منجانب فکرستان
مرزا اسداللہ خاں غالب نے انسانی ذہن کی کیا خوب عکاسی کی ہے کہ:"آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں" کیا اس
بات سے کوئی انکار کرسکتا ہے ؟ہر شخص اِس تجربے سے گُزرتا ہے ۔بعض شُعرا اور نثر نگار قلم کاغذ اپنی جیب میں رکھتے
ہیں کہ خُدا جانے کب غیب سے کوئی خیال وارد ہوجائے تاکہ بھولنے سے پہلے اُس خیال کو لکھ لیں، یوں مختلف ذہنوں
سے نکلے مختلف خیالات ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں،جن سے ہم محظوظ ہوتے ہیں،سائنسدانوں کا بھی یہی کہنا ہے،
پال ڈیویز نے اپنی کتاب"ذہنِ خُدا وندی" میںایک سائنسداں کا ذکر کیا ہے کہ جسکو کئی دنوں سے کسی سائنسی مسئلے کا حل نہیں مل رہا تھا کہ: ایک دن کار چلاتے میں اچانک اُس کے ذہن میں مسئلے کا حل غیب سے خیال میں آیا ۔۔۔
سے نکلے مختلف خیالات ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں،جن سے ہم محظوظ ہوتے ہیں،سائنسدانوں کا بھی یہی کہنا ہے،
پال ڈیویز نے اپنی کتاب"ذہنِ خُدا وندی" میںایک سائنسداں کا ذکر کیا ہے کہ جسکو کئی دنوں سے کسی سائنسی مسئلے کا حل نہیں مل رہا تھا کہ: ایک دن کار چلاتے میں اچانک اُس کے ذہن میں مسئلے کا حل غیب سے خیال میں آیا ۔۔۔
عزیز دوستو شایدآپ سوچ رہے ہوں کہ یہ ساری تمہید ہے کس بات کی ؟ تو عرض ہے کہ : ارادہ یہ ہے کہ اپنے خیالاتی پوسٹ کے ساتھ ساتھ دیگر مختلف شخصیات مثلاً کسی فلسفی، شاعر، نثرنگار، دانشور، سیاستداں، مذہبی رہنما یا پھر کسی عام آدمی کے ذہن سے نکلے جملے، پیرائیے جنہیں کسی اخبار، کسی کتاب یا پھر کسی ویب سائٹ پر پڑھا ہو سے انتخاب دوستوں سے شئیر کروں۔۔ مقصد وہی ہے یعنی "غوروفکر"میرے خیال میں غور و فکر سے زیادہ لذت کسی اور چیز میں نہیں ہے۔۔
٭٭٭٭٭
آپ نے جو کچھ پڑھا ہے، وہ ذاتی رائے ہے، جس سے اختلاف/اتفاق کرنا آپ کا حق بنتا ہے۔اب اجازت دیں۔
" پڑھنے کا بُہت شُکریہ"
{ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }