عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے وجود کا ذرہ ذرہ میرا نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ
منجانب فکرستان: غوروفکر کے لئے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عمر بڑھنے کے ساتھ، محلے کے ہم عمر لڑکوں سے دوستیاں بھی بڑیں،اِن دوستوں
میں زیادہ تر اسکول نہیں جاتے تھے ،دن بھر مختلف قسم کے کھیل کھیلتے، فٹ
بال، کرکٹ، باسنگ، گلی ڈنڈا، کنچے گولیاں،تاش، پتنگ بازی وغیرہ ،جس گراؤنڈ
میں ہم یہ سارے کھیل کھیلتے تھے اُس گراؤنڈ میں پیپل کے دو گھنے پیڑ تھے ،
اِن پیڑوں کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ ان پر جنوں کا بسیرا ہے۔
(یہ لکھتے ہوئے حال ہی میں پڑھا ہوا اداکارہ ثمینہ پیرزادہ کا یہ بیان یاد آیا
کہ فلم شو ٹنگ سے پہلے اُنہیں جنات نے دھکا دے کر مجھے زخمی کردیا تھا،
مُجھے بھی لالٹین کی لو میں بونا نظر آتا تھا )۔ اس سلسلے میں قرآنی آیات
موجود ہیں۔اب میں گھر سے اسکول جانے نکلتا، بستہ دوست کے گھر میں
رکھتا اور دوستوں کے ساتھ کھیلوں میں مشغول ہوجاتا ،اسکول میں لکھنے
پڑھنےاوراُستاد کے بات ماننے کی پابندی سے مجھے اُلجھن ہونے لکھتی تھی،
شاید اِسکی وجہ ہو کہ میں اپنی ماں کا اکلوتا لاڈلہ بیٹا تھا،تاہم اسکول کے
ایک اُستاد کو میری پڑھا ئی سے دلچسپی تھی ، میں کلاس میں ذہین تھا،
میں اسکول نہیں جاتا تو یہ اُستاد دو چپراسیوں کو گھر پر بھیج تا،چپراسیوں
کو معلوم ہوتا کہ میں گھر سے اسکول جانے کے لئے نکلا ہوں تو وہ مجھے
گلیوں میں ڈھونڈتے،جس گلی میں میرا سراغ ملتا یہ دونوں چپراسی گلی
کے دونوں سرے پر کھڑے ہوجاتے اور مجھے ہاتھ پائوں سے پکڑ کر
اسکول لے جاتے ، گلی والے میرا یہ نظارہ دیکھ کر محظوظ ہوتے تھے
اسکول پہنچنے پر،وہ اُستاد جسکو میری تعلیم سے دلچسپی تھی وہ مجھے پیار سے
سمجھا تے (غالباً یہ اُستاد حیدرآبادی تھے) تاہم کب تک چپراسیوں کو مجھے
پکڑنے کیلئے بھیجتے،نتیجہ اسکول سے میرا نام کٹ گیا،میں خوش ہو گیا اور
اماں جان کے خواب بکھر گئے ۔اب اجازت۔
یار سلامت، صحبت باقی/قسط #10کے لئے۔ انشاء اللہ
خالق کائنات ہمیشہ مہربان رہے ۔
No comments:
Post a Comment