Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Wednesday, July 24, 2013

" یہ آنسو میرے دل کی زبان ہے "

 منجانب فکرستان:بابر اعوان کے آنسو: کالم: زعمِ تقویٰ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ناچنے،گانے، بجانے والوں کو مذہبی لوگ اچّھی نظر سے نہیں دیکھتے۔۔عارف لوہار پی ٹی وی پروگرام میں مہمان تھے ، میزبان خورشید ندیم نے وقفہ ہونے پر غیر رسمی گفتگو میں عارف سے ادائیگی عمرے کی کیفیت پوچھی  تو عارف لوہار کے آنکھوں سے بے اختیار آنسوجاری ہوگئے الفاظ اِتنے رُوند گئے کہ ادائیگی مشکل ہوگئی۔ اِن آنسوؤں   سے پیدا ہونے والے احساسات کو میزبان نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ:
 میں مذہبی لوگوں میں پلا بڑھا ہوں، مجھ سمیت کتنے اہل مذ ہب ہیں جنہیں یہ کیفیت نصیب ہوتی ہے ؟؟
ہم جو خود کو مذہبی کہتے ہیں اور دوسرے کے کفروایمان کا فیصلہ کرتے ہیں ،بعض طبقات کے بارے میں بزعمِ خویش یہ طے کر رکھا ہے کہ دین اور آخرت سے انکا کوئی واسطہ نہیں، آخرت تو ہمارے لیے ہے جو دین کے علمبردار بن کر جیتے ہیں۔دین کا بھرم تو ہم سے ہے ۔ہم نہ رہے تو اِس زمین میں  کون ہے جو اُسکا نام لیوا ہوگا ۔ لیکن عارف لوہار کے آنسو تو ایک دوسری کہانی سُنا رہے تھے ۔۔۔انسانوں کے ظاہر کیا معلوم کہ اُن کے باطن  سے کتنے مختلف ہیں ۔۔
عارف لوہار کے آنسوؤں کا پیغام یہی ہے، جو چار دن سے میرے دل پر ٹپک رہے ہیں ۔۔۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 عمرے کے ایک سفر میں خورشید ندیم کے ساتھ بابر اعوان بھی اُنکے ہمسفر تھے وہ اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ:
 حجرہ عائشہ  کے سامنے کھڑے ہوکر بابراعوان نے دُعا کیلئے ہاتھ اُٹھائے تو آنسو الفاظ پر سبقت لے گئے ،اور بلک بلک کے رونے لگے ۔۔۔مزید لکھتے ہیں کہ:
ہم اپنی دانست میں افراد کے بارے میں ایک فیصلہ صادر کرتے ہیں، یہ خیال کرتے ہوئے کہ ہم اپنی نیکی اور تقویٰ کے باعث عدالت کی کرسی پر برجمان ہیں،جہاں سے دوسروں کے ایمان اور اُخروی انجام کا فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ رویہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم اپنی ذات سے بے خبر زعمِ تقویٰ کے مرض کا شکار ہوجاتے ہیں ۔۔۔ہمیں کیا معلوم جسے ہم بہ زعمِ خویش راندہء درگاہ سمجھ بیٹھے ہوں وہ اپنے آنسوؤں کی بدولت پار ہوجائے اور ہمارا زعم ہمیں لے ڈوبے ۔۔۔
درج ذیل لنک کالم میں عارف لوہار کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔۔۔
درج ذیل لنک کالم میں ذوالفقار علی بھٹو اور بابراعوان کا تذکرہ  پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے

 نوٹ:: رائے سے اختلاف /  اتفاق  کرنا  ہر ایک  کا حق ہے۔۔ اب مجھے اجازت دیں ۔۔آپکا بُہت شُکریہ۔۔   
 { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }