہ فطرت کے تقاضوں سے دور ہوتا ہے۔ ہر انسان دنیا میں بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، اگر وہ گرنے لگے تو سب سے پہلے اُس کو سنبھالنا چاہیے۔ ایک واقعہ شیئر کرتا ہوں:
جب تین سال قبل میرا 34 سالہ بیٹا کار کے حادثے میں اللہ کو پیارا ہوا تو بہ حیثیت والدین ہم بہت بڑے صدمے سے دوچار ہوئے لیکن سبق یہ ملا کہ اب جو باقی زندگی ہے اُس کو دوسروں کی بہتری کے لیے وقف کر دو۔ اگر آپ اپنی مختصر سی زندگی میں صرف مال و دولت اور دنیاوی اشیاء اکٹھی کرنے میں گزاردیں گے تو آپ اس لطف سے محروم ہو جاتے ہیں جو عطا کرنے، دوسروں کے دکھ بانٹنے سے حاصل ہوتا ہے، اگر آپ کا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہے تو پھر بہت سے مسائل پیدا ہی نہیں ہوتے۔
میرے خیال میں شاید ہی کوئی فرد اس دنیا کو پوری آگہی اور معلومات کے ساتھ سمجھ سکا ہو، ہر فرد کا تجربہ اپنا ہے، دکھ اپنا ہے اور وژن اپنا ہے، جب ہم قدرتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں تو پھر کیوں نہ ہم اپنے آئیڈیاز پر بھروسا کریں ان کی چھان پھٹک کرکے ان کو آگے بڑھائیں، دوسروں کی طرف کیوں دیکھیں؟ یہ بھی خود کفالت کی ایک قسم ہے، خود کفالت انسان میں، ہمت کے ساتھ اور مثبت طریقے سے آگے بڑھنے کا ایک جذبہ پیدا کرتی ہے، دوسروں کے تجربات کو اپنانے سے آپ اس درجے کی کام یابی حاصل نہیں کر سکتے جو آپ کی اپنی تخلیق ہو گی جو کسی بھی آئیڈیا کو تخلیق کرتا ہے وہی اصل زندگی گزارنے کا اہل ہو سکتا ہے، باقی اس کے مددگار ضرور ہوتے ہیں لیکن قائدانہ صلاحیت یہی ہے، یہ سب کچھ انسان کو تجربات کی بھٹی کے اندر رہنے کے بعد، عمر کے ساتھ پتہ چلتا ہے کہ درست یا غلط کی اصل حقیقت کیا ہے؟ میں یہاں اپنے بارے میں یہ ضرور کہوں گا کہ میں بہت حقیقت پسند ہوں ہر فرد ہر کام نہیں کر سکتا اُس کی صلاحیتوں کی ایک حد ہوتی ہے، سمجھ داری کا تقاضا یہ ہے کہ آپ وہ کریں ۔
جو آپ واقعی کر سکتے ہیں، زندگی میں کبھی خوف زدہ ہو کر ہمت نہیں ہارنی چاہیے، جب آپ پیدا ہوئے ہیں تو پھر آپ نے مرنا بھی ہے، خوف باہر نہیں ہوتا انسان کے اندر ہوتا ہے، جب آپ اس کو جان لیں گے تو یہ ختم ہو جائے گا، موت کا خوف سب سے زیادہ تنگ کرتا ہے حالاں کہ موت کے لیے وقت مقرر ہے، اگر آپ اس سے ڈر کر تجربات سے گزرنا بند کر دیں گے تو آپ فطرت سے دور ہو جائیں گے بل کہ آپ کا ایمان اللہ تعالیٰ پر بھی کم زور ہو جائے گا، بعض لوگ تو اللہ کے خوف سے خود کو تباہ کر لیتے ہیں، خوف ہونا چاہیے لیکن یہ بات یوں بھی تو ہو سکتی ہے کہ وہ ذات نہایت شفیق اور محبت کرنے والی ہے، غلطیوں کو درگزر کرتی رہتی ہے، معاف کرنے والی ہے،   رحمت اور کرم فرماتی ہے ۔۔
{ پڑھنے کا شُکریہ۔۔۔ رب راکھا }

Tuesday, April 23, 2013

" جبروقدر "

منجانب فکرستان:طاہرالقادری،پرویز مشرف: ڈاکٹر عبدالقدیر جبروقدر کی روشنی میں 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
طاہرالقادری کے اچانک پاکستان آنے پر،لوگوں نے مفروضے قائم کئے لیکن کوئی بھی فٹ نہ بیٹھ سکا ، البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ممکن ہے کوئی خواب دیکھا ہو جسکی کلکولیشن پاکستان لے آئی ہو،لیکن ہم مشرف کے بارے  میں یہ نہیں کہہ سکتے،وہ تو عقلمندانہ لیکچرز دیتا رہا ہے، ایسا شخص عقل کو آگ لگا کر پاکستان کیوں چلا آیا ؟ ۔۔کیا مشرف کا پاکستان آنا تقدیر کا جبر ہے یا یہ کہ یہ عقلی  قدر کی مس کلکولیشن ہے کہ مشرف سمجھ بیٹھے کہ اُنہیں عوام کی پزیرائی ملے گی ۔۔۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان سائنسدان ہیں اس لیے معروضی سوچ کے  حامل کہلانے کے حقدار ہیں ، لیکن الیکشن کے قریب وہ اپنی ایک نئی پارٹی بنا ڈالتے ہیں اور پارٹی کو الیکشن کے میدان میں اُتار نے کا اندیہ دیتے ہیں۔۔۔ڈاکٹر صاحب کے اس فیصلے کو کیا کہنا چاہئیے ۔۔کیا اُنکا یہ فیصلہ معروضی حقائق سے لگا کھاتا ہے ؟ یا یہ کہ یہ بھی جبر کی کارستانی ہے یا پھر یہ بھی  قدر کی مس کلکولیشن ہے کہ میدان مار لیں گے ۔۔۔
 طاہر القادری کا یوں اچانک پاکستان آنا، مشرف کا پاکستان آنا اور الیکشن کے قریب ڈاکٹر صاحب کا نئی پارٹی بنانا۔۔ تینوں حضرات کے عمل سے عقل کو حیرانی ہے۔۔۔اب اجازت دیں ۔۔
{ پڑھنے کا شُکریہ ۔۔۔رب راکھا }   

Monday, April 22, 2013

" احمقوں کی جنّت سے "

منجانب فکرستان:احمقوں کی جنّت میں رہائش پزیر شخص کی باتیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کپتان کا مقصد ایسا نظام رائج کرنا ہے کہ کرپٹ آدمی بھی کرپشن نہ کرسکے۔جیسے شوکت خانم کو ایک نظام دیا،جیسے ڈرون کے خلاف اُنکی حکمت عملی نے دُنیا کو متاثر کیا۔۔اسی طرح کپتان دیگرممالک میں رائج دیہی، قصباتی اور شہری نظام کو پاکستان میں لانا چاہتے ہیں، مثلاً ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈ نہیں دیے جائیں گے 90 دن میں بلدیاتی الیکشن کراکے ترقیاتی فنڈ دیہی، قصباتی اور شہری حکومتوں کے مقامی لوگوں کو دیے جائیں گے۔۔۔تمام صوابدیدی فنڈ ختم کردیے جائیں گے ۔۔مفت یا رعائتی داموں پلاٹ دینے کا سلسلہ بند کردیا جائے گا ۔۔۔ 50 ایکڑ سے زیادہ اراضی پر 5 تا 15 فیصد  ٹیکس کا نفاذ  بھی ملک کیلئے بڑی تبدیلی لائے گا۔۔۔ غرض کہ یہ نظام  دیہی،قصباتی اور شہری حکومتوں کو بڑی حد تک خود مختار بنا دیگا۔۔۔
نیا نظام۔۔نیا پاکستان۔۔ دوتہائی اکثریت سے مشروط ہے ۔۔جو حقیقت میں مشکل بات ہے ۔۔بہرحال کپتان کوشش تو کر رہے ہیں دیکھیں کیا ہوتا ہے۔۔۔میرا تو یہ کہنا ہے کہ اگر کپتان اپوزیشن میں بھی آگئے تو کم سے کم فرینڈلی اپوزیشن سے بچ  جائیں گے، چونکہ فرینڈلی اپوزیشن سے پاکستان کو بُہت نقصان پہنچا ہے۔۔۔اب اگر فرض کریں اقتدار میں ن لیگ اور اپوزیشن میں پی پی پی آتی ہے تو پھر وہی فرینڈلی اپوزیشن کی کہانی دوہرائی جائے گی۔۔۔اور عوام کو دلفریب  کہانیاں سُنائی جائیں گی۔۔۔
خُدا جانے کیا بات ہوئی کہ  PTI کی جماعت اسلامی سے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ ہوسکی لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہونا چاہئیے کہ اڈجسٹمنٹ نہیں ہوئی تو   PTI اور اُسکے سپوٹروں پرتنقید کی جائے  ۔۔بلفرض اگر جماعت اسلامی سے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوجاتی تو کیا پھر بھی PTI پر اسی طرح سے تنقید کی جاتی جیسی کہ اب ہورہی ہے ؟؟؟؟
قائد اعظم کے جیب میں بھی کھرے سکوں کے ساتھ کھوٹے سکے آگئے تھے ۔۔۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔۔۔
 ن لیگ پر بھی اسی طرح کی تنقید پڑھنے کو مل رہی ہے،اُسے بھی بُرا بھلا کہا جا رہا ہے چونکہ ن لیگ سے بھی جماعت اسلامی کی سیٹ اڈجسٹمنٹ نہیں ہوسکی ہے۔۔۔ دلیل یہی دی جارہی ہے کہ جماعت اسلامی سے  سیٹ اڈجسٹمنٹ کرنے سے انِ پارٹیوں کو فائدہ ہوتا  چونکہ جماعت اسلامی ایک منظم جماعت ہے۔۔۔ 
21 اپریل روزنامہ دُنیا میں حالیہ سروے رپورٹ شائع ہوئی ہے جس مطابق 70 فیصد مقبولیت کی نوید ہے۔اِس خبر میں تجزیہ کاروں کی حقیقت پر مبنی رائے کو بھی شامل کیا گیا ہے اسلیے لنک دے رہا ہوں ۔۔۔منشور کا اردو پی ڈی ایف لنک بھی دے رہا ہوں ۔۔۔اب اجازت دیں ۔۔۔{پڑھنے کا شُکریہ ۔۔۔رب راکھا} 

Friday, April 19, 2013

"اوور سیز پاکستانی "

  منجانب فکرستان : 45 لاکھ: 70لاکھ: 13 بلین ڈالر :معیشت : ڈوبتی کشتی 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ خبر نہ صرف بیرونی ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے خوشخبری ہے بلکہ  پاکستان کیلئے بھی خوش آئند بات  ہےکہسیکرٹری الیکشن کمیشن جناب اشتیاق احمد خان نے بتایا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ صدارتی حکم نامے یا آرڈینس کے زریعے   بیرونی ملک مقیم  پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق دیا جا ئے گا۔۔ الیکشن کمیشن کے مطابق بیرونِ ملک مقیم باقاعدہ تصدیق شُدہ ووٹروں کی کُل تعداد تقریباً 45 لاکھ کے قریب ہے ۔۔ ( تفصیل لنک پر)
 اس وقت کم وبیش 70 لاکھ پاکستانی دُنیا کے مختلف ملکوں میں مقیم ہیں۔۔جو ہر سال تقریباً 13 بلین ڈالر پاکستان بھیجتے ہیں، یہ زر مبادلہ کمانے کا دوسرا بڑا زریعہ ہے ،یوں پاکستان کی معیشت کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے والے یہ ہی اوور سیز پاکستانی ہیں۔۔ اب اجازت دیں۔۔۔

{پڑھنے کا شُکریہ ۔۔۔رب راکھا}

Thursday, April 18, 2013

" جمہوریت کا پاکستانی ورژن "

منجانب فکرستان :رؤف کلاسرا:  ایاز امیر : عمران خان؛  ہارون الرشید:حسن نثار: اثاثے: غلطیاں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
رؤف کلاسرا: کاآج 18اپریل کا کالم پڑھا تو ایسا لگا کہ جیسے شادی کا کھانا کُھل گیا ہے(لنک پر)۔۔ ایک دلچسپ خبر یہ بھی ہے کہ این اے 61 سے ن لیگ کے امیدوار ایاز امیر  کے بجائے جنرل عبدالمجید کے داماد  میجر(ر) جناب طاہر اقبال صاحب ہونگے جو سابق صدر مشرف کے وزیر رہ چُکے ہیں ۔۔۔  پیرصاحب پگارا سے  ملاقات کے بعد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں تبدیلی لائیں۔۔۔نواز شریف بھی ممتاز بھٹو سے ملکر تبدیلی لانے کی بات کر چُکے ہیں ۔۔۔
 یوں سرمایا دار اور جاگیر دار ملکر جو تبدیلی لائیں گے میرے خیال میں   پاکستان کی تاریخ کی مثالی تبدیلی ثابت ہوگی ۔۔۔چونکہ اب 5 سالہ دورِ جمہوریت والا پیٹرن برداشت کرنے کی سکت نہ ملک میں ہے اور نہ ہی قوم میں ۔۔۔ اگر ن لیگ کی حکومت بنتی ہے تو وہی 5 سالہ دورِ جمہوریت والا پیٹرن زوروشور سے چلے گا۔۔۔چونکہ برادری وہی ہے۔۔۔اثاثے بڑھانے کی دوڑ شروع ہوجائے گی ۔۔۔ٹکٹ کے ہنگامے کس لیے تھے؟؟؟۔۔۔
 ٹکٹ پر ہنگامے پی ٹی آئی میں بھی دیکھنے میں آئے جو اچھی بات نہیں ہے۔۔۔ عمران خان ون میں شو ہونے کی وجہ سے ایک انار سو بیمار جیسی حالت ہے ۔۔  پی ٹی آئی میں ہرشخص کہہ رہا ہے کہ میرے مشورے پر عمل کرو ورنہ ؟؟ اور جس کے مشورے پر عمل نہ ہو وہ ناراض ۔۔۔ حتٰی کہ  ہارون الرشید صاحب بھی ناراض  اور حسن نثار بھی خفا۔۔۔میرے خیال میں اِن کالم نگاروں کو  کپتان کو آزمائے بغیر اُسکا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہئیے ۔۔۔ انِ دانشوروں کو سوچنا چاہئیے کہ  عمران ایک انسان ہے فرشتہ نہیں ہے کہ غلطیاں نہ کرے ۔۔۔
دوستو: پڑھنے کا شُکریہ قبول فرمائیں ۔۔رب راکھا

Tuesday, April 16, 2013

ایسا بھی ہوتا ہے !!!۔

منجانب فکرستان: مہابھارت: ہندو روایت: Taboo
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 اِس غیر معمولی خصوصیت کی حامل سچی کہانی کو ڈیلی" Mail online" نے اپنے پورے صفحے پر بمع تصاویر  جگہ دی ، کہانی کا تعلق بھارت کے ایک گاؤں سے ہے۔۔ جبکہ اسی طرح کی دوسری سچی کہانی،جِس کو نیشنل جغرافک چینل نے فلما کر، Taboo عنوان کے تحت
اپنے چینل پر دکھایا تھا جس کا تعلق جدید ترین معاشرے کے جدید  ترین شہر سے تھا۔۔۔
 پہلی سچی کہانی ایک لڑکی "راجوورما" کی ہے جس کاتعلق شمالی بھارت کے علاقے دھرادون کے قریب واقع ایک گاؤں سے ہے ۔۔ راجوورما کی جس شخص سے شادی ہوئی اُسکے چار بھائی تھے ۔۔۔یوں وہ ہر سال دُلہن بنتی گئی اورہر سال  ایک شوہر کا اضافہ ہوتا گیا 5 سالوں میں ایک ساتھ پانچ شوہروں والی بن گئی، پانچوں سگے  بھائیوں کی  اکلوتی بیوی۔۔۔ راجو ورما نے بتایا ، ہمارے گاؤں میں یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے ،اسلیئے میرے لیے بھی کوئی عجیب بات نہیں ہے۔۔میرے باپ بھی تین سگے بھائی ہیں۔۔۔ (لو کرلو گل)۔۔۔ راجو ورما نے نمائندے کو بتایا کہ ہم ایک خوشگوار زندگی گُذار رہے ہیں۔
 میرے خیال میں راجو ورما جو کُچھ کہہ رہی ہے اُسکا سچ اُسکی تصاویر سے عیاں ہے۔ ۔۔۔مکمل تفصیل،راجوورما کی تصاویر، مہابھارت اور ہندو روایت وغیرہ کے بارے میں جاننے کیلئے: فوٹر لنک پر جائیں۔۔
دوسری کہانی کا تعلق جدید شہری زندگی سے ہے۔ جسے نیشنل جغرافک چینل نے اپنے پروگرام Taboo میں دیکھایا تھا ۔۔ایک 30،35 سالہ خاتون اپنے شوہروں کا تعرف یوں کرواتی ہیں کہ یہ مسٹر فلاں (نام یاد نہیں رہا) میرے پہلے شوہر ہیں اور یہ میرے دوسرے شوہر ہیں ، یہ دونوں آپس میں (حدِادب) دوست بھی ہیں، ہم سب ساتھ رہتے ہیں اور ہیپی لائف گُذار رہے ہیں اور ہاں یہ لڑکیاں میرے شوہروں کی گرلز فرینڈز ہیں ،ہم سب لائف کو انجوائے کر رہے ہیں۔۔۔
 دوستو: یقین کریں مجھے راجو ورما والا حقیقی سچ اِن کے چہروں پر نظر نہیں آیا ۔۔۔ہوسکتا ہے یہ میرے ذہن کا تعصب ہو ۔۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فلمانے کی وجہ سے مصنوی پن لگا ہو۔۔۔ بہر حال آپ لنک پر جائیں راجوورما اور اسکے پانچ شوہروں کو دیکھیں اور ہوسکے تو سماجی ماحولیاتی اثرات پرغور کریں۔۔  مجھے اجازت دیں۔۔
{پڑھنے کا شُکریہ ۔۔رب راکھا}

Friday, April 12, 2013

" انتخاب "

 منجانب فکرستان: مشہور دانشوروادیب طارق علی کی گفتگو سے انتخاب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 طارق علی کی دنیا ئے سیاست پر گہری نظر ہے وہ سیاست اور تاریخ پر 14 کتابیں لکھ چُکے ہیں۔۔ اِس سیر حاصل گفتگو میں ، بھٹوکی پھانسی ،متناسب نمائندگی ،پاکستانی سیاست،جنوبی امریکہ، ،عرب اسپرنگ،ترکی، سرمایا دارنہ نظام ،بھارت امریکہ تعلقات،اسٹیبلشمنٹ ، فوج، میڈیا غرض کہ کئی باتوں پر اپنی رائے دی ہے،

Tuesday, April 9, 2013

" حیرت انگیز باتیں "

 منجانب فکرستان: نٹور سنگھ: 5 سوال: مارگریٹ تھیچر 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
  سابق وزیر خارجہ نٹور سنگھ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لیڈی آئرن تھیچر کو ایک سادھو کے سامنے موم بننے کا ذکر کیا ہے ، یہ واقعہ وہ اپنی کتاب میں بھی لکھ چُکے ہیں ۔۔ دوستو واقعہ پڑھ کر میں بھی حیرت زدہ رہ گیا اسی لیے اب یہ حیرت اپنے قارئین دوستوں سے شیئر کر رہا ہوں ۔۔  یہ واقعہ 1975 کا ہے کہ جب نٹور سنگھ برطانیہ میں بھارت کے نائب ہائی کمشنر تھے اور تھیچر کو پارٹی لیڈر بنے صرف 6 ماہ ہوئے تھے ۔۔۔نٹور صاحب کے پاس دوست کا حوالہ لیکر ایک سادھو آیا اور تھیچر سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ۔۔نٹور سنگھ نے پوچھا کیا کام ہے ۔۔سادھونے کہا اُن ہی کو بتاؤں گا۔۔۔
بہر حال نٹور نے تھیچر سے سادھو کا تذکرہ کیا ، تھیچر کس موڈ میں تھیں کہ دس منٹ کا ٹائم دے دیا ۔۔سادھو انگلش نہیں جانتا تھا اسلئیے نٹور سنگھ ترجمان بنے  ۔۔ملاقات پرتھیچر نے سادھو سے پوچھا کہ تم کیوں مجھ سے ملنا چاہتے ہو ۔۔۔جواب میں سادھو نے ایک کاغذ منگوایا اس پر لکیریں لگا کر کاغذ کے 5 ٹکڑے کئے تھیچر سے کہا ان کاغذ کے ٹکڑوں پر سوالات لکھ کر موڑ کر رکھ دیں ۔۔تھیچر ایسا کر چُکیں۔۔ تو کہا اب ایک کاغذ اُٹھا کر کھولیں اور دل ہی دل میں لکھا سوال دوہرائیں ۔۔سادھوں نے سوال بتا دیا ۔۔۔ اسی طرح سادھوں نے پانچوں سوال بتادئیے تو نٹورسنگھ اور تھیچر دونوں حیرت زدہ ہوگئے، اسکے علاوہ تھیچر کے وزیر اعظم بننے  اور گیارہ سال وزیر اعظم رہنے کی پیش گوئی بھی سادھو نے کی تھی ۔۔۔
دوستو: اسکی عقلی توجیح کیا  ہوسکتی ہے؟ ۔۔ سادھو تھیچر سے ملنے کی خاطر نٹور سنگھ  کے پاس آیا تھا ۔۔لیکن سادھو نے تھیچر کا  ہی انتخاب کیوں کیا ؟؟؟ رب ہی جانے ۔۔اجازت دیں۔۔رب راکھا


" Lady Iron "

 منجانب فکرستان: زمین کی تھیچر پر لکھی کتاب سے منتخب چندقابلِ دید اوراق 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آئرن لیڈی ہوکہ اِسٹیل وومن اُسنے ٹوٹ جانا ہے، جو آیا ہے اُسنے جانا ہے ۔۔خُدا کی حکمت اور اُسکی سببیت سے گھومتی زمین جو کُچھ دیتی ہے ،پھر وہی سب کُچھ چھین بھی لیتی ہے۔۔۔

Sunday, April 7, 2013

"گونج 62، 63 کی "

منجانب فکرستان: کیا واقعی ایسا ہے؟؟؟ 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
رضا ربانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہمذہبی نمائندوں کے دباؤ کے نتیجے میں آرٹیکل 62،63 میں اصلاحات نہ ہوسکیں، تاہم اُنہوں نے کہا کہ  نئی بننے والی پارلیمنٹ 62،63 میں تبدیلی لانے پر متفق ہوجائے گی۔۔ میرے خیال میں آرٹیکل 62،63 کو اب ایک مقدس مذہبی حیثیت جیسی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، اب اس میں معمولی سی بھی تبدیلی لانا ممکن نہیں رہا۔۔۔
اختلاف اپنی جگہ لیکن یہ ایک حیران کن حقیقت ہے کہ طاہرالقادری اچانک اسٹیج پر نمودار ہوکر سب کو 62،63 کی تسبیح پڑھا دی اور انِ آرٹیکل میں ایسی روح پھونکی ہے کہ جسکی گونج پاکستان میں ہر سو، ہر جا، سُنائی دے رہی ہے۔۔  اِن آرٹیکل کو زندہ جاوید بنادیا ہے ۔۔۔ممکن ہے یہی دو شقیں پاکستان کی تقدیر بدلنے میں کار گر ثابت ہوں۔۔۔
کچھ حضرات طاہرالقادری کا یوں اچانک آنے ،آرٹیکل 62،63 کو زندہ کرنے،  اور انتخابات میں حصہ نہ لینے پر پاکستان کیلئے غیبی مدد کے اسباب مانتے ہیں۔۔کیا واقعی ایسا ہے؟؟؟(لنک پر دیکھیں) اجازت دیں۔۔۔رب راکھا


Friday, April 5, 2013

" جانچ پڑتال "

منجانب فکرستان : ایاز امیر: عمران خان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الیکشن کمیشن نے بے رحم جانچ پڑتال کا اندیہ دیا تھا لیکن لوگوں کے ذہنوں میں اِسکی صورت واضع نہیں  ہو پا رہی تھی کہ یہ کس قسم کی جانچ پڑتال ہوگی ؟ لیکن اب جانچ پڑتال کی صورت واضع ہوتی جارہی ہے کہ یہ کس قسم کی ہوگی۔۔ مثلاً ایاز امیر کے انگریزی  کالموں میں نظریہ پاکستان سے مطلق لکھی گئی باتوں کی بُنیاد پر اُن کے کاغذِ نامزدگی مسترد ہوگئے ہیں، (جبکہ اُن کا کہنا ہے کہ انکے انگریزی مضامین کو غلط معنی پہنائے گئے ہیں) اسی طرح زبانی سوالوں سے بھی اس جانچ پڑتال کی صورت واضع ہو تی جا رہی ہے۔۔۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ؟؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں پر ہر ایک نے احتجاج کیا ، لیکن عمران خان کی احتجاجی حکمتِ عملی موثر ثابت ہوئی، اِس کو دُنیا بھر میں پزیرائی ملی اِس حکمتِ عملی کے باعث معروف امریکی ویب سائٹ" گلوبل پوسٹ "کے مطابق سن 2012 کے دُنیا کے 9 با اثر ترین شخصیات میں سے عمران خان دُنیا کے تیسرے با اثر ترین شخص قرار دیے گئے ۔۔

میرے خیال میں اگر پاکستانی عوام نے عمران خان پر اعتماد کرکے تحریک انصاف کو الیکشن میں کامیاب کرایا تو  کامیاب ڈرون احتجاجی حکمتِ عملی کی طرح  وہ بہتر حکمتِ عملی  اپناکر  پاکستان  کوصحیح سِمت میں موڑ سکتے ہیں ۔۔اجازت دیں ۔۔رب راکھا  


Thursday, April 4, 2013

" شیکسپیئر "

منجانب فکرستان:نئے شواہد: ڈرامے کس نے لکھے؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
  بی بی سی نےابریسٹوئتھ یونیورسٹی کے حوالے سےشیکسپیئر کےبارے میں نئے شواہد ملنے کی خبر دی ہے کہ وہ قحط کے زمانے میں اناج ذخیرہ  کرکے خوب پیسے بناتا تھا  عدالتی ثبوت کے مطابق ذخیرہ اندوزی کے جرم میں ایکبار نہیں کئی بار شیکسپیئر پر مقدمے چلے۔۔ 
 بڑا رائٹر وہی بنتا ہے جسکا مطالعہ وسیع ہوتا ہے، میرے نزدیک جِسکا مطالعہ وسیع ہوتا ہے اُسکی ذہنیت اِس درجہ پست نہیں ہوسکتی کہ قحط کے زمانے میں پیسہ کمانے کی غرض سے اناج کی ذخیرہ اندازی کرے ۔خبر کے مطابق یہ شواہد بھی ملے ہیں کہ شیکسپیئر ایک زمیندار اور سخت گیر قسم کا تاجر تھا۔۔ اب بات سمجھ میں آتی ہے کہ  قحط کے زمانے میں ایک تاجر کی ذہنیت ہی غلے کی ذخیرہ اندوزی کر سکتی ہے،   لکھاری شیکسپیئر کی ذہنیت ایسا نہیں کر سکتی ہے ۔۔    یقیناً یہ زمیندار،سخت گیرتاجروہی ناخواندہ تاجر ہے جس کے بیوی بچّے بھی ناخواندہ تھے ۔جسکا تذکرہ مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب

The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History میں کیا تھا ۔۔

 مائیکل ہارٹ کے مطابق شیکسپیئر کی سوانح عمری کا بڑا حصّہ زیب داستاں کیلئے مصنفین کی ذہنی اختراح کا نتیجہ ہے مثلاً فورڈ گرامر اسکول میں شیکسپیئر کی تعلیم کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔۔۔اُسکے 3 ورقی وصیت نامے میں بھی کسی ڈرامے یاتصنیف کی حقوق کے بارے میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا ہے۔۔۔غرض مائیکل ہارٹ کو ڈرامہ نگار شیکسپیئر کے بارے میں کہیں سے بھی کوئی بااعتبار شواہد نہ ملے یوں مائیکل ہارٹ  کو ولیم شیکسپیئر کو اپنی کتاب میں رینک الاٹ کرنے میں کافی دقت پیش آئی۔۔
 تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے سارے ڈرامے،گیت اور لمبی نظمیں آخر کس نے لکھیں ؟؟ اس بارے میں مائیکل ہارٹ کی تحقیق کہتی ہے کہ اس دور کے ایڈورڈ ڈی ویری  نے لکھے ہیں نہ جانے کس مصلحت کے تحت اُسنے اپنا اصلی نام  ظاہر نہیں ہونے دیا وہ کہتے ہیں،   "ہم ڈی ویری کے نام کے اخفاء کی مکمل وجوہات جان پاتے ہیں یا کہ نہیں اس سے قطع نظر بہر طور وہ شیکسپیئر ہونے کے تمام دیگر معیا رات پر پورا اترتا ہے،اور یہ بھی یاد رہے کہ کوئی دوسرا اس سے اتنا مماثل نہیں ہے ، میرے نزدیک یہ بات حتمی طور پر درست ہے کہ وہی اصل مصنف ہے " باقی ساری کہا نیاں اسکے مرنے کے بعد کی سوانح عُمریاں ہیں ۔۔۔۔بہر حال اُنہیں اپنی تحقیق پر اعتماد تھا اسی لیے اُنہوں نے اپنی کتاب میں بڑے اعتماد سے  المعروف سوانح عمری والے شیکسپیئر کی بجائے ایڈورڈ ڈی ویری  کو بحیثیت ولیم شیکسپیئر متعارف کرایا ہے۔۔ وہ اس بارے میں مزید معلومات کیلئے چارلٹن اور اوگبرن کی کتاب "ولیم شیکسپیئر کا بھید" پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔۔یہ بات بھی یاد رہے کہ  مائیکل ہارٹ ایک سائنسدان ہیں اور ناسا سے وابستہ رہ چُکے ہیں ۔۔تفصیلات کیلئے لنکز پر جائیں۔۔
 اس پوسٹ کے لکھنے کا بنیادی مقصد  یہ ہے کہ کتنی حیرت کی بات، دُنیا کا مشہور ترین شخص کی جعلی سوانح عُمریاں لکھی گئیں ،اب نئے شواہد شیکسپیئر کو بالکل ایک نیا شخص ظا ہر کررہے ہیں۔۔۔
شیکسپیئر کے کیس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خُدا جانے تاریخ میں کتنا کّچھ جعلی مواد ذاتی مفاد، مذہبی مفاد، اور قومی مفاد کے نام پر ڈالا گیا ہے، اور خُدا ہی جانے کہ یہ جعلی مواد نے کس درجہ  لوگوں میں کنفیوژن پھیلایا ہُوا ہے۔۔ میری رائے سے اتفاق ضروری نہیں۔۔۔ مجھے اجازت دیں ۔۔۔آپکا بُہت شُکریہ ۔۔۔