Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Thursday, November 28, 2013

سارے سلسلے لگتے ہیں ایک جیسے !!۔

منجانب فکرستان
 کرک نامہ اور اخبارات میں پڑھا کہ:  ہم کرکٹ میچ  جیت گئے ہیں۔۔دماغ میں خیال آیا کہ نوکری چلتی رہے گی، 
بالکل اسی طرح جسطرح ہمارے بہت سارے سرکاری محکمے کہ جن کا کام انسداد جرائم ہے۔۔۔لیکن پھر بھی جرائم
 کا گراف اِس تیزی سے بلند ہو رہا ہے گویا یوں لگتا جیسے انکے انسداد کیلئے ملک میں سرے سے محکمے نہیں ہیں:
 تاہم پھر بھی جیسے ہم اخبارات میں کبھی کبھار پڑھتے ہیں کہ ہم میچ جیت گئے ۔۔بالکل اسی طرح کبھی کبھار ایسی خبریں  بھی  پڑھنے کو مل جاتی ہیں کہ  فلاں محکمے نے فلاں کیس پکڑا ہے: یوں عوام کو معلوم ہوجاتا ہے اور عوام خوش ہوتی ہے کہ گویا ملک میں فلاں جرم کے انسداد کیلئے ہمارے ملک میں محکمہ موجود ہے۔۔۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ محکمہ اپنی حفاظت کی خاطر کبھی کبھا کاکردگی دکھا کر فائل کا پیٹ بھرتا ہے۔۔جیسے کبھی کبھی کرکٹ کی جیت ہوجاتی ہے۔۔۔یاپھر جیسےکبھی کبھار ٹریفک والا بابو پیسے لینے کے بجائے ہمارا چالان کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ مہینہ میں اتنے کیس دکھانے ہیں تاکے محکمہ بھی چلتا رہے ،اور نوکری بھی چلتی رہے۔۔۔   پاکستان میں سارے سلسلے ایک جیسے لگتے ہیں ۔۔۔
اب مجھے اجازت دیں ۔۔۔آپکا بُہت شُکریہ ۔۔۔
نوٹ: رائے سے اختلاف/ اتفاق کرنا: ہر پڑھنے والے کا حق ہے
  { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں } 



   

لمحاتی لذتی جذبہ" عقل " کو" دُھول " چَٹا دیتا ہے۔

منجانب فکرستان
کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے؟؟ "امریکی صدر، اسرائیلی صدر،اٹلی کے وزیر اعظم، آئی ایم ایف کے سربراہ:اعلیٰ عقلی
 قابلیت کی بِنا پر اعلیٰ عُہدوں پر پہنچے (لیکن)لمحاتی لذتی جذبہ نے انکی عقلوں کو لمحہ بھر میں دُھول چَٹادی:سزا کی تفصیل
آگے آئے گی۔"ترون تیج پال"جس نے اپنے  اعلیٰ آدرش  اوربے باک صحافت کی بنیاد پر جریدے "تہلکہ" کو عُروج پر پہنچایا:
معاشرےمیں اپنی ایک صاف سُتھری شبیہہ بنائی:عزت، شُہر ت پائی: پھر ایسا ہُواکہ تیج پال کے ساتھ کام کرنے والی 
ایک صحافی لڑکی کے جسم نے لمحاتی لذتی جذبہ کو ایسا اُبھارا کہ عقل دُھول چاٹنے لگی:
 یوں لمحاتی جذبے نے تیج پال کی عزت، شُہر ت اور صاف سُتھری شبیہہ کو خاک میں ملا دیا، اب وہ بیٹی، بیوی، خاندان، دوست احباب اور معاشرے  کا سامنا کیسے کرے پائے گا؟؟
تیج پال کی بیوی اور بیٹی بھی اپنے دوست احباب سے کیسے آنکھیں ملائیں گی ؟؟۔۔۔ پھر متا ثرہ لڑکی اور اُسکا خاندان بھی  بِنا کئے جرم کی سزا کاٹیں گے  ۔۔۔۔۔۔ اے بھگوان : چند لمحوں میں یہ سب کیا ہوگیا ؟؟؟ میری مذہبی تعلیم، انسانی اخلاقیات ، خاندان کا خیال ، معاشرے کا خوف  یہ سب کے سب اُس لمحے کہاں چلے گئے تھے ؟؟؟ 
٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭
لمحاتی لذتی جذبہ نے سزا دی :
 بل کلنٹن کو پوری دُنیا کے سامنے رُسوا ئی اور شرمندگی  کا  سامنا کرنا پڑا۔۔
٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭
 سابق اسرائیلی صدر موشے کاٹساو  کو بدنامی کے ساتھ صدارتی عہدے سے استعفیٰ اور 7 سال قید جس میں سے 2سال بامشقت سزا ہوئی ۔۔
٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭
اٹلی کے سابق وزیر اعظم بر لو سکونی کو 7 سال کی  سزا ہوئی تھی  یوں  سکونی بے سکونی ہُوا  ۔۔
٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭
عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے سابق سربراہ ڈومینک سٹراس کو استعفیٰ دینا پڑا ، جیل کی ہؤا کھانی پڑی اور فرانس کے صدر بننے کا خواب ٹوٹ کر چکناچور ہُوا ۔۔گو بعد میں عورت سے مُک مُکا ہُوگیا۔
اب مجھے اجازت دیں ۔۔۔آپکا بُہت شُکریہ ۔۔۔
نوٹ: درج بالا خیالات سے اختلاف/ اتفاق کرنا: ہر پڑھنے والے کا حق ہے
  { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں } 

Sunday, November 24, 2013

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟؟؟

منجانب فکرستان:اب اوباما کے بیان کے اضافے کے ساتھ
نوٹ: ( دوستو )اوباما نے ایران سے جوہری معاہدے پر تنقید کرنے والوں کے جواب میں جو کچھ کہا:
وہ اِس لکھی پوسٹ سے مِلتا جُلتا لگا :اسلئیے  بیان کو آخر میں شامل کیا گیا ہے۔۔
٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭   
 لگتا ہے یہودی لابی کمزور پڑ گئی ہے۔ ورنہ زیادہ دن نہیں گُذرے کہ اسرائیل ا ور امریکہ دُنیا کو ایسا تاثر دے رہے تھے کہ :
ایران پر حملہ اب ہُوا کہ ہُوا۔۔اِس ممکنہ حملے کے بارے میں عام افراد تو رہے ایک طرف بعض دانشور و تجزیہ کار  بھی ایسے تبصرے کر رہے تھے کہ:
  جیسے ایران پر حملہ یقینی ہے َ۔۔اور اُس کے بعد کا نقشہ ایسا ہوگا ویساہوگا کی لن ترانیان سُناتے تھے ۔ ۔البتہ بعض ایسے بھی تھے جو کہتے تھے کہ:
 امریکہ بُہادر کو جنگ  گلے لگانے کا اچّھا خاصا سبق مل چُکا ہے ۔۔ایران پر حملے کی بات صرف گیدڑ بھپکی کے سِوا  کّچھ نہیں ۔۔ یہی بات صحیح ثابت ہوئی ۔۔۔
  کیا امریکہ اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی لا رہا ہے ؟؟؟
بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے جسکا ثبوت ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے مابین جوہری ابتدائی معاہدہ طے پاجانا ہے۔۔معاہدے کے مطابق ایران کا یورینیم افزودگی کا پروگرام بند نہیں ہوگا: جاری رہے گا۔۔
بالکل اسی طرح شام پر امریکہ/ اسرائیل کا حملہ اب ہُوا کہ ہُوا کا تاثر دُنیا بھر کا موضوع رہا ہے ۔۔لیکن وہاں بھی جنگ سے بچا گیا ۔۔وہاں بھی معاہدہ طے پا  گیا ۔۔
ایران اور شام کے حوالے سے امریکہ اور اسرائیل کی پالیسی گویا مشترکہ پالیسی تھی ۔۔۔لیکن ایران اور شام کے ساتھ۔۔۔ اسرائیل سعودی عرب  کی مخالفت کے باوجود معاہدے طے پاجانا ۔۔ گویا امریکی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا واضع اشارہ ہے ۔۔۔ شاید دُنیا میں اب نئے اتحاد  وجود میں آئیں گے ۔۔۔۔۔اور اسکی وجہ ہوگی ۔۔
سکون محال ہے قدرت کے کار خانے میں٭ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭   
اوباما نے کہا: "ہم تشدد کے ایک نہ ختم ہونے والے دائرے میں نہیں پھنسنا چاہتے : شاید سیاسی طور پر سخت بات اور ہنگامہ کرنا آسان ہے : لیکن یہ ہماری سلامتی کیلئے ٹھیک نہیں ہے "۔ ( مزید تفصیل لنک پر)۔
اب مجھے اجازت دیں ۔۔۔پڑھنے کا شُکریہ ۔۔۔
نوٹ: رائے سے اختلاف/ اتفاق کرنا: ہر پڑھنے والے کا حق ہے
  { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں } 




Thursday, November 21, 2013

" قاتلانہ کارستانی ۔۔۔ ماں چلی گئی "

منجانب فکرستان: پرندے : انسان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
چڑیا ، کبوتر، کوّے وغیرہ دن بھر دانے دُنکے  کیلئے زمین کا چپہ چپہ چھانتے ہیں۔۔
  لیکن چیلیں زمین پر خوراک تلاشتے نظر نہیں آتی ہیں:
 بادلوں کی طرح دن بھر آوارہ گردی آسمان پر ہی کرتی نظر آتی ہیں۔۔ 
 غذا زمین پر ہے بِنا غذا کیسے زندہ رہتی ہیں ؟؟ جبکہ انکا جسم چڑیوں، کبوتروں اور کوؤں سے بڑا ہے یقیناً غذا (توانائی)۔
 بھی زیادہ چاہئیے۔ گو کہ خُدا نے انہیں یہ صلاحیت عطا کی ہے کہ پنکھ کو بِنا ہلائے پھیلا  کر ہوا میں تیر تی رہتی ہیں: یوں یہ توانا ئی کا استعمال کم سے کم کرتی ہیں۔۔
پھر بھی یہ الجھن تو اپنی جگہ باقی ہے کہ اتنے بڑے جسم کو غذا تو چاہئیے۔۔انکے بچوں کو بھی غذا چاہئیے۔۔
شاید میری اِس الجھن کو چیل کے ایک جوڑے نے پڑھ لیا:  کیا دیکھتا ہوں کہ ہمارے پڑوس سے دوسرا مکان جوکہ گراؤنڈ پلس2 منزلہ ہے اُسکی چھت پر بنی پانی کی ٹینکی پریہ جوڑا  آکر بیٹھنے لگا، دیکھا کہ یہ اپنے پنجوں میں گوشت کے ٹُکڑے لاتے ہیں اور چونچ سے نوچ نوچ کر کھاتے ہیں اور کبھی کبھی نسل کی بقا  کیلئے جبلی تقاضہ بھی پورا کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ سارے نظارے اپنی  کھڑکی کے زریعے کئے۔۔ یوں اس جوڑے نے نہ صرف میری غذا والی الجھن کو دور کیا بلکہ توکل پر یقین کا درس بھی دیا:پرندے ذخیرہ نہیں کرتے توکل کرنے والوں کیلئے الرازق :مسبب الاسباب  غذاکے اسباب پیدا کرتا ہے اور ہم کبھی کسی پرندے یا چیل کوے وغیرہ کو بھوک سے مرتے نہیں دیکھتے ہیں:(لیکن)۔۔
٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭
 پچھلے دنوں یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ: دُنیا میں غذائی اجناس وافر مقدار میں  ہونے کے باوجود  ایک منٹ میں 18 افراد بھوک سے مرجاتے ہیں۔۔۔ اسکی کیا وجہ ہے ؟؟ اسکی وجہ انسانوں کی خباثت ہے یعنی  یہ انسان ہی تو ہیں جو ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں: اجناس کا ضیاع کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر غریب  بُھوکے لوگوں کی قوتِ خرید سلب کر کے اپنی تجوریاں بھر تے ہیں۔۔ یہ ہوس پرست انسانوں کی قاتلانہ کارستانی ہے۔۔۔جسکا ثبوت فیصل آباد کا واقعہ:  
فیصل آباد میں بھوکے بچوں نے ماں سے کھانا مانگا۔۔ لیکن ماں کے پاس مہنگا آٹا خریدنے کے پیسے نہیں تھے :بالآخر بچوں کا  بھوک سے تڑپنا، ماں سے دیکھا نہیں گیا :اُسنے چُھری اُٹھائی اور اپنا گلا کاٹ ڈالا، بچوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیا ۔ (خُدا مغفرت فرمائے۔آمین ) اِس خودکشی  پر وصی شاہ کا کالم (لنک پر)جس میں فیض کی احسا ساتی نظم بھی شامل ہے ۔۔۔۔
اب  مجھے اجازت دیں ۔۔۔آپکا بُہت شُکریہ ۔۔۔   
  نوٹ : رائے سے اختلاف/ اتفاق کرنا: پڑھنے والے کا حق ہے۔
 { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }

  
  


Friday, November 15, 2013

" استثنیٰ "

 منجانب فکرستان:جمہوریت : شریعت
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 تھائی لینڈ ایوانِ زیریں میں بھاری اکثریت سے جیسے ہی استثنیٰ کا بِل منظور ہُوا: بل کے خلافعوامی مظاہرے شروع ہوگئے:
 تھائی حکومت ہل گئی، فوراً سینیٹ  کا اجلاس بُلایا گیا:  منظور شُدہ بل کو بغیر مباحث تمام کے تمام سینیٹروں نے فوراً ہی مسترد کردیا:
 یوں یکم نومبرکا منظور بل 11نومبرکو مسترد بل بن گیا۔۔ جبکہ پاکستان میں ایسا نہیں ہُوا بلکہ اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان، صدر اور وزیراعظم تا حیات کیلئے خصوصی مراعت اور خصوصی استثنیٰ  کا بل قانون کی شکل اختیار کر گیا ،عوام نے کسی قسم کا احتجاج نہیں کیا ؛ فرینڈلی اپوزیشن سے شکوہ بیکار ہے۔۔۔گرفتاری کے سلسلے میں یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد میں  کہا کہ کسی میں ہمت ہے تو مجھے گرفتار کرکے دکھائے ۔۔مجھے استثنیٰ حاصل ہے۔۔
تب عام آدمی کو احساس ہُوا کہ اُسکی شناخت دھندھلا گئی ہے چونکہ اُسکے پاس استثنیٰ نہیں ہے۔۔یعنی  طاقت کا سمبل نہیں ہے  ؟۔۔  یہ استثنیٰ ہی کی آواز تھی جو کہہ رہی تھی کہ ہمارے پاس ڈگری ہے بس کافی ہے۔۔ جعلی اصلی کا سوال عام آدمی کیلئے ہے ؟؟؟ 
اب عام آدمی سوچتا ہے کہ اس جمہوری استثنیٰ سے اپنی جان چُھڑائے اور شریعت کو خوش آمدید کہے کہ کیونکہ شریعت میں اسطرح استثنیٰ کا تصورنہیں ہے۔
٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭
اصل میں جمہوریت نےمصلحتی اتحاد بن کر: فرینڈلی اپوزیشن بن کر عوام کو اتنے چرکے لگا دئیے ہیں کہ عوام سے قوتِ خرید دور ہوتی جارہی ہے،جسم وجاں کو بچانے کے لالے پڑ گئے ہیں، (لیکن) اس صورتِ حال  سے نجات دلانے والا اُنہیں پاکستان میں رائج جمہوریت  کے نظام  میں نظر نہیں آرہا ہے۔۔ اس لیے بھی اب عام آدمی شریعت کی طرف دیکھ رہا ہے ۔۔۔ آپکا کیا خیال ہے ؟؟؟
اب مجھے اجازت دیں ۔۔آپکا بُہت شُکریہ ۔۔۔
 نوٹ : رائے سے اختلاف/ اتفاق کرنا: پڑھنے والے کا حق ہے۔
 { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }

Wednesday, November 13, 2013

" اگلا گِرا پِچھلا ہوشیار"

 منجانب فکرستان: مصلحت کوشی: مصلحتی اتحاد: فرینڈلی اپوزیشن
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے قومی وطن پارٹی سے تعلق رکھنے والے دو وزراء کو کرپشن کے الزامات پر اُنہیں اُنکے عہدوں سے ہٹا دیا ۔
بِلا شُبہ  مُلکی سیاست میں پہلی بار ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ: مصلحت کوشی کو خیر باد کہا گیا ہے ۔۔(ورنہ  سابقہ پانچ سالہ دور  میں مصلحتی فرینڈلی اپوزیشن اور مصلحتی اتحاد سے ملک کو اور خاص کر کراچی کو بُہت نقصان پہنچا ہے)۔۔
دماغ میں  سوال گردش کرہا ہے کہ: کیا سندھ، پنجاب اور وفاق کے سب وزراء کرپشن سے پاک ہیں؟ جبکہ بلوچستان کے وزراء کیلئے جمعہ جمعہ آٹھ دن والی بات کہی جاسکتی ہے ۔۔
عمران خان نے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سے مزید  یہ بھی کہا ہے کہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی جماعت قومی وطن پارٹی کو حکومتی اتحاد سے خارج کردیں۔
اب اجازت دیں۔۔۔آپکا بُہت شُکریہ ۔۔۔ 
 نوٹ : رائے سے اختلاف/ اتفاق کرنا: پڑھنے والے کا حق ہے۔
 { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }   

تو پھر تردید کیسی؟؟۔

منجانب فکرستان 
 "سیدمنور حسن نے وہ بات کہی ہی نہیں  کہ جسکا ذکر سارے فسانے میں ہے"
یہ بات ایک بلاگ پر پڑھ کر حیرت ہوئی: دماغ نے سوال اُٹھائے:  
اگر سید صاحب سے جھوٹا بیان منسوب کیا جا رہا ہے تو اُنکی جماعت جوکہ:
( ریلیاں نکالنے اور احتجاج  کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی)خاموش کیوں ہے؟
لیاقت بلوچ نے  پریس کانفرس میں سید صاحب سے جھوٹا بیان منسوب ہونے پر  احتجاج کیوں نہیں کیا ؟
سلیم صافی خود کالم نگار ہیں:اپنے کالم میں اِس غلطی فہمی سے پردہ کیوں نہیں اُٹھا رہے ہیں؟؟
 اور سب سے بڑھ کر خود منور حسن صاحب تردید کیوں نہیں کر رہے ہیں؟ تردید کا نہ کرنا قبولیت کہلاتا ہے۔۔
 تردید تو کُجا وہ تو اپنے حالیہ خطاب میں کہہ رہے ہیں کہ میں اپنی بات پر قائم ہوں۔۔ تو پھر تردید کیسی ؟؟ 
 اب اجازت دیں ۔۔۔آپکا بُہت شُکریہ ۔۔
 نوٹ : رائے سے اختلاف/ اتفاق کرنا: پڑھنے والے کا حق ہے۔
 { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }  

Sunday, November 10, 2013

" غور طلب باتیں "

 منجانب فکرستان:ذرا توجہ سے پڑھیں کہ:  کالم میں کون  کونسی باتیں غور طلب ہیں ؟؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
روز نامہ"دُنیا" 9 نومبر2013
نوٹ : رائے سے اختلاف/ اتفاق کرنا ہر ایک کا حق ہے۔

Thursday, November 7, 2013

" یومِ آخرت "

 منجانب فکرستان:یومِ آخرت پر ایمان لانے کی اہمیت کی قُرآنی آیات: کیا ہم اپنے بارے میں جانتے ہیں ؟؟   
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
  ایک مسلمان کیلئے یوم آخرت ( یعنی  نیتوں کی بُنیاد پرحساب کتاب اور حساب کتاب کی بُنیاد پر جنّت اور دوزخ کے بارے میں
خُدا کے فیصلے کا دن) پر یقین لانا لازمی ہے۔۔یہ تو خُدا جانتا ہے کہ کون شہید ہے؟ کون شہید نہیں ہے:
 یہ تو یوم آخرت کے دن خُدا نے فیصلہ کرنا ہے۔۔ ہم کون فیصلہ کرنے والے؟؟
 یوم آخرت پر ایمان لانے کی  اہمیت۔۔ اور خُدا کے فیصلوں کے بارے میں سورۃ البقرہ 62 سورۃ المائدۃ 69 سو رۃالحج 17میں واضع ارشادات موجود ہیں۔۔ درج ذیل تمام ترجمے مولانا مودودی کے ہیں، 
سورۃ البقرہ 62:
یقین جانو کہ نبی عربی کو ماننے والے ہوں یا یہودی، عیسائی ہوں یا صابی، جو بھی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، اُس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور اس کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔
 سورۃ المائدۃ: 69:
(یقین جانو کہ یہاں اجارہ کسی کا بھی نہیں ہے) مسلمان ہو ں یا یہودی، صابی ہو ں یا عیسائی، جو بھی اللہ اور روز آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا بے شک اس کے لیے نہ کسی خوف کا مقام ہے نہ رنج کا۔
 سو رۃالحج: 17
جو لوگ ایمان لائے، اور جو یہودی ہوئے، اور صابئی، اور نصاریٰ، اور مجوس، اور جن لوگوں نے شرک کیا، ان سب کے درمیان اللہ قیامت کے روز فیصلہ کر دے گا، ہر چیز اللہ کی نظر میں ہے
 ہر چیز اللہ کی نظر میں ہے ، فیصلہ بھی اللہ نے ہی کرنا ہے۔تو پھر شہید یا ہلاک کے فتوے دینا یا دعوے کرنا  کیا ہمیں زیب دیتا ہے ؟؟ کیا ہم اپنے بارے میں جانتے ہیں کہ ہم کتنے نیک ہیں؟؟جب ہم اپنے بارے میں ہی نہیں جانتے تو دوسرے کی نیت یا دل کیفیت کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں۔۔رب کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔۔۔ اب اجازت دیں ۔۔آپکا بُہت شُکریہ ۔۔۔
نوٹ : رائے سے اختلاف/ اتفاق کرنا ہر ایک کا حق ہے۔
 { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }  

" فیکٹ و فکشن کا تضاد "

منجانب فکرستان: Pdf  : Helen-wambach Stanislav grof  
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دماغ۔۔دماغ کے سمجھ میں نہیں آرہا ہے،ایک ارب سے زیادہ نیوران کو سمجھنے  کیلئے ایک ارب پاؤنڈ کا یورپی یونین نے پراجیکٹ شروع کیا ہے ۔۔
دماغ ایک حیرت انگیز جادوگر ہے۔۔ ماہرینِ نفسیات نے لاشعور میں موجود ایسی حیرت انگیز باتیں دریافت کِیں ہیں کہ عقل حیران ہے مثلاً:
چیکو سلواکیہ کے مشہور ماہرِ نفسیات ڈاکٹرStanislav grof کو ذہنی مریضوں پر  نشہ آور دوا LSD کے اثرات کو جانچنے کا تحقیقی کا م سونپا گیا ۔۔۔
تحقیق سے حاصل نتائج کو گروف اسطرح بیان کرتے ہیں: ایل ایس ڈی مریض کے مرض پر ادویاتی اثر نہیں ڈالتی ہے ،
لیکن یہ لاشعور میں چھُپے واقعات کو شعور میں لے آتی ہے۔ ایل ایس ڈی کے زیرِ اثر افراد لاشعور میں موجود حیرت انگیز مگر ایک جیسے تجربات بیان کرتے ہیں، مثلاً وہ  اپنے  پیدائشی مرحلے کی دردِ زہ کی تکلیف بیان کرتے ہیں۔۔ وہ اپنی  ذات سے باہر نکل کر روحانی تجربے کا ذکر کرتے ہیں ۔۔ وہ بڑھاپے کی تکالیف، موت اور از سرِ نو پیدائش کا تذکرہ کرتے ہیں۔۔
یہ تو تھے لاشعور پر ایل ایس ڈی کے اثرات کے نتائج، جبکہ اسی طرح کے نتائج ایک امریکی ماہر نفسیات خاتون ڈاکٹر ہیلن ویم بیچ نے  بزریعے ہیپنوسس 750 افراد پر تجربات کے زریعے حاصل کئے ،اپنے تجربات کو کتاب کی شکل دی، کتاب کا نام رکھا "Life before life" ۔کتاب نے شُہرت پائی اخبارات نے تبصرے کئے، ٹی وی والوں نے انٹرویو لیا ، ہیلن نے کہا کہ کتاب میں جوکچھ بیان کیا گیا ہے وہ سب سچ ہے۔۔ سچ کے سِوا کچھ نہیں ہے۔۔۔ لیکن سچی بات یہ بھی  ہے کہ کتاب میں مجھے فیکٹ تو نہیں فکشن جیسا مزا آیا۔۔(خاص کر رشتوں کے حوالے سے)۔۔
کیا یورپی یونین کایہ دماغی پراجیکٹ اِس لاشعوری  فیکٹ و فکشن کے تضاد کو ختم کرسکے گا ؟؟؟
(گروف ، ہیلن اور کتاب کیلئے لنکس پر جائیں) مجھے اجازت دیں ۔۔۔آپکا بُہت شُکریہ ۔۔۔ 

نوٹ : رائے سے اختلاف/ اتفاق کرنا ہر ایک کا حق ہے۔
 { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }   

Friday, November 1, 2013

" اُونچی اُڑان "

منجانب فکرستان: پرزم : آئی ایم ملالہ: وزیراعظم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کیا امریکی تاریخ کا مطالعہ نہیں کرتے ہیں ؟؟ تاریخ اس بات کی گواہیوں سے بھری پڑی ہے اور یہ ایک طے شُدہ بات ہے کہ:
  خفیہ کام کبھی خفیہ نہیں رہتے ہیں۔۔ تاریخ  بتاتی ہے کہ  گھر کے بھیدی لنکا ڈھاتے ہیں۔۔اسی لیے سیانے کہتے ہیں کہ اپنا راز اپنے دوست کو نہ بتاؤ۔۔
امریکی جاسوسی نظام "پرزم" نے امریکہ کی شبیہہ کو بگاڑ دیا ہے، ممکن آپ کہیں کہ اُسکی شبیہہ  پہلے کونسی اچّھی تھی ؟؟ تو عرض ہے کہ جیسی شبیہہ اب بنی ہے پہلے ایسی تو نہ تھی،مثلاً امریکہ کے دوستوں میں جیسی اب بد اعتمادی پیدا ہوئی ہے پہلے تو نہ تھی۔۔پرزم جاسوسی نظام دوستوں کی جاسوسی امریکہ کی ایک بُہت بڑی غلطی ثابت ہوئی ہے ۔۔۔
ملالہ کا گراف اُوپر نیچے ہوتا رہا ہے لیکن کتاب" آئی ایم ملالہ " نے ملالہ کیلئے  امریکی پروگرام  " پرزم " جیسا کام کیا ہے ، اِس کتاب نے ملالہ کی شبیہہ کو بگاڑ دیا ہے۔۔ یہ کتاب ملالہ کی ایک بُہت بڑی غلطی ثابت ہوئی ہے ۔۔امریکہ اور ملالہ دونوں اونچی اُڑان بھر رہے تھے  "پرزم"۔۔۔"آئی ایم ملالہ"  نے ان کے پر کاٹ دیے ہیں۔۔ وزیر اعظم بننا تو دور کی بات ہے، اب  ملالہ کو پاکستانی معاشرہ کسی صورت  میں بھی  قبول نہیں کرسکتا ہے،۔۔۔ جس طرح پرزم نے امریکی دوستوں کو ناراض کیا، اسی طرح آئی ایم ملالہ  نے ملالہ کے دوستوں کو ناراض کیا ہے۔۔اب مجھے اجازت دیں ۔۔۔آپکا بُہت شُکریہ ۔۔۔۔
نوٹ : رائے سے اختلاف/ اتفاق کرنا ہر ایک کا حق ہے۔
 { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }