Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Thursday, February 28, 2013

عورت کی سائکی یا زمانے کی جبلت ؟

منجانب فکرستان ٹیگز: خواتین 25 فروری : اسپیکر: جتن : وقت : مرد : کافر : تبدیلی : وڈیو
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حضرت علامہ اقبال نے خواتین کے بارے میں کہا ہے  کہ وجودِ زن سے ہے تصویرِ  کائنات میں رنگ تو ایسا کچھ غلط بھی نہیں کہا ہے۔۔ علامہ کی بات پر مجھ جیسے لوگوں کو تو ذرا بھی شک نہیں ہے۔۔اگر سپائی نوزا قبیل کی قسم کے کسی شخص کو شک ہے تو اِس مضمون کے پڑھنے پر اُسکا شک بھی دور ہوجائے گا۔۔۔
ایک جانب  ویلنٹائن ڈے والے دن دُنیا بھر کی خواتین نے رنگ برنگ سج دھج  کے ساتھ ویلنٹائن ڈے کی خوشیاں منارہی ہیں تھیں تو دوسری جانب اُسی طرح رنگ برنگ سج دھج کے ساتھ مَردوں کے روئیوں کے خلاف احتجاج کا رقص بھی کررہی تھیں۔۔ یعنی خواتین نے احتجاج بھی خوب بن سنور کر اور رقص کرکے کیا اگر خواتین کا احتجاج بھی اتنا رنگین اور رقص  سے بھرا ہو تو پھر کون کافر ہوگا جو علامہ کی کہی بات سے انکار کرے گا؟
احتجاج کی یہ تبدیلی 25 فروری کی اِس وڈیو میں بھی دیکھی جا سکتی ہے کہ لبنانی خواتین نے گھریلو تشدد کے خلاف بطور احتجاج پارلیمنٹ اسپیکر کی رہائش گاہ کے باہر احتجاجی رقص کیا۔ یوں خواتین نے احتجاج کے اُس روایتی اندازکو کہ جس میں بینر اُٹھائے گلا پھاڑ کر نعرے لگاتے جانے کی روایات کو خوبصورت رقص میں بدل دیا اب ذہن میں سوال آتا ہے کہ: کیا احتجاج کی یہ خوبصورت تبدیلی خواتین کی اُس سائیکی کا نتیجہ ہے  کہ جس کے تحت  وہ اپنے آپ کو نمایاں کرنے کا جتن کرتی ہیں یا پھر یہ وقت کی اُس جبلت کا کار نامہ ہے کہ  جو ہر چیز کو تبدیل کردیتا ہے ۔۔۔
اگر آپ کا دل چاہے تو 2 منٹ کا لبنانی خواتین کا احتجاجی رقص دیکھنے کیلئے لنک پر چلے جائیں ۔۔۔اور مجھے اجازت دیں ۔۔۔آپکا بُہت شُکریہ ۔۔۔
http://www.alarabiya.net/articles/2013/02/25/268229.html