منجانب فکرستان:لو لیٹر: معاوضہ: ڈاکومینٹری
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ڈرامہ سیریز "ساس بھی کبھی بہو تھی " سے شہرت پانے والی فنکارہ سمرتی ایرانی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ :
بیوی شوہر کی آدھی ماں ہوتی ہے۔ ۔ یہ جملہ یوں یاد آیا کہ :مشہور مصنف سارتر کی لائف پارٹنر مصنفہ سیمون ڈی بیووئیر (دونوں نے اکھٹے زندگی گُذاری لیکن شادی کا ٹھپہ نہیں لگوایا) نے اپنے لو لیٹر میں لکھا کہ:
میرے پیارے محبوب : میں تمہاری اچّھی طرح دیکھ بھال کروں گی ۔ ۔
میرے پیارے محبوب : میں تمہاری اچّھی طرح دیکھ بھال کروں گی ۔ ۔
سیمون ڈی کے اس جملے میں مامتا کی جھلک صاف نظر آرہی ہے ۔۔ اب سمرتی ایرانی کے جملے کا موازنہ کریں کہ : بیوی شوہر کی آدھی ماں ہوتی ہے ۔۔
عورتوں میں مامتا کا جذبہ ہوتا ہےاس سے انکار نہیں ۔۔ لیکن کیا مردوں میں بھی سدا بچّہ رہنے اور مامتا کی طلب رہتی ہے ؟؟؟ اس سلسلے میں جاپان کی ایک ڈاکومینٹری فلم دیکھی تھی کہ جس میں دکھایا گیا تھا کہ وہاں ایسے ادارے قائم ہیں کہ جہاں معاوضہ کے عیوض مردوں سے عورتیں مامتا بھرا سلوک (اداکاری) کرتی ہیں جس سے وہ بُہت سکون حاصل کرتے ہیں ۔۔یہاں تک دکھایا گیا ہے کہ بعض مرد حضرات بچّوں والی چوسنی چوسنا تک پسند کرتے ہیں ۔۔
سچ ہے کہ :ہر فرد اپنے آپ میں ایک منفرد جہاں لئے پھر رہا ہے چاہے وہ۔۔۔زمرد ہو یا کہ سکندر۔۔۔
اب مجھے اجازت دیں،آپکا بُہت شُکریہ۔لولیٹر کا لنک۔http://magazine.jang.com.pk/detail_article.asp?id=20587
نوٹ : رائے سے اختلاف/ اتفاق کرنا ہر ایک کا حق ہے
{ ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }