Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Monday, June 30, 2014

پھر میرا نام کس لیے ؟؟

  منجانب فکرستان : یہ ہماری طرح کیوں نہیں سوچتے ؟؟؟
دوستو: کوسٹا ریکا  کے فٹبال  ورلڈکپ  کواٹر فائنل  میں  پہنچنے پر میں اتنا  زیادہ  حیرت زدہ  نہیں ہُوا۔جتنا 
کے  وہاں  کے  نو  منتخب  صدرِ  جناب  Luis  Guillermo Solis   کی  بدعتی  باتوں  نے  کیا۔۔۔
 اب آپ خود اندازہ  لگائیں  کہ صدر  بنتے  ہی  حکم جاری کردیا  ہے  کہ کسی دفتر میں میری تصویر نہ لگائی 
جائے، ( حالانکہ تصویر ڈراؤنی نہیں ہے) تصویر کی  پوجا  نہیں ہونا چاہئیے اور یہ بھی کہ کسی  پُل  یا   شاہراہ 
 وغیرہ  کی افتتاحی  پلیٹ  پر میرا  نام  نہ لکھا جائے، افتتاحی پلیٹ  پرصرف افتتاح  کی تاریخ   لکھ دی جائے 
کافی ہے  چونکہ شاہراہ  یا  پُل بنانے میں میرا کوئی کردار نہیں ہوتا۔۔ پھر میرا نام کس لیے ؟ 
خُدا جانے  یہ کیسے لوگ ؟ ؟ جبکہ ہمارے لیڈرز تو تقریباً  روز ہی اخبارات میں کسی بھی بہانے اپنی تصاویر 
کی اشاعت چاہتے ہیں ۔ ہمارے  ملک میں تو ایسی خبریں بھی سُننے کو ملتی ہیں کہ:موجودہ با اثر لوگوں نے سابقہ با اثر لوگوں کی  افتتاحی نیم پلیٹ اُکھاڑ پھینک اپنے نام کی نیم پلیٹ بمع بھنگڑہ لگادی ہے ۔۔۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
بشکریہ بی بی سی سائٹ:http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/06/140628_costa_rica_leader_rwa.shtml
پوسٹ میں کہی گئی باتوں سےاختلاف/اتفاق کرناآپکا حق ہے۔اب مجھےاجازت دیں،پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔ 
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }


Sunday, June 29, 2014

"غور طلب باتیں"

  منجانب فکرستان: محترم جناب خورشید ندیم کا کالم: غوروفکر کیلئے

٭۔۔٭۔۔٭۔۔٭۔۔٭ 

Friday, June 27, 2014

" ترقی یافتہ ممالک "

  منجانب فکرستان
علمانیہ کا قتل: غوروفکر کیلئے
جن بیرئیرز کو ہٹانے پر 13ہلاکتیں 100 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے،حکومت نے وہ بیریئر دوبارہ لگوا دیے
اب اِس سانحہ کی اِس کے سِوا کیا توجیہہ ہوسکتی ہے کہ 13 لوگوں  کی موت اور 100 افراد  کا  زخمی  ہونا
  لکھا تھا: اسلئیے یہ سانحہ ہوگیا۔
 سانحہ پر لکھاریوں کا فوکسقانون محافظوں کاقانون شکن،گلوبٹ کو گرفتار نہ کرنا،شاباشیدینا اور سانحہپر ہونا 
چاہئیے تھا لیکنفوکس طاہرالقادری کی ذات پررہا،قانون محافظوں کی شاباشی نےممتاز قادری کی یادتازہ کردی
 جسے وکیلوں نے ہار پہنائے تھے اور شاباشی بھی دی تھی ۔۔
میرے  خیال  میں  کسی ترقی یافتہ  ملک کی  پولیس  کے  ذہن میں کسی قانون شکن کو قانون شکنی پر شاباشی 
دینے کا تصور تک نہیں آسکتا ہے اور نہ ہی وکیلوں کے ذہن میں کسی مجرم کو ہار پہنانے کا خیال آسکتا ہے
۔۔۔میرے خیال میں یہی پیمانہ ہے کہ: وہ ترقی یافتہ ہیں اور ہم غیر ترقی یافتہ ۔۔
اسکا ثبوت: رضا علی عابدی کے لکھے اِس  کالم سے بھی مل سکتا ہے جسکی چیدہ چیدہ باتیں درج ذیل ہے :
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
''ایک اور تازہ واقعہ برطانیہ ہی کاہے۔ سعودی عرب سے تیس برس کی ایک لڑکی ناہید علمانیہ اعلیٰ تعلیم کے لئے یہاں آئی۔ ابھی ایک روز وہ اپنے کالج کی طرف جارہی تھی کہ کسی نے اس پر چاقو سے حملہ کیا اوراس کے بدن میں چاقو سولہ مرتبہ گھونپا۔ لڑکی مر گئی۔ اس کی لاش تو والدین کے پاس بھیج دی گئی لیکن اب پولیس نے خطرناک قاتل کی تلاش میں رات دن ایک کر دیئے ہیں۔ اس کو آلۂ قتل کی تلاش ہے اور اس کا خیال ہے کہ قاتل نے چاقو کسی قریبی جھیل میں پھینکا ہے اور وہاں تین جھیلیں ہیں۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ جھیلوں کا سارا پانی نکال کر انہیں خالی کیا جار ہا ہے۔ 
میں نے ایک روز انٹرنیٹ پر ایک اخبار کھولا۔وہ اخبار ایک نام سے اردو میں اور مختلف نام سے انگریزی میں نکلتا ہے۔ میرے سامنے جو صفحہ کھلا اس کا دایاں حصہ اردو میں اور بایاں حصہ انگریزی میں تھا۔ دونوں میں سب سے اوپر ان کی شہ سرخیاں تھیں۔ اردو حصے کی سب سے بڑی خبر یہ تھی۔’’دشمن نفاق اور انتشار پھیلانے میں سرگرم ہے۔ صدر ممنون حسین‘‘اور اس ادارے کے انگریزی اخبار کی شہ سرخی کچھ یوں تھی۔ ’’کراچی۔ منگھوپیر سے سات لاشیں برآمد ہوئی ہیں‘‘۔یہ سوچنے کا مقام ہے کہ ہمارے نزدیک کون سی بات زیادہ اہم ہے۔ایک سیاستدان کے وہ گھسے پٹے فقرے جو صبح شام کانوں میں ڈالے جاتے ہیں اور وہ بھی کسی اور کے لکھے ہوئے، یا پھر آدھے درجن سے زیادہ شہریوں کا قتل اور وہ بھی پراسرار؟ کس نے مارا، کیسے مارا اور کیوں مارا، یہ ہماری ترجیحات میں نیچے آتا ہے اور وہ بھی بہت نیچے۔ اس کے بعد یہ واقعہ کہیں وقت کے غبار میں دب کر رہ گیا اور قاتل ملک کے ہجوم میں نہایت آسانی سے گم ہو گیا۔پکڑا بھی گیا تو کچھ روز بعد ہی شہر کی سڑکوں پر سینہ تان کر گھومتا نظر آیا۔یہ اندازِ فکر چند افراد کا نہیں، پورے معاشرے کا ہے۔۔ ایک شخص کی ہلاکت پوری انسانیت کی ہلاکت ہے۔ جس کتاب میں یہ ہیرے اور موتی میں تولی جانے والی بات لکھی ہے وہ کتاب جھوم جھوم کر پڑھنے ہی کے کام آتی ہے اور بس''۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
نوٹ: وہ  دوست  جو  رضا علی عابدی  کا  پورا  کالم  پڑھنا  چاہیں، درج  ذیل لنک  پر  جائیں ۔۔
پوسٹ میں کہی گئی باتوں سےاختلاف/اتفاق کرناآپکا حق ہے۔اب مجھےاجازت دیں،پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔ 
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }

Tuesday, June 24, 2014

اِتفاق / اِختلاف ؟؟

  منجانب فکرستان
دوستو:آپ بزریعے بلاگ میرے خیالات پڑھ کر میرے بارے میں اچّھی/بُری یا جوبھی ایک رائے قائم
  کی ہوگی،اسی طرح ڈاکٹر صفدرمحمود صاحب کے کالم پڑھ کر( جن سے اِتفاق/اِختلاف رہتا ہے)یہ رائے
 قائم  کی ہے کہ ڈاکٹر صاحب نہایت شریف النفس انسان ہونگے ڈاکٹر صاحب کے کالم سے اقتباس۔ 
"میں اپنے بارے میں تھوڑا سا جانتاہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے اندر ایک عددباغی موجود ہے جوپیری مریدی، دربارداری، خوشامدی ماحول،خانقاہی ماحول اور فضول معاشرتی رسومات کے خلاف بغاوت کرتا رہتا ہے۔ اس لئے میں کبھی بھی ’’مرید‘‘ ٹائپ نہیں رہا۔ لیکن اس کے باوجوداللہ سبحانہ ٗ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجھے زندگی میں تین کامل اولیا کرام کی محفلوں میں بیٹھنے، جوتیاں سیدھی کرنے اور ان سے محبت کے رشتے میں منسلک ہونے کا موقعہ ملا۔ میرا وجدان کہتاہے کہ اولیائے اللہ صرف سچی جستجو اورمخلصانہ کوشش سے ملتے ہیں اور ان سے تعلق اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہوتا ہے۔ یوں تو مجھے بہت سی نیک اور عبادت گزار ہستیوں سے تعلق کاشرف حاصل رہا لیکن یہ تین اللہ والے ایسے کامل مرشد تھے جو احوال پر نظر رکھتے۔ اشاروںکنایوں میں ایسی باتیں کرجاتے جو سچ بن کر میرے سامنے آ جاتیں اور بعض اوقات مجھ پر وہ بات منکشف کر جاتے جس کاحال صرف میں ہی جانتا تھا۔ میں کہ مزاجاً تحقیق اور بقول ایک صاحب ِ باطن مغربی علوم زدہ ثبوت کے بغیر کسی بات پر اعتباراور اعتمادکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان محفلوں میں ایسے روحانی تجربات ہوئے کہ میں پہلی بارروحانیت کا قائل ہوا۔ اس لئے جب کوئی روحانیت کے بارے میں تشکیک یا شک کا اظہار کرتا یا تمسخر اڑاتا ہے تو سوچنےلگتا ہوں کہ ’’بھولئے مجھّے توں کی جانیں انارکلی دیاں شاناں‘‘ (اے کالی بھینس تم انارکلی کی شان نہیں سمجھ سکتی) میں جن بزرگوں کا ذکر کر رہاہوں ان سے میرا رشتہ قلبی محبت کا تھااوروہ تینوں اللہ کو پیارے ہوچکے لیکن میرے قلب و ذہن میں آج بھی زندہ ہیں حالانکہ ان میں سے دو ہستیوںکے انتقال کو تین اور دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزرا۔ ان کے حوالے سے قلبی وارداتوں کا ذکر کروں تو داستان طویل ہو جائے گی لیکن روایت یہی ہے کہ ایسی باتوں کو پردے میں ہی رہنے دیاجائے۔
بابامست اقبال شاہ صاحب سے میرا پہلا تعارف 1989میں ہوا جب محترمہ بینظیر بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد میاں برادران سے قریبی تعلق کا الزا م لگا کر مجھےاو ایس ڈی بنا دیا اور ہرقسم کا ٹارچر کیا۔ باباجی سے ایک دوست کے گھر میں ملاقات ہوئی۔ میں ان کے نام تک سے غیرمانوس تھا۔ ہاتھ ملاتے ہی کہنےلگے ’’بابا گھبرانا نہیں، تم اپنی تقرری کا آرڈرخودٹائپ کرو گے۔‘‘بینظیر حکومت ڈسمس ہوئی تو مجھےچیف سیکرٹری نےبلا کرکہا ’’ڈاکٹر صاحب! بتایئے کس پوسٹ پر جاناچاہتے ہیں؟‘‘ اس کے بعدباباجی سے دوستی ہوگئی اورملاقاتیں ہونےلگیں تو پتہ چلا کہ باباجی بچپن سے لے کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے قبل تک جذب کی حالت میںرہے۔ لنگوٹی میں موٹے ڈنڈے کے ساتھ لاہور کی سڑکوں پر پھرتے اوربازارِ حسن کے راستے مغرب کی اذان تک داتا دربار پہنچتے تھے۔یہ ’’ڈرل‘‘طویل عرصے تک جاری رہی۔ پھر بقول باباجی کپڑے پہننے کا حکم ہوا، پھر شادی کاحکم ہوا اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں گھرباراور اولاد سے نوازا۔ اس مجاہدے کا انعام تھا کہ ان کا دل حسد، رشک، لالچ، کدورت، نفرت اور ہر قسم کی دنیاوی آلائش سے پاک تھا اور ان کے قلب میں ہر وقت محبت کا زمزمہ بہتا رہتاتھا جس سے نیک اور گناہگار سبھی فیض یاب ہوتے تھے۔ ان کے بقول انہیں حضرت سید علی ہجویریؒ المعروف حضرت داتا گنج بخش سے فیض حاصل ہوا تھا۔ وہ مجھے اکثر یاددلاتے رہتے تھے کہ میری باگ حضرت داتا کے ہاتھ میں ہے۔ میں آزادنہیں۔
میرا محترم نسیم انور بیگ صاحب (اسلام آباد) سے گہرا قلبی تعلق تھا۔ کوئی اٹھارہ سال قبل وہ لاہور آئے تو باباجی سے ملنے کی خواہش کااظہار کیا۔ نسیم انور بیگ صاحب نے زندگی کا متعدد حصہ پیرس اور یونیسکو میں گزارا لیکن مغرب کی آندھیاں ان کے قلب میں روشن چراغ کو بجھا نہ سکیں۔ میں نے بیگ صاحب سے عرض کیا کہ چانس لے لیتے ہیں مجھے اندازہ نہیں اس وقت باباجی گھر پر ہوں گے یا نہیں۔ یہ ان کی باباجی سے پہلی ملاقات تھی۔ ہم باباجی کے گھر گئے۔ ملازم نے مجھے دیکھا تو اوپر والی منزل پر باباجی کو اطلاع دینے بھاگا۔باباجی سیڑھیاں اترتے آتے اور کہتے جاتے تھے ’’آج پیرس والا بابا آیا اے‘‘ انہیں کیسے خبر ہوئی، صرف میرا رب جانتا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد بیگ صاحب دوبارہ لاہور آئے۔ باباجی میرے گھر میں فرش پر بیٹھے تھے۔ بیگ صاحب آگئے اور پھراس وقت کے وفاقی سیکرٹری اطلاعات حاجی اکرم صاحب مرحوم بھی تشریف لے آئے۔چائے پیتے ہوئے اچانک باباجی بولے ’’ڈاکٹر بابا! تم حاجی کی جگہ پر۔ ڈاکٹر بابا! تم حاجی کی جگہ پر‘‘ یہ بات سن کر میں پریشان ہو گیا کیونکہ حاجی صاحب کچھ عرصہ قبل مجھے بتا چکے تھے کہ وزیراعظم میاں نوازشریف نے مجھے کہا ہے کہ میں کسی صورت بھی ڈاکٹر صفدر کو نہیں لوں گا۔ ایک ڈیڑھ ماہ بعد مجھے حاجی اکرم مرحوم کی جگہ پر لگا دیا گیا اور باباجی کے منہ سے نکلی ہوئی بات سچ ثابت ہوگئی۔ تین چاربارایسا ہوا کہ کہنے لگے ’’بابا! تم رزق حلال کھاتے ہو۔ یہ نوٹ اپنی جیب میں محفوظ رکھنا، خرچ نہ کرنا، اللہ تمہارے رزق میں برکت ڈالے گا‘‘ پھر سچ مچ رزق میں برکت پید ہونےلگی۔ ایک بار میں نے باباجی سے کہا کہ حضور! آپ نے مجھے جو دس روپے کا نوٹ دیا تھا وہ گم ہوگیاہے۔ فوراً بولے وہ میرے پاس واپس آگیا تھا۔ جیب میں ہاتھ ڈالا اور کہا ’’یہ ہے وہ نوٹ سنبھال کر رکھنا‘‘ہزاروں باتیں ہیں کس کس کا ذکر کروں۔ میری بیٹی کی شادی ہوئے چندماہ گزرے تھے۔ حسب ِ معمول بابا جی آئے توبیٹی کی تصویر پر نظر پڑی، کہنےلگے ’’بابا! اللہ بیٹی کو ہیرے ورگا بیٹا دے گا‘‘اور پھر ایسا ہی ہوا۔ میں دفتر میں بیٹھا تھاتو اچانک تشریف لے آئے اور کہا کاغذ پن دو۔ پھرکاغذ پر کچھ لکھااور کاغذ مجھے تھما دیا۔ لکھا تھا ’’بابا! تمہارا 22گریڈ کا ٹھپہ لگ گیا۔‘‘ میں نے کاغذ بریف کیس میں رکھ لیا جہاں باباجی کے لکھے کئی اور خطوط بھی رکھے تھے۔ چند برس بعد اللہ تعالیٰ نے ترقی کردی۔جنرل پرویز مشرف کو اقتدار میںآئے دو تین ماہ گزر ے تھے تو باباجی مجھے کہنےلگے ’’بابا! تم ظالموں کے ہتھے چڑھ گئے ہو۔ حضرت یونس ؑ والی دعا پڑھا کرو۔‘‘ میں بات سمجھ نہ سکا اور ایک ما ہ بعد اوایس ڈی بنا دیا گیا۔ چند ماہ قبل استنبول سے میری بیٹی اور داماد آئے۔
میں ان کو لے کر باباجی کے ہاں گیا، کہنے لگے ’’بہن! تمہارا رزق بندروںوالے شہر میں ہے، تیاری کرلو‘‘ مجھے علم تھاکہ باباجی لند ن کو ’’باندروں‘‘والا شہر کہتے ہیں۔ چار ماہ قبل داماد کو لندن میں پوسٹنگ مل گئی اور وہ لندن منتقل ہو گئے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے بابا جی مجھے تنہائی میں کہا کرتے تھے کہ بابا میں نے مدینہ شریف چلے جاناہے اورپھر وہیں سرکارﷺ کے قدموں میں رہناہے۔ پھر وہ مجھےایسی باتیں بتاتے جو میں لکھ نہیں سکتا کبھی کبھی میرے بارے میں ایسی باتیں کرتے جو میرے سینے میں دفن ہیں اور باباجی کی امانت ہیں۔ 8فروری کو صبح قلم پکڑا اوراخبار پر لکھا ’’مجھے جنت کی ٹھنڈی ہوائیں بلا رہی ہیں۔ مجھے مدینہ طیبہ کی ہوائیں بلا رہی ہیں‘‘اسی شام طبیعت معمولی سی خراب ہوئی اور ہسپتال لے جاتے ہوئے اچانک بگڑ گئی۔ ہسپتال سے چند منٹ کے فاصلے پر تھے بیٹے کا ہاتھ پکڑا، آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’بیلی مجھے لینے آگئے ہیں‘‘ قرآنی آیات پڑھیں اور دنیا سے پردہ کرگئے۔ ہر جمعرات شام داتا دربار جانا ان کا طے شدہ معمول تھا۔ جمعرات ہی کو نماز ِ عصر کے بعد ان کی نماز جنازہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے قدموں کی جانب ادا کی گئی اور شام کو میانی صاحب قبرستان میں دفن کردیا گیا کہ ہر جاندار کو موت کا ذائقہ چکھنااور دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ باباجی میرے پیارے مخلص دوست تھے، یار تھے اور ہمراز تھے۔ ان کے جانے کے بعدمجھے یوںلگتا ہے جیسے میں تنہا ہو گیاہوں لیکن یہ کہہ کر دل کو تسلی دے دیتا ہوں کہ یہ چار دن کی جدائی کوئی بات نہیں۔ انشا اللہ جلد اکٹھے ہوں گے۔
چندروز قبل میں ان کی قبر کے قدموں پہ کھڑا فاتحہ خوانی کر رہا تھاتو مجھےیوں محسوس ہوا کہ جیسے باباجی مجھے کہہ رہے ہوں ’’بابا فکر نہ کرو ہم تمہارے پاس ہیں‘‘ یہ میرا واہمہ تھا، لیکن پھر بھی مجھے سہارا دے گیا "۔

بشکریہ جنگ 

 پوسٹ میں کہی گئی باتوں سےاختلاف/اتفاق کرناآپکا حق ہے۔اب مجھےاجازت دیں،پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔ 
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }

Monday, June 23, 2014

" منتخب اخباری تراشے "

 منجانب فکرستان: غور و فکر کیلئے
Daily Express

٭٭٭٭٭٭٭
" ہمارے محترم جناب صدیق الفاروق صاحب نے جب کہا : سچ کہا "


٭٭٭٭٭٭٭
 سچ ہے کہ:لاہور لاہور ہے جس نے اپنی آبادی سے تقریباً دوگنی آبادی والے شہر کراچی کو شکست دیدی 
Urdu Newspaper
لاہور (خبر نگار+ نوائے وقت رپورٹ) واقعہ ماڈل ٹائون لاہور کے دوران سادہ کپڑوں میں ملبوس دونوں ہاتھوں میں پستول لئے فائرنگ کرنے والا گمنام کردار ماڈل ٹاؤن ڈویژن میں تعینات پولیس کانسٹیبل ریاض بابر نکلا۔ نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران سادہ کپڑوں میں ملبوس فائرنگ کرنے والا گمنام کردار ماڈل ٹاؤن ڈویژن میں تعینات پولیس کانسٹیبل ہے ارو اس کا نام ریاض بابر ہے جو متعدد مرتبہ ڈکیتی کی وارداتوں میں گرفتار بھی ہو چکا اور جیل بھی کاٹ چکا ہے مگر پولیس کے اس ’’گلوبٹ‘‘ کو پولیس حکام کی آشیرباد حاصل رہی اور ہمیشہ سزا سے بچ نکلتا رہا ہے۔ ریاض بابر ماڈل ٹائون  واقعہ کے دوران اپنی خفیہ کارروائیوں میں مصروف رہا اور پیٹی بھائیوں سے داد تحسین بھی وصول کرتا رہا۔ علاوہ ازیں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے سول کپڑوں میں فائرنگ کرنیوالے پولیس اہلکار کی فوری گرفتاری کا حکم دیدیا اور آئی جی پولیس سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
پولیس کانسٹیبل
 پوسٹ میں کہی گئی باتوں سےاختلاف/اتفاق کرناآپکا حق ہے۔اب مجھےاجازت دیں،پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔ 
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }

Tuesday, June 17, 2014

" سروے رپورٹ "

  منجانب فکرستان
پولینڈ  والوں  کی  رائے  دیگر  یورپین  باشندوں  سے  ذرا مختلف  ہے
یورپین باشندوں میں مذہب و دیگر ترجیحات  کے حوالےسے جرمن اورفرانس ریڈیو کمیشن  کی ایک مشترکہ
 منصوبےکی سروے رپورٹ( جس میں جرمن،فرانس بیلجیم،آسٹریا،سوئزرلینڈ،پولینڈ،اور رومانیہ کے نشریاتی
اداروںنے حصّہ لیا ہے)حالیہ دنوں  میں  منظر عام  پر آئی  ہے،یہ سروے رپورٹ مختلف  یورپی ملکوں کے
 بیس ہزار  سے زائد  یورپی  باشندوں  سے  لیے  گئے تفصیلی انٹرویو  کے زریعے حاصل نتائج  سے مرتب کی
گئی ہے،اِسسروےرپورٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ تقریباً سبھی یورپی ملکوں کےباشندوںکی زندگیوں 
 میں  مذہب  کا  کردار  نہ  ہونے  کے  برابر  ہے تاہم  اِن  یورپی  ملکوں  میں صرف  پولینڈ  واحد ایک ایسا
ملک ہے کہ جہاں پرہر  تیسرے شخص  کا یہ  کہنا  تھا  کہ اُس  کے لیے اس کا مذہب انتہائی اہمیت  کا حامل
 ہے ۔۔
 یورپی ممالک کے 20 فیصد (اوسطاً) جبکہ پولینڈ کے 50 فیصد شہریوں نے کہا  کہ وقت  پڑنے پر وہ  وطن 
کیلئے اپنی جان قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔۔
قومی  ترجیحات  بالترتیب
جرمنی: ( آزادی،امن اور انصاف
فرانس: (انصاف، یک جہتی، ماحول اور تعلیم
پولینڈ: (خاندان،آزادی اور حب الوطنی ) ۔۔
 پوسٹ کی تیاری میں درج ذیل لنک سے مدد لی گئی ہے۔۔
بشکریہ DW۔ :http://www.dw.de/%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE%DB%8C-%D8%B3%D8%B1%D9%88%DB%92-%D8%AE%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%A7%D9%86-%D9%88%D8%B7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%D8%B0%DB%81%D8%A8-%D8%B3%DB%92-%D8%A8%DA%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%81%D9%85/a-17678610
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }              

Monday, June 16, 2014

آگہی کیلئے

  منجانب فکرستان
آگہی کیلئے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 اِن سے بچنا تو محال ہے! البتہ جہاں تک اپنے اختیار کی بات ہے، وہاں تک تو احتیاط  کرسکتے ہیں۔ 
 ٭٭٭٭٭٭٭
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں } 

Saturday, June 14, 2014

" بلند ہوتا : ریپ گراف "

منجانب فکرستان
  
ورلڈ کپ فٹبال:افتتاحی انٹرٹینٹمنٹ
 عورتوں کا لباس ملاحظہ ہو: انٹرٹینٹمنٹ کے نا م پر فلم،میڈیا اورسرمایاکاری نظام خواتین کے عریاں جسم 
دِکھا دِکھا کرمردوں کے فطری جبلی جذبات میں آگبھرتے رہتے ہیں،اِس آگ کو جو جتنا زیادہ جمع کرلیتا
 ہے، فطر ت اِس آگ کو بجھانے کیلئے اُتنی ہی بےچین رہتی ہے،اور پھر ذرا سا موقع ملنے پر " ریپ "
 ہوجاتا ہے۔
      برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کی خصوصی سفیر انجلینا جولی دس جون کو لندن کانفرنس میں افتتاحی تقاریر کرتے ہوئے

ہر ملک جنسی تشدد کے لپیٹ میں ہے (جان کیری
    جنگوں میں فوجیوں کو یہ شعور تو ہوتا ہے کہ وہ کسی لمحے بھی موت کے منہ میں جاسکتے ہیں حیرت ہے
   کہ پھر بھی اِن کے دماغوں میں ریپ جیسا گھناؤنا  جُرم،ظلم اور گُناہ کرنے کا خیال کیسے آجاتا ہے ؟؟
 اقواممتحدہ کے مطابق روانڈا میں تقریباً 5 لاکھ جبکہ بوسنیا میں 20 ہزار  خواتین کا ریپ دورانِ جنگ ہُوا۔
(مزید تفصیل لنک پر)۔
   
بوسنیا ئی خواتین پر ہونے والے ظلم کی داستان سُن کر انجلینا جولی آنسوؤں کو ضبط نہ کرسکیں اور وہ بہہ نکلے۔ 
 

 پوسٹ میں کہی گئی باتوں سےاختلاف/اتفاق کرناآپکا حق ہے۔اب مجھےاجازت دیں،پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔ 
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں } 

Monday, June 9, 2014

" کچھ تاریخی حقائق "

  منجانب فکرستان 
غوروفکر کیلئے
گولڈن ٹیمپل کو امن کی علامت کہنے والے ہی فساد کررہے ہیں: تمام مذاہب اخوت، بھائی چارہ اور امن
 کا درس دیتے ہیں،لیکن اِن مذاہب کے پیرو کار تعلیمات کے برعکس عمل کرتے ہیں،مثلاً: اگر ہم سکھو ں
 کی  گرنتھ صاحب،صوفیائے کرام،گولڈن ٹیمپل  کی تعمیر دیکھیں:اور پھرتقسیمِ  ہند پر لکھی سکھ مسلم خونی 
 تاریخ کو دیکھیں تو مذہبی تعلیماتِ کے برعکس شیطانی عمل ہُوا۔
گولڈن ٹیمپل کی بنیاد مسلمان صوفی  بزرگ حضرت میاں میر جی  نے سولہویں صدی میں گرو  ارجن
صاحب کی خواہش پر اپنے ہاتھوں سے رکھی۔ یہاں روزانہ ہزاروں سکھ عبادت کیلئے آتے ہیں،وہیں
دنیا بھر سے سیاح اس گوردوارے کا خوبصورت طرز تعمیر دیکھنے آتے ہیں۔۔گولڈن ٹیمپل کو مذہبی 
رواداری،محبت، بھائی چارے اور امن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ 
پانچویں سکھ گرو ارجن دیوجی (1616- 1581) نے گرُو گرنتھ صاحب کی ترتیب و تدوین سن سولہ
سو تین میں شروع کی تھی۔ اس وقت پنجاب کے دانشور حلقوں میں  کتاب گرنتھ صاحب کی تیاری کا
 کافی چرچا ہوا۔سکھوں کی اِس مقدس  کتاب گرنتھ صاحب  کی تیاری میںگرو ارجن دیو جی کے علاوہ 
پہلے چار سکھ گروؤں اور مسلمان اور ہندو صوفیاء اور بھگتوں کے کلام پر مشتمل  سن سولہ سو چار میں
 مکمل ہوئی۔ (مزید تفصیل کیلئے لنک پر جائیں)۔
http://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%AF%D8%B1%D9%86%D8%AA%DA%BE_%D8%B5%D8%A7%D8%AD%D8%A8  
 پوسٹ میں کہی گئی باتوں سےاختلاف/اتفاق کرناآپکا حق ہے۔اب مجھےاجازت دیں،پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔ 
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }          

Saturday, June 7, 2014

"گذشتہ سے پیوستہ "

منجانب فکرستان
 لیون لیڈرمین نے  ہیگز بوزون ذرہ کو" گاڈ پارٹیکل" غالباً تمثیلاً لکھا، لیکن میڈیا  کے طفیل میں بھی دھوکا 
کھا گیا اور اِس نظریہ کے خلاف 28/9/2011 کو کیا کچھ لکھا " کاپی پیسٹ" آخر میں ملاحظہفرمائیں۔۔   

" کاپی پیسٹ"
لگتا ہےسرن( cern)  کےسائنسدان بھی سائنس کے عشق میں مبتلا ہوکر  کُچھ جذباتی ہو گئے ہیں  کہ  ہیگز بوزون "ذرہ"
 کو" خُدا" کا درجہ دینے لگے ہیں۔۔۔ جبکہ سائنسدان تو خود  اچھی  طرح جانتے ہیں کہ سائنسی نظریات تو آئے دن بدلتے
 رہتے ہیں۔۔۔ ایسے میں  ہیگز بوزون کو" گاڈ" پارٹیکل کہنا کہاں کی عقل مندی ہے ۔۔۔  یہ سائنس کو بند گلی میں لے
 جانے والی جیسی بات  ہے ۔۔۔ کل کلاں کو  ہیگز بوزون سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ذرہ کی نشان دہی ہوتی ہے تو پھر آپ کیا کریں گے ؟؟؟چلیں مان لیتے ہیں کہ ہیگز بوزون ذرہ دریافت ہو بھی جاتا ہے مگر اسکو " گاڈ "پارٹیکلکون مانے گا مذاہب نے  انسانی ذہن میں "گاڈ" کا جو امیج بنایا ہے وہ ماورائی ہے ۔۔۔ اس سے دُنیاوی کوئی چیز میل نہیں کھا سکتی ہے۔۔۔ 
جس کمپیوٹر نے ذہانت میں انسان کو شکست دی ۔۔۔یقیناً وہ بہت ذہین  ہے مستقبل قریب میں  اس سے بھی زیادہ ذہین ترین کمپیوٹرز بنیں گے لیکن کیا  یہ ذہانت سے معمور کمپیوٹرز اپنے بنانے والے کو جان سکتے ہیں ؟؟؟ یہ ذہانت میں انسان سے چاہے کتنے ہی زیادہ ذہین کیوں نہ ہوجائیں پھر بھی یہ اپنے بنانے والےکو نہیں جان سکتے ہیں ۔ یہی حال انسان کا ہے کہ وہ چاہے کتنی ہی بڑی لیب کیوں نہ بنالیں وہ اپنے خالق کو کبھی نہیں جان سکتا ۔ ۔۔ شُکریہ۔۔۔

لگتا ہےسرن( cern)  کےسائنسدان بھی سائنس کے عشق میں مبتلا ہوکر  کُچھ جذباتی ہو گئے ہیں  کہ  ہیگز بوزون "ذرہ" کو" خُدا" کا درجہ دینے لگے ہیں۔۔۔ جبکہ سائنسدان تو خود  اچھی  طرح جانتے ہیں کہ سائنسی نظریات تو آئے دن بدلتے ہتے ہیں۔۔۔ ایسے میں  ہیگز بوزون کو" گاڈ" پارٹیکل کہنا کہاں کی عقل مندی ہے ۔۔۔  یہ سائنس کو بند گلی میں لے جانے والی جیسی بات  ہے ۔۔۔ کل کلاں کو  ہیگز بوزون سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ذرہ کی نشان دہی ہوتی ہے تو پھر آپ کیا کریں گے ؟؟؟چلیں مان لیتے ہیں کہ ہیگز بوزون ذرہ دریافت ہو بھی جاتا ہے مگر اسکو " گاڈ "پارٹیکلکون مانے گا مذاہب نے  انسانی ذہن میں "گاڈ" کا جو امیج بنایا ہے وہ ماورائی ہے ۔۔۔ اس سے دُنیاوی کوئی چیز میل نہیں کھا سکتی ہے۔۔۔ 
جس کمپیوٹر نے ذہانت میں انسان کو شکست دی ۔۔۔یقیناً وہ بہت ذہین  ہے مستقبل قریب میں  اس سے بھی زیادہ ذہین ترین کمپیوٹرز بنیں گے لیکن کیا  یہ ذہانت سے معمور کمپیوٹرز اپنے بنانے والے کو جان سکتے ہیں ؟؟؟ یہ ذہانت میں انسان سے چاہے کتنے ہی زیادہ ذہین کیوں نہ ہوجائیں پھر بھی یہ اپنے بنانے والےکو نہیں جان سکتے ہیں ۔ یہی حال انسان کا ہے کہ وہ چاہے کتنی ہی بڑی لیب کیوں نہ بنالیں وہ اپنے خالق کو کبھی نہیں جان سکتا ۔ ۔۔
28/9/2011 کو لکھی پوسٹ کا لنک
 پوسٹ میں کہی گئی باتوں سےاختلاف/اتفاق کرنا آپکا حق ہے۔ پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }    

Thursday, June 5, 2014

کیا کوئی مناسبت نظر آتی ہے؟؟؟

منجانب فکرستان
سابقہ پوسٹ میں موت کے وقت کہے گئےالفاظ اور روز نامہ دُنیا میں آج شائع شُدہ درج ذیل مضمون میں 
کہی  گئی باتوں میں: کیا کوئی مناسبت نظر آتی ہے؟؟ 
 پوسٹ میں کہی گئی باتوں سےاختلاف/اتفاق کرنا آپکا حق ہے۔ پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }    

Wednesday, June 4, 2014

" موت اور آخری الفاظ "

  منجانب فکرستان
غور وفکر کیلئے
غوروفکر سےآپکی  کیا مراد ہے؟وضاحت: مثلاً طالبان نے مذاکرات کے زریعے 1 قیدی کے بدلے امریکہ
 سے اپنے 5 قیدی رہا کرالئیے اس واقعے کےمختلف پہلؤں پر غوروفکر کے زریعے ہمامریکہاور طالبان کے 
بارے میں اپنی ایک ذاتی رائے قائم کرسکتےہیں۔ویسےتو غوروفکر کرنے والے۔اپنے بے وزن چلنے پھرنے 
پر بھی غوروفکر کرکے ۔ ۔" خُدا"سے  ملاقات کرلیتے ہیں۔۔ (یعنی خُدا کی عظمت کو محسوس کرلیتے ہیں)۔
آج "موت"پرغور وفکر کیلئےمحترم جناب کلدیپ نائر کے چھوٹے بھائی کی موت کےمنظر اورآخری الفاظ کو
 منتخب کیا ہے وہ اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں کہ:
"جب اُسکا وقت قریب آچکا تو وہ  کہنے لگا مجھے زور سے چمٹا لو۔۔جیسے کوئیاس کولے جانا چاہ رہا تھا۔۔۔اور 
وہ چاہتا تھا کہ۔۔میں اُسے روک دوں۔میں نے نہایت زور سےاپنے بازؤں میں دبا لیا ۔۔لیکن مجھے محسوس 
ہُورہا تھا کہ اُس  کا بدن ڈھیلا پڑگیا ہے۔۔۔اُس کےآخری الفاظ یہ تھے ۔۔۔بھائی  مجھے چھوڑ دو۔۔۔۔ مجھے 
روشنی نظرآرہی ہے۔۔۔میں وہاں جا رہا ہوں۔۔۔تب وہ جا چُکا تھا "۔( Beyond the lines ترجمہ ایک
 زندگی  کافی نہیں  پبلشرزفکشن ہاؤس
٭٭٭٭٭ 
فکرستان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اِس میں زیادہ تر ایسی باتیں، واقعات یا تذکرے ہوں کہ جن پر کچھ غور وفکر ہو ۔۔۔اب یہ پڑھنے والے کی دلچسپی پر منحصر ہے کہ جس واقعے کا تذکرہ کیا گیا ہو اُس میں پڑھنے والے کی دلچسپی  کتنی ہے؟ 
دُنیا میں جتنے بھی مذاہب آئے اُنکی مذہبی کتابوں میں غوروفکر کی ایسی دعوت نہیں دی گئی ہے، جیسی کہ  قُرآن مجید میں دی گئی ہے ۔۔قُرآن مجید میں تقریباً گیارہ فیصد آیات ایسی ہیں کہ جو انسانوں کو غوروفکر کی دعوت دیتی  ہیں۔۔۔
  پوسٹ میں درج باتوں سےاختلاف/اتفاق کرنا آپکا حق ہے۔ اب اجازت دیں، پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }