منجانب فکرستان
غوروفکر کیلئے
گولڈن ٹیمپل کو امن کی علامت کہنے والے ہی فساد کررہے ہیں: تمام مذاہب اخوت، بھائی چارہ اور امن
کا درس دیتے ہیں،لیکن اِن مذاہب کے پیرو کار تعلیمات کے برعکس عمل کرتے ہیں،مثلاً: اگر ہم سکھو ں
کی گرنتھ صاحب،صوفیائے کرام،گولڈن ٹیمپل کی تعمیر دیکھیں:اور پھرتقسیمِ ہند پر لکھی سکھ مسلم خونی
تاریخ کو دیکھیں تو مذہبی تعلیماتِ کے برعکس شیطانی عمل ہُوا۔
تاریخ کو دیکھیں تو مذہبی تعلیماتِ کے برعکس شیطانی عمل ہُوا۔
گولڈن ٹیمپل کی بنیاد مسلمان صوفی بزرگ حضرت میاں میر جی نے سولہویں صدی میں گرو ارجن
صاحب کی خواہش پر اپنے ہاتھوں سے رکھی۔ یہاں روزانہ ہزاروں سکھ عبادت کیلئے آتے ہیں،وہیں
دنیا بھر سے سیاح اس گوردوارے کا خوبصورت طرز تعمیر دیکھنے آتے ہیں۔۔گولڈن ٹیمپل کو مذہبی
رواداری،محبت، بھائی چارے اور امن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
رواداری،محبت، بھائی چارے اور امن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
پانچویں سکھ گرو ارجن دیوجی (1616- 1581) نے گرُو گرنتھ صاحب کی ترتیب و تدوین سن سولہ
سو تین میں شروع کی تھی۔ اس وقت پنجاب کے دانشور حلقوں میں کتاب گرنتھ صاحب کی تیاری کا
کافی چرچا ہوا۔سکھوں کی اِس مقدس کتاب گرنتھ صاحب کی تیاری میںگرو ارجن دیو جی کے علاوہ
پہلے چار سکھ گروؤں اور مسلمان اور ہندو صوفیاء اور بھگتوں کے کلام پر مشتمل سن سولہ سو چار میں
مکمل ہوئی۔ (مزید تفصیل کیلئے لنک پر جائیں)۔
http://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%AF%D8%B1%D9%86%D8%AA%DA%BE_%D8%B5%D8%A7%D8%AD%D8%A8
پوسٹ میں کہی گئی باتوں سےاختلاف/اتفاق کرناآپکا حق ہے۔اب مجھےاجازت دیں،پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔
{ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }