منجانب فکرستان
زمین پر چلتی بس ہوکہ فضاء میں تیرتا جہاز یہاں تک کہ اُوپر جاتی لفٹ ہوکہ نیچے آتی ،یہ حملہ ہوجاتا
ہے، دُنیا میں اب کوئی جگہ ایسی خالی بچی نہیں رہی کہ: جہاں پر اس طرح کے حملوں نہ ہوتے ہوں
،سوال یہ ہے کہ : آجکل کے مردوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ وہ نہ چلتی بس دیکھتا ہے، نہ اُڑتا جہاز، نہ
معاشرے کی طرف دیکھتا ہے نہ قانون کی طرف اور نہ ہی اپنی 61 سالہ ڈھلتی عُمر کی طرف دیکھتا
ہے۔۔ آخر اِس اندھے پن کی کیا وجہ ہے ؟؟ کیوں ان حملوں میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ؟؟
ہے، دُنیا میں اب کوئی جگہ ایسی خالی بچی نہیں رہی کہ: جہاں پر اس طرح کے حملوں نہ ہوتے ہوں
،سوال یہ ہے کہ : آجکل کے مردوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ وہ نہ چلتی بس دیکھتا ہے، نہ اُڑتا جہاز، نہ
معاشرے کی طرف دیکھتا ہے نہ قانون کی طرف اور نہ ہی اپنی 61 سالہ ڈھلتی عُمر کی طرف دیکھتا
ہے۔۔ آخر اِس اندھے پن کی کیا وجہ ہے ؟؟ کیوں ان حملوں میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ؟؟
اِن سوالوں کے جوابات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ میرے نزدیک اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں، ایک میڈیا اور دوسری وجہ خود عورت ہے۔۔۔۔ ہر قسم کا میڈیا رات دن جنسی ترغیبات دیتا رہتا ہے، یوں انسان اصول ہپناٹیزم کے زیر اثر آجاتا ہے ۔۔۔۔۔سونے پہ سہاگہ عورتیں ایسا لباس پہنتی ہیں کہ جس سے جسمانی خدوخال نظر آتے ہیں ، سولہ سنگار کرتی ہیں گویا پورا سامان تیار ہے مرد کے جنسی جذبات کو بھڑکانے کا ۔میڈیا کی ترغیباتِ جنسی اور عورت کا حشرسامانیانِ جنسی تیج پال (تہلکہ ڈاٹ کام کے بانی مدیر ) جیسا شریف بااخلاق،اصول پرست انسان بھی بیٹی کی ہم عُمر ساتھی صحافی پر جنسی حملہ کر بیٹھا ۔۔۔۔
میڈیا کی ترغیباتِ جنسی جہاں نوجوان کو جنسی شوقِ تجسس میں مبتلا کرتی ہیں، وہیں بڑوں کو بھی ورغلاتی ہیں ۔۔۔میڈیا پوری دُنیا کو جنسیات کی آگ میں جھونک رہا ہے، انگریزی فلمیں تو رہیں ایک طرف، بھارت کی ہندی (اردو) فلموں کی پہچان بھی ہاٹ سین ، ہاٹ ڈانس ہیں اور تو اور مذہبی سائٹس پر بھی یہ آگ نظر آتی ہے، اور کلک کرو کہتی ہے، تب یوں لگتا ہے جیسے یہ آگ منہ چُڑاکر کہہ رہی ہو کہ: بچ کے کہاں جاؤ گے بچو: جہاں بھی جاؤگے ، وہیں مجھے پاؤ گے ۔۔۔ غرض کہمیڈیا کی ترغیباتِ جنسی اور عورت کی حشرسامانیانِ جنسی (لباس میک اپ) مل کر جنسی حملوں کے گراف کو بڑھاوا دے رہے ہیں ۔۔۔ اب اجازت دیں ۔۔۔پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔۔۔
نوٹ: بلاگ ذاتی دلچسپیوں، خیالات و احساسات کی شیئرنگ ہے، اِن سے اختلاف/ اتفاق کرنا ہر پڑھنے والے کا حق ہے
{ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }