منجانب فکرستان:: مولانا فضل الرحمان:منشور: نئی اصطلاح
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مصری عوام کے ٹکروں پر پلنے والی مصری فوج کے جنرل جناب عبدالفتح اپنی نہتی عوام کو تشدد کے زریعے فتح کرنا چاہتے ہیں۔ اور چور مچائے شور کے مصداق جنرل صاحب پوری دُنیا کی آنکھوں میں ناقابلِ قبول دُھول جھونکنے کی کوشش میں یہ شرم ناک لطیفہ سُنا رہے ہیں کہ فوج مزید تشدد برداشت نہیں کرے گی،(گویا اب تک فوج تشدد برداشت کرتی رہی ہے) ۔ ۔ جنرل صاحب کے اِس بے شرمانہ لطیفے پر داد نہ دینا بد ذوقی کہلائے گی ۔ ۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں منشور میں جو باتیں لکھتی ہیں وہ عوام کو دھوکہ دینے کیلئے لکھتی ہیں ، اسکی واضع مثال مسلم لیگ ن کا بلدیاتی الیکشن غیر جماعتی بنیاد کرانے کا اعلان ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے منشور میں بلدیاتی الیکشن جماعتی بنیاد پر کرانے کا لکھا ہے ۔۔یہ ہے مسلم لیگ ن کے قول و فعل کا کھلا تضاد،گویا کہی ہوئی باتوں کو تو چھوڑیں ، یہ تو لکھی ہوئی باتوں پر بھی عمل پیرا نہیں ہیں، تو پھر عوام اِن سے آئندہ کے بارے میں کیا توقع رکھیں ؟؟؟
مولانا فضل الرحمان نے لیڈر ہونے کیلئے لازمی شرط کی ایک بالکل ہی نئی اصطلاح وضع کی ہے، وہ یہ ہے کہ لیڈر کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک اچّھا شوہر ہو، لیکن اُنہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ایک کنوارہ لیڈر بیچارہ اپنے آپ کو ایک اچّھا شوہر کیسے ثابت کرے گا ؟؟؟
"آپ کا بُہت شُکریہ"
نوٹ : رائے سے اختلاف/ اتفاق کرنا ہر ایک کا حق ہے
{ ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }