Tuesday, October 7, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط #12)۔


 منجانب فکرستان : غوروفکر کے لئے  

دن مہینوں میں اور مہینے سال میں تبدیل ہوتے رہے، اماں جان کے تعلقات

 محلے کے میرے دوست یعقوب کی فیملی اور ہمارے بالکل سامنے رہنے والی

 پٹھان فیملی سے بہت اچھے تھے،یعقوب کے والد صاحب بہت اچھے انسان تھے

 تاہم کتنے اچھے انسان تھے ؟یہ اُن کے عمل سے واضح ہوگا،لی مارکیٹ میں 

  اُنکی درزی کی دُکان تھی ہندوستان کے بٹوارے کے وقت ایک 15،16،

 سالہ لڑکا کام کی تلاش میں اُنکی دکان پر آیا اور بتایا کہ میری فیملی کے تمام

افراد کو ہندوں بلوائیوں نے قتل کردیا،میں واش روم تھا یوں میں بچ گیا،میں

 بمبئی میں درزی کام سیکھ رہا تھا ، مجھے درزی کا تھوڑا بہت کام آتا ہے۔

 یعقوب کے والد کو لڑکے کی کہی باتیں سچ لگیں،رات کو دکان بند کر کے

 لڑکے کو اپنے ہمراہ گھر لے آئے ، بیوی سے سارا ماجرا کہا اور کہا کہ یہ

 اب ہمارے ساتھ اسی گھر میں رہے کا تاہم بیوی نے اعتراض کیا کہ گھر

میں دو جوان لڑکیاں اور ایک واش روم ہے اور یہ کہاں سوئے گا،دنیا کیا کہے

گی،بیوی کے اِن اعتراضات کا حل یعقوب کے والد صاحب نے یہ بتایا کہ

 صحن میں اس کے لئے کمرہ بنوا دوں گا،یہ دور ایسا تھا کہ جب بیویوں کی

بات زیادہ نہیں چلتی تھی یوں قمر کے لئے صحن میں کمرہ بن گیا اور وہ فیملی

 کی طرح گھر میں رہنے لگا ۔۔۔۔ اماں جان کا خالی وقت یعقوب فیملی کے

 ساتھ گزرتا، یعقوب کے والد کو خبروں سے دلچسپی تھی لیکن اخبار پڑھنا

 نہیں آتا تھا،تاہم وہ رات کو جب گھر آتے تو اخبار کے ساتھ آتے ہم ماں

بیٹا بھی کا کھانا کر یعقوب کے گھر( جوکہ دو گھر چھوڑ کر تیسرا گھر تھا ) چلے

 جاتے جہاں اماں جان، یعقوب کے والد کو اخبار پڑھ کر سُناتیں،خبریں سننے

 کے بعد یعقوب کے والد صاحب اِن خبروں پر اپنا تبصرہ اماں جان سے شیئر

 کرتے ،ہمیں اِس فیملی سے بہت محبت ملی ،کبھی اماں بیمار پڑجاتیں تو یعقوب

 کی بہن گھر پر آکر کھانا پکا تیں اور دیگر کام کرجاتیں۔۔۔

 گا ہے بہ گاہے اپنے دوست یعقوب ملنے اُسکے گھر جاتا ہوں، ابھی تقریباً

 ایک ماہ پہلے یعقوب سے ملنے اُسکے گھر گیا تھا،دیکھا کہ بُخار اور کھانسی نے

 تو یعقوب کو ہڈیوں ڈھانچہ بنادیا ہے،مُجھے اِس قدر افسوس ہُوا کہ اِس کا زکر

 میں نے اپنے بیٹے دانش سے بھی کیا۔۔۔ یعقوب میرا دوست تو ہے تاہم یہ

 ہم عمر  دوستی  نہیں ہے،یعقوب مجھ سے 5 چھ سال بڑا ہے ۔میرا خیال

 ہے کہ یہ قسط کچھ لمبی ہو گئی ہے ۔اب اجازت ۔

 یار سلامت، صحبت باقی/قسط #13کے لئے۔ انشاء اللہ

خالق کائنات ہمیشہ مہربان رہے ۔


 





Wednesday, September 3, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط #11)

ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،

خالِق کائنات، مالِک کائنات

عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،

خالِق کائنات، مالِک کائنات

آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں،

یہ عطِائے خُداوندی ہے

 پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،

یہ عطِائے خُدا وندی ہے

غرض  کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،

 یہ عطِائے خُداوندی ہے

 یہ میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگار

انِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ ۔ 

----------------------------------------

٭منجانب فکرستان:غوروفکر کے لئے ٭

 ۔14اگست کو پاکستان نے اپنی آزادی کا 78 واں جشن منایا اِس حوالے سے

 ،اماں جان کی کہی یہ بات مجھے یاد آتی ہے کہ 14اگست 1947 کو ناناجان

ہمارے گھرآئے ہوئے تھے،نانا جان کی عادت تھی کہ خاندان میں ہوئی کوئی

شادی ، موت، پیدائش، اور دنیا میں ہونے والے اہم واقعات کو اپنی ڈائری

میں درج کرتے،نانا جان نے اماں جان سے کہا کہ آج ہمارا نواسا، درویش

سوا سال کا ہوگیا ہے۔۔

نوآباد کی آبادی میں سندھی،میمن،بلوچی اورمکرانی شامل تھے یوں میں سندھی

میمنی ،بلوچی، مکرانی  زبانیں جانتا تھا۔ پاکستان میں بھی گیس دریافت نہیں ہوئی

، اسلئے شہروں میں پکائی کے لئے چولہلوں میں لکڑیاں جلائی جاتیں تاہم پیسوں

اور محنت کی بچت کے لئے خواتین آٹا گوندھ کر تنور پر یہ کہہ کر بھیج دیتیں

کہ اِس آٹے کی  اتنی روٹیاں بنانا، یوں صبح دوپہر اور رات

 کو بچّے گوندھے ہوئے آٹے کے تھال تنور پر لائن کر اپنی اپنی باری کا

 انتظار کرتے، میں اپنا اور پڑوسی کا تھال لے کر جاتا کہ پڑوسیوں کے ہاں کوئی

 بچہ نہیں تھا،اُن دنوں ریڈیو کسی کسی کے پاس ہوتا تھا،تنور والے کے پاس ریڈیو

تھا ،صبح سات بجے ریڈیو' سیلون 'سے انڈین گانے بجتے تھے،ہم بچے صبح سات

 بجے تنور پر لائن لگانے پہنچ جاتے تھے ،جہاں ہم انڈین فلمی گانوں سے لطف

 اندوز ہوتے،یہیں سے مجھے گانے سنے کی ایسی لت پڑی کہ میں اُن ہوٹلوں

 میں جاکے چائے پینے لگا کہ جہاں پر گرامو فون پر فلمی گانوں کے ریکارڈ بجتے

 تھے ،پاکستان میں انڈین فلمیں بہت مقبول تھیں کہ پاکستان اور انڈیا میں ٹی وی

اسٹیشن قائم نہیں ہوئے تھے ۔اب اجازت ۔

یار سلامت، صحبت باقی/قسط #12کے لئے۔ انشاء اللہ

خالق کائنات ہمیشہ مہربان رہے ۔








Sunday, August 10, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط #10)۔

ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،

خالِق کائنات، مالِک کائنات

عقلِ کُل توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،

خالِق کائنات، مالِک کائنات 

آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھتا ہوں میری نہیں،

یہ عطائِے خُداوندی ہے

 پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،

یہ عطِائے خُدا وندی ہے

غرض  کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،

 یہ عطِائے خُداوندی ہے

 یہ میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگار

اِن نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ ۔ 

----------------------------------------

منجانب فکرستان

اماں جان نے مجھ سے بات کرنا بند کر دیا، تو اس سے مجھے احساس ہُوا کہ میرا

 اسکول سے میرا نام کٹ جانا گویا اماں جان کے لئے ایک سانحہ جیسی بات تھی 

کہا جاتا ہے کہ وقت ہر زخم کو بھر دیتا ہے، اس لئے ۔

اب ،اماں جان بھی کم کم وہ بھی ضروری باتوں محدود ہو گئیں،باتوں میں

 وہ پہلے جیسا بے ساختہ نہیں رہا،تعلقات میں کھچاوٹ تھی،اماں جان مجھ سے

کُچھ نہ کہہ تھیں، نہ میرے رات دن کھیلنے پر ٹوکتی، ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے

 ملاح نے پتوار پھینک دیے ہوں اور کشتی کو لہروں کے سپرد کر دیا ہو۔

 ہم جس علاقہ( نیا آباد) میں رہتے تھے وہاں کی اکثریت تین قسم کے گھرانوں

 پر مشتمل تھی ، ایک تو وہ گھرانے تھے جو کہ نوکری پیشہ لوگوں کے تھے اُن

 کے اِن گھرانوں میں تعلیم کو اہمیت تھی، بچّے اسکول جاتے تھے دوسرے وہ

 گھرانے تھے کہ جن کے مرد ہنر پیشہ تھے ، ٹھیلے لگاتے اور دُکانداری کرتے

 تھے اِن گھرانوں میں تعلیم کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں تھی کہ بچّوں کو نوکری تو

 کرانا نہیں ، یوں انِ گھرانوں میں اُن بچّوں اکثریت تھی کہ جو اسکول جانے

کے بجائے افلاطونی فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی عمر کے فطری  تقاضوں کی 

 پیروی  کرتے یعنی کھیل کود میں دن گُزار تے،اسی طرح مزدور پیشہ گھرانوں

 کے بچّے بھی اسکول جانے کے بجاے اپنی عمر کے فطری  تقاضوں کی مطابق

کھیل کود میں دن گزارتے ۔

   گلا تو گھونٹ دیا، اہل مدرسہ نے تِرا

کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ (علامہ اقبال )

اماں جان کی اردو اورعربی کی ٹیوشن خوب چل رہی تھی اس لئے گھر میں

 کوئی مالی تنگی  نہ تھی ، مجھے کہیں کام کرنے کی فکر کوئی تھی۔ اب اجازت۔ 

یار سلامت، صحبت باقی/قسط #11کے لئے۔ انشاء اللہ

خالق کائنات ہمیشہ مہربان رہے ۔



 




  



 

Tuesday, July 15, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط #9 )۔


ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  

منجانب فکرستانغوروفکر کے لئے 

    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

عمر بڑھنے کے ساتھ، محلے کے ہم عمر لڑکوں سے دوستیاں بھی بڑیں،اِن دوستوں

 میں زیادہ تر اسکول نہیں جاتے تھے ،دن بھر مختلف قسم کے کھیل کھیلتے، فٹ

 بال، کرکٹ، باسنگ، گلی ڈنڈا، کنچے گولیاں،تاش، پتنگ بازی وغیرہ ،جس گراؤنڈ

 میں ہم یہ سارے کھیل کھیلتے تھے اُس گراؤنڈ میں پیپل کے دو گھنے پیڑ تھے ،

 اِن پیڑوں کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ ان پر جنوں کا بسیرا ہے۔

(یہ لکھتے ہوئے حال ہی میں پڑھا ہوا اداکارہ ثمینہ پیرزادہ  کا یہ بیان یاد آیا 

 کہ فلم شو ٹنگ سے پہلے اُنہیں جنات نے دھکا دے کر مجھے زخمی کردیا تھا، 

مُجھے بھی لالٹین کی لو میں بونا نظر آتا تھا )۔ اس سلسلے میں قرآنی آیات 

موجود ہیں۔اب میں گھر سے اسکول جانے نکلتا، بستہ دوست کے گھر میں 

رکھتا اور دوستوں کے ساتھ کھیلوں میں مشغول ہوجاتا ،اسکول میں لکھنے

 پڑھنےاوراُستاد کے بات ماننے کی پابندی سے مجھے اُلجھن ہونے لکھتی تھی،

شاید اِسکی وجہ ہو کہ میں اپنی ماں کا اکلوتا لاڈلہ بیٹا تھا،تاہم اسکول کے

ایک اُستاد کو میری پڑھا ئی سے دلچسپی تھی ، میں کلاس میں ذہین تھا،

میں اسکول نہیں جاتا تو یہ اُستاد دو چپراسیوں کو گھر پر بھیج تا،چپراسیوں 

کو معلوم ہوتا کہ میں گھر سے اسکول جانے کے لئے نکلا ہوں تو وہ مجھے

 گلیوں میں ڈھونڈتے،جس گلی میں میرا سراغ  ملتا یہ دونوں چپراسی گلی

کے دونوں سرے پر کھڑے ہوجاتے اور مجھے ہاتھ پائوں سے پکڑ کر 

اسکول لے جاتے ، گلی والے میرا یہ نظارہ دیکھ کر محظوظ ہوتے تھے

 اسکول پہنچنے پر،وہ اُستاد جسکو میری تعلیم سے دلچسپی تھی وہ مجھے پیار سے

سمجھا تے (غالباً یہ اُستاد حیدرآبادی تھے) تاہم کب تک چپراسیوں کو مجھے

پکڑنے کیلئے بھیجتے،نتیجہ اسکول سے میرا نام کٹ گیا،میں خوش ہو گیا اور

 اماں جان کے خواب بکھر گئے ۔اب اجازت۔

یار سلامت، صحبت باقی/قسط #10کے لئے۔ انشاء اللہ

خالق کائنات ہمیشہ مہربان رہے ۔

     

 


 



Tuesday, June 10, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط # 8 )

ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


 منجانب فکرستانغوروفکر کے لئے

اب جبکہ ہم کرائے کے مکان میں شفٹ ہوگئے، میں نے اماں جان کو لالٹین کی

 لو میں ناچتے بونے کی بابت بتانے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی،ہم جس مکان

 میں شفت ہوئے تھے،ہمارے بالکل سامنے اپوزٹ سائٹ میں لکڑی کا ٹال تھی

 اُسی میں مالک ٹال کا مکان بھی تھا،ماموں جان کی بھی لکڑی کی ٹال تھی یوں

 ماموں جان سے اچّھی دعاسلام ہوئی تو ماموجان نے ٹال کے مالک سرفراز خان

 سے کہا کہ میں موسٰے لائن میں رہتا ہوں میرے بہن اس مکان میں رہی گی

 ذرا خیال رکھنا ،سرفراز نے کہاسمجھو کہ یہ تمہاری نہیں میری بھی بہن ہے۔

سرفراز خان کی فیملی بیوی،دو جوان لڑکے،تین جوان لڑکیاں تھیں ،یہ علاقہ نیا

 آباد کہلاتا ہے،یہاں کے مکینوں میں سندھی زیادہ بہت کم میمن تھے میمنی زبان

 کسی قدر سندھی زبان سے ملتی جلتی ہے ۔ پشتو یا اردو بولنے والا کوئی نہیں تھا۔ 

 کہنے کو  ہندی فلم کہلاتی ہے تاہم فلم کے ڈائیلاک اور گانے وغیرہ سب اردو

 میں ہونے کی وجہ سے پورے برصغیر میں اردو سمجھی جاتی ہ ،پاکستان میں اردو کو

 قومی زبان قرار دینے سے اسکولوں میں اردو کو لازمی زبان کے طور پڑھائی جاتی

یوں سندھی معاشرے میں رہنے میں ہمیں زبان کا کوئی مسئلہ نہیں  تھا  ، اُس

 وقت لوگوں کی واحد تفریح فلم دیکھنا تھی ، اس بات سے یہاں  یادوں کا ایک

 پرانا جھروکا کُھلا، ( اماں جان نے بتایاکہ حیدرآباد میں کسی فلم کے چرچے تھے

 پڑوسن بھی اپنے شوہر کے ساتھ فلم دیکھ آئی تھی اور تعریف کے پل باندھی

 تھی،اماں جان نے ابا جان سے فلم دیکھنے کی ضد کی ،اباجان زیادہ مذہبی تھے، 

 اورسنیما ہال گھر سے دور تھا اسلئے اُنہوں کہا تم فلم دیکھو میں اتنی دیر ہوٹل

 وغیرہ میں گزاروں گا،فلم ختم ہونے پر تمیں لے لوں گا😀)

 اماں کے لئے بچّوں کو اردو،عربی پڑھانے کے ذریعے روزی کا دروازہ کُھل گیا، 

 میرا اسکول میں داخلہ ہوگیا ، گویا زندگی کی گاڑی کو صحیح سمت مل گئی،زندگی کی

 گاڑی اچّھی طرح چلنے لگی، سال پہ سال گزر تے رہے اور  میں چوتھی جماعت

 میں پہنچ گیا 😀۔اب اجازت۔

یار سلامت، صحبت باقی/قسط # 9کے لئے۔ انشاء اللہ

خالق کائنات ہمیشہ مہربان رہے ۔




Wednesday, May 21, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط # 7 )

منجانب فکرستانغوروفکر کے لئے 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اماں جان مجھ پر قُرآن کی مختلف آیات پڑھ کر  دم کرتیں 

جبکہ  ماموں جان اور اُن کے دوست مُجھے مختلف مولویوں سے دم  

اور،دُعاکراتے، میں دم کیا ہُوا پانی پیتا،اتنے جتن سے بھی حاصل

 کچھ نہ ہوا ، میرے ڈر نے کے عمل میں کوئی کمی نہ آتی، تاہم 

  شاید اماں جان کے بہتے آنسو اور دُعائیں رنگ لائیں کہ پڑوسن

 اماں جان سے ملنے آئیں ، باتوں کے بعد اماں جان سے کہا کہ

 میری جوان بیٹی ہے اُسکو قُرآن پڑھنا سیکھا دیں،اِس کا کوئی نذرانہ

نہیں ہوسکا تاہم میں اپنی خوشی سے جو دوں گی اُس سے آپ خوش

 ہوگئیں ،یہ لڑکی آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی ،ہم  جس جگہ

 رہتے تھے وہ جگہ موسٰے لائن کہلاتی تھی ،دس منٹ کی واک پر

   برٹش  گورنمنٹ کا قائم کردہ لیاری کا بغدادی تھانہ تھا اس کا

 احاطہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں کھیلنے کے لئے گراؤنڈ اور 50 کے

قریب فیملی کواٹر جو کہ چٹانوں کے پتھروں کو تراش کر بنائے گئے

 بلاکوں سے بنائے گئے تھے ، اماں جان سے  جو لڑکی پڑھنے آنے

 لگی تھی اُسکی ہم جماعت سہیلیاں انہیں کواٹروں رہتی تھیں یوں

 اماں جان انہیں سہیلیوں کے زریعے فیملی کواٹر کے بچوں کو اُردو

 اور عربی پڑھا کے لئے متعارف ہوئیں ، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر

 آپ کوئی کام/ بزنس شروع کرنا چاہتے ہیں تو اُس کام/بزنس میں

 موجود گیپ تلاش کریں اور اُس گیپ میں چھلانگ لگائیں کامیابی

 قدم چومے گی۔ایسا ہی گیپ اماں جان کو فیملی کواٹر کی بچیوں کو

 اردو اور عربی پڑھا شکل میں ملا، گویا روزی کا دروازہ کُھل گیا ،اماں

 جان نے فیملی کواٹر کے بہت قریب  کرائے پر مکان لے لیا یوں

 ہم ماموں جان کے مکان سے اپنے کرائے کے مکان میں شفٹ

 ہو گئے ۔ کُچھ نیٹ کی خرابی کُچھ طبعیت کی خرابی قسط لکھنے میں

 آڑے آئی ہے ۔ اب اجازت۔

یارسلامت صحبت باقی/قسط # 8 کے لئے 

  انشاء اللہ

خالق کائنات  ہمیشہ مہربان رہے ۔

 



یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط #12)۔

  منجانب فکرستان : غوروفکر کے لئے   دن مہینوں میں اور مہینے سال میں تبدیل ہوتے رہے، اماں جان کے تعلقات  محلے کے میرے دوست یعقوب کی فیملی ا...