Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Monday, September 12, 2011

آئن سٹائن کے خط سے اقتباس

فکرستان سے پوسٹ ٹیگز: خط/ آئن سٹائن/سگمنڈفرائیڈ /نفرت و تشدد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ خط 30 جولائی 1932 کو آئن سٹائن نے ماہرِ نفسیات سگمنڈ فرائیڈ کو لکھا تھا اس میں آئن سٹائن نے سیاست دانوں ، دانشوروں اور انسانی نفسیات کا جو تجزیہ پیش کیا  ہے  ایسا لگتا ہے کہ یہ تجزیہ کسی ماہر طبعیات کا نہیں بلکہ کسی ماہر نفسیات کا تجزیہ ہے اُنکا  یہ تجزیہ آج کے انسان ،آج کی دُنیا ،آج کے پاکستان اور( خاص کر کراچی کے حالات  پر)  پوری طرح سے فٹ بیٹھتا ہے ۔۔۔اسی لیے یہ اقتباس پیش ہے ۔ ۔ ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
گزشتہ عشرے کے دوران ہونے والی ایسی تمام کوششیں رائیگاں گئیں جو اس امر کا ثبوت ہیں کہ کوئی طاقتور نفسیاتی عامل ان کے خلاف متحرک ہے جو ان تمام مساعی کو ناکام بنا رہا ہے/ ایسے کچھ عوامل کی نشاندہی کرنا مشکل بھی نہیں/ حکمران طبقات کی ہوس جاہ و طاقت ہر اس کوشش کا خاتمہ کر دیتی ہے جسکی مدد سے قومی خودمختاری میں کمی ممکن ہو/ ایک طرف سیاسی اقتدار کے بھوکے جتھے سرگرم عمل ہیں تو دوسری طرف وہ افراد مصروف کار ہیں جن کے معاشی و اقتصادی مفادات امن سے متصادم ہیں/ ہر ملک میں ایسے افراد ہیں جو اگرچہ تعداد میں کم ہیں لیکن اثرنفوذ کے اعتبار بے حد مظبوط ہیں ۔ یہ افراد اسلحہ ، گولہ بارود اور مہلک ہتھیار بناتے اور بیچتے ہیں انکی زندگی ،مفادات اوربقا ء دوسروں کی ہلاکت ،موت اور تباہی میں مضمر ہیں ۔۔۔
 آخر انسانوں کو اتنی آسانی سے کیسے اُکسایا جا سکتا ہے کہ وہ عقل و خرد کھو بیٹھیں اور اپنی زندگی تک کو داؤ پر لگانے سے گُریز نہ کریں ؟ اسکا جواب غالباً یہی ہے کہ ہر انسان کے اندر تخریب اور نفرت کے شدید جذبات موجود ہوتے ہیں جو زمانہ امن میں حالت خوابیدگی میں رہتے ہیں اور صرف غیر معمولی حالات میں بیدار ہوتے ہیں ۔ لیکن انکو اُبھارنا اور بروئے کار لانا زیادہ مشکل نہیں ہوتا یہ بُہت جلد سرگرم عمل ہوکر اجتماعی پاگل پن کی صورت اختیار کرلیتے ہیں ۔ یہی وہ مسئلہ ہے جس کا حل میرے پاس نہیں  ۔ ۔۔ اب میں اپنے آخری سوال کی طرف آتا ہوں ۔ کیا انسان کے ذہن کو اس طرح سے کنٹرول کرنا ممکن ہے کہ اس کے اندر سے نفرت و تشدد کے جذبات نکالیں جاسکیں ۔ یہاں پر میں  صرف ان پڑھ اور غیر تربیت یافتہ عوام کی بات نہیں کر رہا بلکہ میرا اشارہ اس نام نہاد دانشور طبقے کی طرف بھی ہے جو خود بھی ان جذبات کا نہایت آسانی سے شکار ہوجاتا ہے ۔۔۔اب تک میں صرف قوموں کے درمیان جنگوں کی بات کرتا رہاہوں جو کہ بین الاقوامی ٹکراؤ کے زمرے میں آتی ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ تشدد کے جذبات دیگر لبادوں میں بھی فعال رہتے ہیں مثلاً خانہ جنگیاں ،نسلی تصادم،اور فرقہ وارانہ فسادات وغیرہ ۔ ۔ ۔ شُکریہ ۔
حوالہ کتاب : ٹوٹم اینڈ ٹیبو/ پبلشرنگارشات
تبصروں کی پبلشنگ بند ہے ( ایم ۔ڈی )

No comments:

Post a Comment