منجانب فکرستان
دوستو ایک وضاحت، جمال صاحب کا یہ مشاہدہ کہ سُناروں کی دُکانوں کے پٹ کُھلے جبکہ دیگر اشیائے فروخت کی دُکانوں کے پٹ بند رہتے ہیں،عام شاپنگ سینٹروں کے بارے میں تھا جبکہ حرم کے قریب واقع ہر قسم کی تمام دُکانوں کے پٹ کُھلے رہتے ہیں کہ ہر نماز کے بعداِن دُکانوں میں خریداروں کا رش پڑتا ہے۔
سب سے زیادہ انڈونیشیا سے ایک لاکھ 68 ہزار،فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے پہنچے، لیکن وہ کہیں نظر نہیں آرہے تھے، نہ منیٰ میں، نہ جمرات میں اور نہ ہی طواف کے دوران ،جمال صاحب اور اُن کے ساتھیوں کیلئے یہ ایک حیران کُن بات تھی،لیکن مکّہ سے مدینہ پہنچے تو اُنہیں ایسا محسوس ہُوا کہ جیسے وہ مدینے میں نہیں جکارتا میں گھوم رہے ہیں ہر طرف انڈونیشئین گھوم پھر رہے تھے، یوں اُنکی حیرانگی جاتی رہی اور جمال صاحب کے سمجھ میں یہ بات آئی کہ اُن کے اور انڈونیشئین کے درمیان وقت اور رہائشی علاقے کا فرق آڑے آیا ہوگا کہ اُنہیں انڈونیشئین نظر نہیں آرہے تھے۔۔۔ اب اجازت دیں، پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔۔۔۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
پوسٹ میں کہی گئی باتوں سےاختلاف/اتفاق کرناآپکا حق ہے۔
{ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }