Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Friday, August 24, 2012

٭ صوفی ازم ٭

منجانب فکرستان: بابا بلھےشاہ/صوفی ازم/ چند اشعار
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
صوفی ازم "وحدت الوجود" مذہب نہیں ہے،لیکن یہ بھی خُدا کو سمجھنے کی ایک سوچ  کا حوالہ ہے جو یونانی یا اس سے بھی قدیم دور سے چلا آرہا ہے البتہ مختلف مذاہب کےمفکروں نے اس سوچ کو اپنے مذہب میں جگہ دینے کی کوشش میں اپنے مذہب،اور صوفی ازم دونوں کو نقصان پہنچایا۔یعنی مذاہب میں مزید فرقے بنے تو صوفی ازم میں بھی مذاہب کی طرح کی فرقہ پرستانہ تقسیم کرنے والی موشگافیاں در آئیں ور نہ صوفی ازم کا تقسیم سے کیا تعلق صوفی ازم تو جوڑنے کے عمل کانام ہے فرقے اور تقسیم تو "انا" پرستانہ عمل کا نام ہے "صوفی" صفر انا والے کو کہتے ہیں۔۔کسی صوفی نے یہ نہیں کہا کہ میں منتیں پوری کراسکتا ہوں ۔انکا تو سیدھا سادہ ایک ہی پیغام ہے "جوڑنا" انسانوں کو انسانوں اور انسانوں کو خُدا سے جوڑنا ۔۔لیکن جیسے ہی کوئی صفر انا والا صوفی دُنیا سے اُٹھ جاتا ہے تو پھر برصغیر کے کلچر کے مطابق سب کچھ ہونے لگتا ہے، اور صوفی کا پیغام صرف کتابوں میں رہ جاتا ہے۔ البتہ پیغام کا الٹ شروع ہوجاتا ہے یعنی لوگ خُدا سے جُڑنے کے بجائے با با سے جُڑجاتے ہیں ۔۔ منتیں  مانگنے لگتے ہیں ،چادریں چڑھانے لگتے ہیں خُدا سے جُڑنے کا انکا پیغام کسی یاد نہیں رہتا ۔۔۔
مگر یہ تو سب کے ساتھ ہوتا ہے سب کے پیغام کا الٹ ہوتا ہے بدھا کا پیغام ہے کہ کسی جاندار کو مارنا تو دور کی بات کسی جاندارکو تکلیف تک نہیں پہنچا نا ۔۔اس پیغام  کا الٹ برما اور آسام میں دیکھ لیا ۔اور بدھا نے کہا تھا کبھی کوئی بت نہ بنانا میرا بھی بت نہ بنانا جیسے ہی بدھا کی آنکھیں بند ہوئی پیغام کا الٹ شروع ہوگیا  انکے مذہبی علما نے  ایسے ایسے بڑے بت بنائے گئے کہ دُنیا دیکھ کر دنگ رہ گئی ۔۔۔ دوسرا گال پیش کرنا کے پیغام کا حشر بھی دنیا دیکھا اور دیکھ رہی ہے ۔ قُرآن کا صاف لفظوں میں پیغام ہے فرقے نہ بنا نا ہم پیغام کا الٹ نہ صرف فرقے   بنا رہے ہیں بلکہ آپس میں ایک دوسرے کا خون بھی بہا رہے ہیں۔۔۔کہاں تک سنوگے کہاں تک سناؤں ۔۔۔۔    
با با بلھے شاہ بھی صوفی ازم" وحدت الوجود "سوچ کے حامل تھے۔۔شاید وہ بھی صفر درجہ انا کے حامل صوفی تھے کیونکہ درج ذیل ان کے اشعار سے کچھ ایسا ہی تاثر ملتا ہے کہ جیسے انکی انا فنا ہوگئی ہو، جہاں انا فنا ہوجاتی یعنی صفر ہوجاتی ہے تو پھر بندے کی شناخت  بھی ختم ہوجا تی ہے، اور وہ کہہ اٹھتا ہے، میری کوئی شناخت نہیں 

بلّھا کیہ جانا میں کون۔۔۔۔نہ میں مومن وچ مسیت آں 
نہ میں وچ کفر دیریت آں۔۔۔نہ میں پاکاں وچ پلیت آں 
نہ میں موسیٰ،نہ فرعون۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلّھا کیہ جانا میں کون
نہ میں عربی،نہ لاہوری ۔۔۔۔۔۔۔۔نہ میں ہندی شہرنگوری
نہ ھندو نہ تُرک پشوری۔۔۔۔۔۔۔نہ میں رھنداوچ نَدون
بلّھا کیہ جانا میں کون
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
درج ذیل عشقیہ کلام میں "انا" مکمل ضم ہوگئی ہے۔

با با بلھے شاہ کا 355 واں عرس آج 24 اگست  سے شروع ہوگیا ہے ۔ہزاروں من گلاب کے عرق سے دربار کو غسل دیا گیا جو سراسر ان کے سادگی کے پیغام کی نفی کرتا ہے۔
درج بالا خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔اب اجازت دیں ۔۔آپکا بہت شکریہ (ایم۔ڈی)