منجانب فکرستان:: عقل: دلائل: لینن
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
انسانی عقل میں رب نے ایسی فطرت رکھی ہوئی ہے کہ بغیر دلیل (جواز) وہ کسی بات کو قبول نہیں کرتی ہے، عقلی فطرت کی اِس طلب کو عقل ہی پورا کرتی رہتی ہے۔ لیکن کائنات میں بُہت سی باتیں ایسی ہیں جس کا احاطہ عقل نہیں کرسکتی ہے۔۔ لیکن عقلی فطرت اُن کیلئے بھی دلیل مانگتی ہے ۔۔۔
چاہے وہ کائنات کی تخلیق ہو کہ انسان کی پیدائش یا موت یا پھر زندگی میں معنی تلاش کرنا اِن جیسی دیگر کئی باتوں کو مذاہب قابلِ فہم دلائل فراہم کرتے ہیں ۔۔انسانوں کی ایک بڑی تعداد کی عقلی فطرت مذاہب کے فراہم کردہ اِن دلائل کو قبول کرتی ہے ۔۔اور اِن پر پکا یقین رکھتی ہے، پکے یقین سے ہی انہیں اطمینانِ ِقلب حاصل ہوتا ہے۔۔ اوراطمینان قلب اِس لیے حاصل ہوتا ہے کہ دلائل کی طالب عقلی فطرت کو دلائل مل جاتے ہیں ۔ یوں بے معنی زندگی کو معنی مل جاتے ہیں۔۔
چاہے وہ کائنات کی تخلیق ہو کہ انسان کی پیدائش یا موت یا پھر زندگی میں معنی تلاش کرنا اِن جیسی دیگر کئی باتوں کو مذاہب قابلِ فہم دلائل فراہم کرتے ہیں ۔۔انسانوں کی ایک بڑی تعداد کی عقلی فطرت مذاہب کے فراہم کردہ اِن دلائل کو قبول کرتی ہے ۔۔اور اِن پر پکا یقین رکھتی ہے، پکے یقین سے ہی انہیں اطمینانِ ِقلب حاصل ہوتا ہے۔۔ اوراطمینان قلب اِس لیے حاصل ہوتا ہے کہ دلائل کی طالب عقلی فطرت کو دلائل مل جاتے ہیں ۔ یوں بے معنی زندگی کو معنی مل جاتے ہیں۔۔
اور جن لوگوں کی عقلی فطرت مذاہب کے فراہم کردہ دلائل سے مطمئن نہیں ہوتی ہے، اُنہیں زندگی کے معنی بھی نہیں ملتے ہیں۔ اُنکی عقلی فطرت بھٹکتی رہتی ہے۔۔ علامہ اقبال نے تذبزب کی اِس کیفیت کو ( لینن کے حوالے سے ) ِاس شعر میں ڈھالا ہے۔۔
میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے
ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات
نوٹ:: رائے سے اختلاف / اتفاق کرنا ہر ایک کا حق ہے۔۔ اب مجھے اجازت دیں ۔۔آپکا بُہت شُکریہ۔۔
ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات
نوٹ:: رائے سے اختلاف / اتفاق کرنا ہر ایک کا حق ہے۔۔ اب مجھے اجازت دیں ۔۔آپکا بُہت شُکریہ۔۔
{ ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }