Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Wednesday, December 11, 2013

" ذہن کی اثر پزیری صفت اور فرقے "

منجانب فکرستان: نیچری:قادیانی
 فسادی سیب کی کہانی سے بلاگر ساتھی کاشف بھائی کے دماغ میں چند سوالات آئے۔اسی طرح سے سعد بھائی کے
 بلاگ پر دو تبصرے پڑھکر میرے دماغ میں بھی سوالات پیدا ہوئے، اِن میں  سے ایک تبصرہ تو بلاگر ساتھی سلیم
 احمد بھائی کا ہے جبکہ دوسرا تبصرہ اکرام اللہ بھائی کا ہے ۔۔۔اس پوسٹ کا بنیادی مقصد انسانی ذہن کی اثر پزیری
 صفت ہے چونکہ ذہن کی اس صفت نے دُنیا میں بُہت فساد  پرپا کیا ہُوا ہے۔۔ پوسٹ کی تیاری میں عبدالماجد 
دریابادی کی آپ بیتی سے بھی مدد لی گئی ہے ۔۔۔
اکرام اللہ بھائی نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ ناول "جب زندگی شروع ہوگی" سے ذہن اتنا مُتاثر ہُوا کہ آنکھوں میں آنسوں آگئے ،جبکہ سلیم بھائی ناول سے اِسقدر متاثر ہوئے کہ نہ صرف ناول کو گھوٹ کر پی گئے، بلکہ اُنکے ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ اس اچّھے ناول کی دس بیس کاپیاں خرید کر عزیز و اقارب کو پڑھنے کیلئے دیں گے( بھلا ہو سعد بھائی کا کہ اُنکے پیسے بچ گئے) ۔۔
اکرام بھائی میرے لیے اجنبی ہیں۔ لیکن سلیم بھائی کو تو ہم پڑھتے رہتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ذہین انسان ہیں ۔۔لیکن جب سعد بھائی  نے ناول کی *تحلیل نفسی کی اور اُس میں سے "ایک ادبی واردات " نامی پوسٹ نکالی تو وہی ناول کہ جس کا اثر آنکھوں سے آنسو نکالتا تھا ،  اور جسے گھوٹ کے پی لیا گیا  تھا، اب "ایک ادبی واردات "نامی پوسٹ  نے سب کچھ اُلٹ دیا  ۔۔جو ذہن "جب زندگی شروع ہوگی" پڑھ کر  جس درجہ متاثر دکھائی دے رہا تھا اب وہی ذہن سعد کی پوسٹ  "ایک ادبی واردات " سے  بھی  اُتناہی متاثر دکھائی دے رہا ہے۔۔۔ لیکن اب سمت اُلٹ گئی ہے۔۔۔ پہلے جو ناول جتنا اچّھا تھا اب اُتنا ہی  بُرا ہے یہ ہے انسانی ذہن اور انسانی ذہن کی اثر پزیری کی صفت۔۔  
بالکل اسی طرح سے عبدالماجد دریا بادی کی آپ بیتی میں بھی ذہن کی اِس حیرت انگیز اثر پزیری صفت کو دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔اُنہوں نے ایک مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی اور تربیت پائی نتیجہ میں نیچریوں اورمسیحوں کے خلاف مضامین لکھے ،پھر ایک کتاب "الییمنٹس آف سوشل سائنس " پڑھی اِس عقلیاتی کتاب کا ذہن پر  ایسا اثر پڑا کہ گُھٹی میں پڑی تعلیم اور برسوں کا مذہبی ماحول " ہَوا" ثابت  ہُوا اور ملحد بن گئے۔ ۔۔
10 سال تک ذہن پر ملحدی خُمار چڑھا رہا ۔۔پھر دوست کے رغبت دلانے پر صوفی ازم کو پڑھا تو ملحدی خمار کی  جگہ ذہن کی اثر پزیری صفت نے ماجد صاحب کو صوفی بنادیا، پھر ایک قادیانی دوست کے گھر قُرآن کی تفسیر انگریزی میں پڑھی تو متاثر ہوکر پھر اسلام میں داخل ہوگئے ۔۔۔اکرام صاحب، سلیم صاحب اور ماجد صاحب سب تعلیم یافتہ صحت مند ذہن کے مالک ہیں ۔۔۔لیکن ذہن کی اثر پزیری صفت کے شکار ہوئے ۔۔۔
غرض کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی ذہن میں اثر  پزیری کی صفت حد درجہ پائی جاتی ہے، یہی سبب ہے کہ آج ہر مذہب میں بیشمار فرقے  نظر آتے ہیں اور روز بہ روز انسانی ذہن کی اِسی اثر پزیری صفت کے تحت نئے نئے فرقے بھی وجود میں  آتے جارہے ہیں ۔۔۔۔ اب مجھے اجازت دیں۔۔ آپکا  بُہت شُکریہ ۔۔۔
* ناول کے متن کا تجزیہ ۔
نوٹ: درج بالا خیالات سے اختلاف/ اتفاق کرنا: ہر پڑھنے والے کا حق ہے
  { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }