منجانب فکرستان
دو دانشوروں کی وصیتیں
حسیات کے زریعے انسانی دماغ میں جو ڈیٹا جمع ہوتا رہتا ہے وہ انسان سے کیسے کیسے فیصلے کراتا ہے اُسکی ایک جھلک۔۔۔۔۔
ن م راشد مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے ادبی دُنیا میں خوب نام کمایا، دانشور کہلائے، اپنے لیے کسی مذہبی حوالے کو ضروری
نہیں سمجھا، لیکن اپنی میت کیلئے جو وصیت کی وہ دفنانے کے بجائے جلانے کی، کی تھی ۔۔۔۔خشونت سنگھ سِکھ گھرانے میں
پیدا ہوئے ، ادبی دُنیا میں خوب نام کمایا، دانشور کہلائے، یہ حضرت بھی اپنے لیے کسی مذہبی حوالے کو ضروری نہیں سمجھتے
ہیں، اپنی میت کو جلانے کے بجائے دفنانے کی وصیت کرتے ہیں ۔۔۔ہے نا کتنی عجیب بات: دفنانے کی خاندانی روایت والے نے اپنی میت کو جلانا پسند کیا، جبکہ جلانے کی خاندانی روایت والے نے اپنی میت کو دفنانا پسند کیا۔۔۔۔۔۔ کیا اِن وصیتوں کو اِن دانشوروں کی ذاتی وصیتیں کہیں گے۔۔۔۔
یا یہ وصیتیں،حسیاتی ڈیٹا کی کارستانی کہلائیں گیں؟(یعنی) کیا دماغ میں پہنچنے والے ڈیٹا نے اِن سے ایسے غیر روایتی فیصلے کروائے ؟
یا یہ وصیتیں،حسیاتی ڈیٹا کی کارستانی کہلائیں گیں؟(یعنی) کیا دماغ میں پہنچنے والے ڈیٹا نے اِن سے ایسے غیر روایتی فیصلے کروائے ؟
٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
روز نامہ دُنیا سنڈے میگزین میں شائع خشونت سنگھ کے انٹرویو سے منتخب چند غور طلب باتیں
٭سوال:آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ زندگی دھیرے دھیرے اندر سے نکل رہی ہے؟ جواب:جی ہاں،۔کچھ عرصہ قبل غسل خانے میں گر پڑا۔اتفاق سے گھر میں کوئی نہ تھا،سو ایک گھنٹے تک فرش پہ پڑا رہا۔مجھے یقین ہو گیا کہ میرا آخری وقت آ پہنچا۔سو خیال آیا کہ کوئی دعا ہی پڑھ لوں۔تبھی (علامہ)اقبالؒ کا یہ شعر ذہن میں گونجنے لگا: " باغ ِبہشت سے مجھے حکمسفر دیا تھا کیوں کار ِجہاں دراز ہے،اب میرا انتظار کر "
٭سوال:سنا ہے،آپ بہائیوں کے قبرستان میں دفن ہونا چاہتے ہیں؟ جواب:جی ہاں۔دراصل میں نہیں چاہتا کہ مرنے کے بعد میری چتا جلائی جائے،میں مٹی ہوں اور اسی میں ملنا چاہتا ہوں۔مگر مسلمانوں اور عیسائیوں نے مجھے اپنے قبرستانوں میں دفنانے سے انکار کر دیا۔بہائیوں نے ہامی بھر لی،مگر یہ شرط لگائی کہ وہ اپنی رسوم انجام دینے کے بعد مجھے دفنائیں گے۔میں نے کہا،جو مرضی رسم اپنا لینا،مجھے تو بس زمین کا رزق بننا ہے۔
٭سوال:آپ خود کو باشعور اور عقلی انسان کہتے ہیں۔لیکن جب آپ ’’السٹریٹیڈ ویکلی‘‘کے مدیر تھے،تو رسالے میں ’’ستارے کیا کہتے ہیں‘‘مسلسل کیوں شائع ہوتا رہا؟
جواب:کیونکہ جب بھی ہم اسے ختم کرتے ،تو رسالے کی مانگ کم ہو جاتی اور مالک چیخنے لگتے۔(قہقہہ)پہلے ہم برطانیہ کے ایک پامسٹ سے کالم لکھواتے تھے۔پھر ایک مقامی جوتشی سے لکھوانے لگے۔ایک بار پامسٹ کی عدم موجودگی میں ،میں بھی تین ماہ تک قارئین کو ستاروں کی چال سے آگاہ کرتا رہا…اور کہیں سے پیشن گوئی غلط ہونے کی شکایت نہ آئی۔(قہقہہ)
٭سوال:آپ کی اپنی تحریر کردہ پسندیدہ کتابیں؟ جواب:’’سکھوں کی تاریخ‘‘اور ’’شکوہ و جواب ِشکوہ‘‘کا انگریزی ترجمہ۔اس کتاب کا بارہواں ایڈیشن شائع ہونے والا ہے۔ ،ریڈرزڈائجسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے انکشاف کیا کہ علامہ اقبالؒ ان کے پسندیدہ شاعر ہیں۔۔۔
درج ذیل انٹرویو لنک بمع شُکریہ روز نامہ دُنیا ۔۔۔
اب اپنے دوست کو اجازت دیں ۔۔۔پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔۔۔
{ ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }