Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Wednesday, November 24, 2010

لا محدود کو محدود۔۔۔۔۔( تیسرا حصہ )۔

فکرستان سے " ایم ۔ ڈی " آپ سے مُخاطب ہے۔ پہلے حصے میں  آپکو یہودیت جبکہ دوسرے میں عیسایت سے آگاہی  ہوئی ۔ اب ہم وہیں سے سلسلہ جوڑتے ہیں    
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعلیٰ کی طرف سے جتنے بھی پیغام برآئے سب کا پیغام ایک ہی ہے ۔جیسے جیسے گردش زمانہ ذہن کو ترقی دیتا رہا ۔اس دور کی ذہنی نسبت سے اللہ تعلیٰ اپنا پیغام پیغمبروں کے زریعے بھیجتے رہے ، جس قوم نے جتنی ذہنی ترقی کی اُسی  کی نسبت سے اُس قوم کے لیئے ایک پیغمبر آیا ۔آج سے 14سوسال پہلے جب انسان کی ذہنی بلوغت مکمل ہوئی تو دنُیا کی تمام قوموں کےلیئے ایک آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ تشریف لائے اور دین کو مکمل کردیا ۔۔۔۔۔
 جیساکہ ابھی میں نے کہا  کہ سب کا پیغام ایک ہی ہے ۔وہُ ہے" صراط مستقیم " یعنی انسان کی فلاح کا راستہ اور شیطان کے شر سے محفوظ رہنے کا طریقہ ۔ سارے پیغمبراللہ تعلیٰ کا یہی پیغام لائے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہرنماز میں صراط مستقیم کو پڑھتے ہیں،اورصراط مستقیم پرچلنے کی دُعا مانگتے ہیں 
۔ جیساکہ ابھی کہا دُنیا میں جتنے پیغمبر آئے اللہ کا یہی پیغام لائے تھے ۔ لیکن جیسے ہی پیغمبر کا وصال ہوتا مفاد پرست دین میں تحریف کر ڈالتے تھے اسی لئے قُران کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعلیٰ نے لی ہے۔ اب میں اسلام میں اخلاقی تعلیمات کاذکر کرتاہوں۔
 اسلام کے معنی امن اور سلامتی کے ہیں جبکہ مسلم کے معنی صراط مستقیم یعنی سیدھے راستے پر چلنے کے ہیں یعنی وُہ راستہ کہ جسکواللہ تعلیٰ نے مُقررکیا کہ جس پر چلنے سے امن 
ہی امن اور سلامتی ہی سلامتی ہے  ۔۔۔۔
آپ ﷺ نےفرمایاعربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر 
 ،  آقا کو غُلام پر غلام کو آقا پر، سفید کو سیاہ پرسیاہ کو سفید پر کوئی برتری نہیں ،برتر صرف وہی ہے جوصراط مستقیم پر ہے ، غُلاموں کو وہی کھلاؤ جو خُود کھاتے ہو، وہی پہناؤ جو خُود پہنتے ہو،پڑوسیوں سے اچھا سلوک رکھو، ہمارے مذہب میں بلا وجہ ایک انسان کا قتل اتنا بڑا جُرم ہے گویا یہ تمام انسانوں کے قتل کے مترادف ہے ، ہمیں یتیموں اور بیواؤں  سے اچھا سلوک روا رکھنے کا حُکم ہے ، قربانی کے گوشت میں غریبوں کا حصہ مُقرر ہے ،زکٰواۃ کے زریعے غریبوں کی مالی فائدہ پہنچانے کا نظام ہے  ، عالمگیریت کوفروغ دینے کیلئے حُکم ہے کہ وُہ شخص مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ دیگراقوام کے نبیوں  پر بھی ایمان نہ لائے ۔۔۔اسلام کے بُنیادی ارکان میں ۔اللہ اور رسولﷺکا اقرار کرنا ، نمازپڑھنا ،زکٰوۃ دینا ،روزہ رکھنا اورحج کرنا ہیں ۔۔۔ اسکے علاوہ فرشتوں،آسمانی کتابوں ،رسولوں ،قیامت اور روز جزا سزا پریقین و ایمان رکھنا ضروری ہے  ۔اللہ کے نزدیک صرف وہی شخص بخشش اور جنت کاحقدار بن سکتا ہے کہ جو ان باتوں پر ایمان و یقین رکھتا ہو۔یعنی صرف وہی انسان اللہ کی رحمت سے مستفیض ہوگا جوکہ مسلمان ہوگا اور جو مُسلمان نہ ہوگا اُسکی بخشش بھی نہیں ہوگی  ۔وہ ہمیشہ کیلئے دوزخ میں ہی رہے گا ، جبکہ مسلمان کے گُناہ کا پلڑا بھاری ہونے کی صورت میں گُناہوں کی مُناسبت سے سزا جھیل  کر جنت میں داخل ہونے کا حقدارہوگا ۔ اسلام کے بارے میں منفی پروپگنڈہ  سے مُتاثر ہوکر دیگر مذاہب والے یہ دیکھنے کے لیے اسلام کا مُطالعہ  کرتے ہیں کہ آخر دیکھیں یہ دین کس حد تک خراب ہے ۔ لیکن جب مُطالعہ کرتے ہیں تو اُنہیں اسلام  میں  باپ ، بیٹے ، روح القدس جیسے غیر عقلی عقیدوں سے واسطہ نہیں پڑھتا ، نہ ہی یہودیوں کی طرح کے خُدا سے کُشتی والے عقیدہ سے اور نہ ہی بُتوں کو پوجنے جیسے عقیدوں سے پالا پڑتا ہے ،چونکہ  یہ غیر عقلی عقیدے اُنہیں  ہمیشہ شک اور تذبذب میں مبتلا کئے ہوئے رہتے ہیں ، اس لیے اسلام کے مُطالعہ سے جب حقیقی دین پاجاتے ہیں تو مُسلمان ہوجاتے ہیں ، یہ عقلی دور ہے ، اسلئے اب یہ تحریف شُدہ بے عقلی دور کے مذاہب  زیادہ دن نہیں چل سکیں گے۔ میں یہ بات دعویٰ سے کہتا ہوں کہ کسی بھی مذہب کا پکا  راسخ العقیدہ شخص بھی جب اسلام کا مطالعہ کرے گا اور اپنے مذہب سے مُوازنہ کرے گا توسچائی کی گواہی پروہ مسلمان ہو جائے گا۔ اس وقت دُنیا میں جتنے مذاہب ہیں ان میں اسلام ہی وُہ واحد مذہب ہے جو عقل کے عین مُطابق ہے یہی وجہ ہے کہ جب تعلیم یافتہ لوگ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو حقیقی دین کو پاجاتے ہیں اسطرح سے لوگ مسلمان ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ اسی لیے میں یہاں پرموجود تمام نان مسلم کودعوت دیتا ہوں کہ وُہ بھی    
 دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں تاکہ اللہ کی رحمت ،بخشش،اور جنت کو پاسکیں اور دوزخ اُن سے دُور ہوجائے ۔والسلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مُسلمان عالم کے بعد سائنسدانوں کے نمائندہ کودعوت دی گئی کہ وُہ اپنے خیالات کا اظہار کرے ۔"باقی آئندہ آخری حصہ میں"۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Monday, November 15, 2010

لا محدود کو محدود۔۔۔۔۔۔(۔دوسرا حصہ۔)۔

فکرستان سے " ایم ۔ ڈی" آپ سے مُخاطب ہے ۔پہلے حصے میں آپکو  غیر تبلیغی  مذہب یہودیت کے بارے میں کافی نئی  معلومات حاصل ہوئی  ہونگی ۔ اب ہم وہیں سے سلسلہ جوڑتے ہیں۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                   
                    
اُسکی رحمت ہمارے ساتھ ہو گئی  ۔وہُ ہمارے درمیان آگیا نہ صرفسیدھا ،سچا        راستہ 
       
دکھا نے بلکہ ہمیں اُس ازلی گُناہ سے نجات دلانے ۔جو کہ بی بی حوا اور آدم  نے کیا تھا ۔

یہ پہلا گُناہ ایسا گُناہوں کا بیج تھا کہ جو انسان کے سرشت میں داخل ہوگیا تھا کہ جس سے

 سارے قسم کے گُناہ وجود میں آگئے تھے ۔اس سے نجات کیلئے کُفارہ ضروری تھا۔ مگر یہ 

کُفارہ انسان ادا نہیں کرسکتا تھا ،چونکہ انسان تو خوُد گُناہگار ہے یہ کُفارہ تو وہی ادا کرسکتا تھا 

جوخود اس ازلی گُناہ سے پاک  ہو۔

شیطان خوش تھا کہ اس ازلی گُناہ سے انسان کبھی نجات نہیں پاسکے گا اور وہ کبھی   جنت 

میں داخل نہیں ہو سکے گا۔مگر اسُ روح القدس کے قُربان جائیے کہ انسان کی نجات کیلئے
  
اپنے کلام کومسیح کی انسانی صورت عطا کی "یوحنا ؛1،14،2،1 "  جو کنواری مریم کے زریعے

 اس دنُیا  میں آئی ۔ یہ انسانی صورت اُس ازلی گُناہ سے پاک تھی یہ صورت اسلئے دنُیا   میں 

آئی  تا کہ انسان کے ازلی گُناہ کا کُفارہ ادا ہو  سکے اور انسان  کواُس ازلی گُناہ سے نجات مل
 سکے ۔
 یسوع نے مصلوب ہوکر کفارہ ادا کیا اور انسان کو اُس ازلی گُناہ سے نجات دلائی تاکہ انسان

نیک عمل کرکے جنت میں داخل ہوجائے ۔
    
اگر کفارہ ادا نہ ہوتا توانسان کتنےہی نیک عمل   کرتا ،وہُ پھر بھی گُناہگار کا گُناہگار ہی    رہتا

بپتسمہ:۔ اب انسان صرف بپتسمہ کی سادی سی رسم یعنی رسمی غُسل شیطانی عمل  سےدست

برداری کااقرار، باپ ،بیتے اور روح القدس پر اعتقاد سے اسکے سرشت میں داخل ازلی گُناہ سے

 اسکو نجات مل جاتی ہے  ۔۔گویا یہ  ایک نئی پیدائش ہوتی ہے ۔۔پہلی پیدائش ازلی گُناہ سے

آلودہ تھی ۔ ۔۔ بپتسمہ لینے کے بعد دوُسری پیدائش گُناہ سے پاک  پاکیزہ پیدائش بن جاتی ہے ۔ 

عشاء ربانی   ؛۔ گرفتاری سے ایک دن قبل حواریوں کے ساتھ کھاناکھاتے ہوئے یسوع نے اپنی 

روٹی کے ٹکڑے کرکے شاگردوں کو دیئے اور کہا کھاؤ یہ میرا بدن ہےاوراپنے پیالے میں سے

 شاگردوں کو پینے دیا اور کہا پیو یہ میرا وہ مقدس خون ہے جو ازلی گُناہ کے کفارہ کےطور بہا یا 

جائے گا ۔ یہ کہتے ہوئے عیسائی عالم کےآنسو نکل پڑے ۔پھر آنسوؤں کو ضبط کرتے ہوئے 

کہا۔ اس رسم کو جاری رکھنے کا حُکم ہے اسلئے ہر اتوار کو چرچ میں اس رسم کی ادائیگی ہوتی ہے ۔

 ہمارا عقیدہ ہے کہ رسم کے لئے لائی گئی روٹی اورشراب پر دُعا کرتے ہی روٹی یسوع کےبدن 

اور شراب یسوع کے خون میں تبدیل ہوجاتا ہے۔یہ پاک چیزیں ہم کھاتے ہیں تاکہ ہمارے

 جسم  میں پاکیزگی آجائے ۔۔۔ یہ رسم گُناہوں سے نجات کا  شُکرانہ بھی ہے اور کفارہ کی عظیم

 قُربانی کی یاد کو  بھی تازہ  کرتی  ہے ۔۔۔  

اب میں اپنے مذہب کیحقانیت کے وہُ ثبوت بیان کرتا ہوں جو عقل والوں کیلئے ہیں کنواری 

مریم کے پیٹ سے پیدا ہونا،مرُدوں کو زندہ کرنا،بیماروں کو اچھا کرنا ،کم کھانے کو زیادہ کردینا،

دریا پر پیدل چلنا ،تیسرے دن زندہ ہوجانا۔غرض ایسے کئی خرق عادات واقعات  ۔خُدا یسوع  

مسیح ہونے کے ثبوت ہیں ۔

تعلیمات ؛ یسوع کی تعلیم مُحبت کی تعلیم  ہے ۔ہرایک سے محبت،غریبوں سے محبت بیماروں سے 

محبت،پڑوسیوں سےمحبتیہاں تک کے دشمنوں سےبھی محبت،ایک گال پر کوئی تھپڑ مارے تو 

دوسرا گال پیش کرنے کی تعلیم صرف یسوع کی تعلیم ہے ۔دوسروں کیلئے وہی پسندکرو جو اپنے 

لیئےچاہتے ہو ۔ساری اخلاقیات ان جملوں پر ختم ہوجاتی ہے ۔اس سے بہتر اخلاقیات کا درس 

ممکن ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنُیا کی تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت عیسائی مذہب  سے

تعلق  رکھتی ہے اور دنُیا میں سب سے زیادہ اسی مذہب کے ماننے والے پائے جاتے ہیں۔کیا یہ

 سارے ثبوت اس مذہب کی حقانیت کو ظاہر نہیں کرتے ہیں ۔

ہم یہودیوں کی طرح یہ نہیں کہتے ہیں کہ ہم منتخب قوم ہیں اور جنت میں ہم ہی جائیں گے ۔ 

ہمارا فیصلہ تو عمل اور اعتقاد  پر ہے  ۔البتہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ جس انسان نے بھی بپتسمہ 

نہیں لیاوہ خُدا کی بادشاہی یعنی جنت میں داخل نہ ہوسکے گا۔

اسلیئے میں یہاں پر موجود تمام خواتین وحضرات کو دعوت دیتا ہوں کہ ۔بپتسمہ لیکر عیسائی 

مذہب میں داخل ہوجائیں۔ اور ازلی گُناہ سے نجات پائیں ۔۔ بُہت شُکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔    
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عیسائی کے بعد مسلمان  عالم کو دعوت دی گئی ۔مسلمان عالم نے بھی دُعائیہ کلمات ادا کئے اور

سلام کرنے کے بعد مُخاطب ہوئے کہ ہم مُسلمان نہ تو یہ دعویٰ  کرتے ہیں کہ  ہم اللہ تعلیٰ کی

 منتخب قوم ہیں اور نہ ہی یہ کہتے ہیں  صرف ہمارے  رسولؐ کو مانیں ۔ ہم تمام پیغمبروں کو مانتے

 ہیں ،ہم موسٰؑے کو بھی مانتے ہیں ، عیسےٰؑ  کوبھی مانتے ہیں ،ہم ابراہیمؑ کو بھی مانتے ہیں ، ،محمدؐ کو 

بھی مانتے ہیں چونکہ ابراہیمؑ تامُحمدؐسب اللہ   کے پیغام بر تھے ۔ اب میں اسلام کے بارے میں  

سائنسدانوں کو سائنسی قانون ارتقا کے مُطابق سمجھا نے کی  کوشش کروں گا۔۔( باقی حصہ
   
سوئم میں)۔۔۔۔

Saturday, November 6, 2010

لا محدود کو محدود۔۔۔۔۔۔۔


فکرستان سے " ایم ۔ڈی " آپ سے مخاطب ہے۔ آج اُسسیمینارکی رپورٹ پیش کروں گاکہ

جس پر دنیا بھرکی نظریں لگی ہوئی تھیں کہ ان 27 سائنسدانوں میں سے کون ۔کس مذہب کو

اپنا تا ہے ۔ ۔۔۔۔ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا ۔ تمام مذہبیرہنما فل تیاری کر کے آئے ہوئے تھے ۔

سب سے پہلے یہودی عالم کو دعوتدی گئی ۔ اُسنے اپنے لباس کے اوپر اپنا مذہبی چوکونی لباس پہنا

ہوا تھا کہ جس پر جھا لریں لگی ہوئی تھیں سرپرچھوٹی ٹوپی اسلئےتھی کہ عقیدہ کے مطابق خُدا کی

تعظیم ہو ۔اُسنے پہلے آسمان کی طرف دیکھا پھر حاظرین کے لئےدُعا کی اور کہا ہما را مذہبتبلیغ کی

اجازت نہیں دیتا ہے ۔کیونکہ ہم خدا کی ایک منتخب قوم ہیں ۔ ہم غیر منتخب قوم کوکیسے اپنے میں

شامل کرسکتے ہیں ۔۔۔ میں صرف یہ کہنےنے آیا ہوں کہ آپ لوگ اس حقیقت کو مانیں اور

ہم سے محبتکریں کہ ہم خُدا کی منتخب قوم ہیں ۔۔۔ یہ ہمارے ہی آباؤاجدادتھے کہ جنہوں نے

دنُیا کو خُدائے واحد کا پیغام دیا ۔۔ ہماری قوم کے ہر گھر کے بیرونی دروازے پر آپکو تعویز نما

ایک ڈبیا لگی ہوئی ملے گی ، اس ڈبیا میں چمڑے کےجھلی کاٹکڑا ہوتا ہے جس پر لکھا ہوتاہے کہ"

ہمارا خُدا ایک ہے "اور اس کے پشت پر لکھا ہوتا ہے کہ وہ "قادرمطلق" ہے۔۔۔ہم روز صبح

جب گھر سے باہر نکلتے ہیں تو پہلے اس پر ہاتھ پھیرتے ہیں۔ یعنی یہ اقرار کہ خُدا ایک ہےاور وہ

قادرمطلق ہے ۔آپ ہمارے اس عمل سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم کس قدر واحد پرست

ہیں ۔ ختنہ کا حکم اسلئے آیا کہ ہم دوسروں سے الگ منتخب قوم ہیں ۔ جب حضرت ابراہیؑم کی

عمر 99سال اورحضرت اسماعیؑل کی عمر 13 سال تھی تو دونوں کی ختنہ ایک ہی دن ہوئی اسکی

تفصیل دیکھیں کتاب پیدائش"باب 17آیات 24،25،26 "۔ ۔ ہم اسرائیلی کیوں کہلاتے ہیں ۔

اسکی وجہ ہمارے پیغمبر حضرت یعقوبؑ کی خُدا سے کُشتی ہے ، رات بھر کی کُشتی ۔۔ جب صُبح

ہونے لگی تو خُدا نے کہا اب مُجھے چھوڑ دو اور جانے دو۔۔۔ہمارے پیغمبر نے کہا پہلے مُجھے برکت

دو پھر جانے دُونگا ، پھر خُدا نے برکت دی کہ آج سے تم اسرائیل ہو( عبرانیزبان میں اسرائیل

کے معنی ہیں خدا پر غالب آنے والا ) "( تفصیل کتابپیدائش باب 23 آیات 23تا 32") یہ

لقب ہماری قوم کے لیئے قابل فخر اعزاز ہے۔ ۔اسکے علاوہ جتنے نبی آئےوہ سب کے سب ہماری

قوم کے تھے ۔۔۔ من سلویٰ صرف ہم پر اترا تھا ، خُدا نے ہم سے ہی سب سے پیاریچیز کی

قربانی مانگی تھی ، ابراہیم نے اپنے پیارے بیتے اسحاق کو قربانی کے لیئے اُسی جگہ لے گئے جہاں

ہیکل کو تعمیرہونا تھا جبکہ مسلمانوں نے تحریف کرکے اسحاق کی جگہ اسماعیل کردیا ، اب ہم نے

اُس وقت تک کیلئے قربانی کوموقر کردیا ہے کہ جب تک ہمارا مسیحا آکر ہیکل کو تعمیر نہ کردے

۔اب ہم قربانی کے بدلے میں نماز کی ادائیگیکرتے ہیں ۔ ہم دن میں تین نمازیں ادا کرتے ہیں

جس کے تین جزُ ہیں خُدا کی تعریف،اپنے لیئے دُعا اورشُکراداکرنا لیکن ہمارے مذہب میں عبادت

سے زیادہ حقوق العباد کو ترجیح حاصل ہے تفصیل آپ احکامات عشرہ ، تورات اورتالمود میں دیکھ سکتے

ہیں۔خُدا نے ہمیں اپنی صفات پر پیدا کیا ہے مثلا"ایک یہودی میں رحم ،مہربانی ،سچائی،درگزرکرنے

والی صفات ہوتیں۔ ہیں یاد رہے خُدا کبھی نہیں چاہے گا کہ اُسکی منتخب کردہ قوم دوزخ میں جائے۔

ہمیں جنت میں ہی جاناہے ، یہی وجہ ہے کہ ہم میں عقیدہ آخرت نہیں ہے۔۔ خُدا کے دوتخت

ہیں ایک عدل کادوسرا درگزر کا یہودیوں کے فیصلے وہ درگزر کے تخت سے کرتا ہے ۔۔۔ہمارے

مذہب میں امن اورسلامتی کوبنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ہم جب ایکدوسرے سے ملتے تو ،السلام

علیکم کہتے ہیں جواب میں واعلیکم السلام کہتے ہیں ۔ ہم سورکاگوشت نہیں کھاتے ہیں ،بغیر ذبح

گوشت کھانا منع ہے۔۔ ۔ خدا نے ہمیں بچا کر ،فرعونی قوم کو دریا بُرد کیا تھا، دیگر قوموں نے

ہمیں کتنا لُوٹا ، ہمارا کتنا قتل عام کیا ، ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوششیں کیں، اسکے باوجود

ہم آج بھی دنیا کی سب سے زیادہ طاقت ورقوم ہیں ۔ہماری قوم میں حجت کرنے کی عادت

ہے ، مثلا"پیغمبر نے کہا خُدا کا حکم ہے کہ گائے کی قربانی دی جائے ، ہم ایکدم گائے کی قربانی

دینے تیار نہیں ہونگے ، ہمموسےٰؑ کو بار بار خُدا کے پاس بھیجیں گے کبھی گائے کا رنگ پوچھنے ،

کبھی گائے کی عمر وغیرہ پوچھنے ، اسی طرح کئیبار ہمارے پیغمبر نے خُدا سے بحث کر کے ہماری

بات منوائی ۔ایک مثال اور معراج میں مسلما نوں پر 50 نمازیں فرض کیگئیں تھیںلیکن ہمارے

پیغمبر موسےٰ ؑ نے محمدؐ کو بار بار خُدا کے پاس بھیج کر 5نمازیں کرائیں یا پھر خُدا کو دیکھنے کی ضدکرنا

غرض حجت کرنے کی یہی عادت ہے کہ سب سے زیادہ اور اہم سائینسداں ہماری قوم میں سے ہیں

خُدا نے اپنےہاتھ سے دو تختیوں پر دس احکام لکھ کر ہمارے پیغمبر موسےٰعلیہ السلام کو دی تھیں۔

۔کیا یہ سارے ثبوت۔۔ دلائلنہیں ہیں کہ ہم خدا کی منتخب قوم ہیں ۔ اسلئے دنیا کو ہم سے

محبت کرنی چاہئیے تاکہ خدا وند آپ لوگوں سے خوشہو ۔ بہت شکریہ ۔۔ ۔

اب عیسائی عالم کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے مذہب کے بارے میں بتائیں ۔ ۔ ۔ ۔

عیسائی عالم نے بھی دُعایہ کلمات کے بعد کہا ۔۔۔صحیح معنی میں خُدا کی پسندیدہ قوم ہونے کا

شرف ہمیں حاصلہے۔خُدا نے جو مہربانیاں ہماری قوم پر کی ہیں ،کسی اور پر نہیں کیں ہیں

، جسکا ثبوت یہ ہے کہ ۔۔( باقی حصہدوئم )۔۔