Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Monday, December 6, 2010

لا محدود کو محدود۔۔۔۔(۔چوتھا آخری حصہ)۔۔۔

فکرستان سے" ایم ۔ ڈی" کا آداب قُبول فرمائیں سابقہ حصوں میں آپکویہودیت،عیسایت 

اوراسلام کے بُنیادی عقائد کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں ۔اب  ہم  سلسلہ  وہیں

سے جوڑتے ہیں ۔ بے دین سائنسداں نے اپنے خطاب میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب سے پہلے میں فکرستان والوں کا  شُکریہ ادا  کرتا ہوں  کہ  اُنہوں  نے مذاہب کو 

سمجھنے کا ایک اچھا موقع  فراہم کیا ۔۔۔اصل میں  فکرستان والوں  نے مجھ  بے دین 

شخص کو ایک  ٹاسک  دیا  تھا کہ  میں اپنے ساتھیوں اور ساتھیوں کے ساتھیوں میں 

سے ایسے بے دین  سائنسدانوں کواس سیمینار میں شرکت کے لیے آمادہ  کروں۔ تاکہ  

ان سائنسدانوں  میں سے اگر کوئی کسی دین سے مُتاثر ہو تو وُہ اُس دین کو اپنا لے ۔
  
 چائے کے وقفہ کے دوران ان سب نے اپنی اپنی رائے لکھ  کر مُجھے دے دی ہے  

 جسے میں آخر میں  پیش کروں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

 ۔ پہلے میں مذہب کے بارے میں کچھ  باتیں  کروں گا ۔ پھر سائنسدانوں  کی   باتیں 

ہونگیں ۔۔ تینوں مذہب کے ہرعالم نے یہ دعویٰ  کیا  ہے کہ خُدا صرف اُنکے مذہب 

کے ماننے والوں کے گُناہ معاف کرے گا اور صرف اُسی مذہب کے ماننے والے 

جنت میں جاسکیں گے۔اگرآپکا تعلق دوسرے مذہب سے ہے تو چاہے آپ  کتنے ہی 

حقوق العباد کے پاس دار، عبادت گُذار، ہمدرد، نیک اورفلاہی کام کرنے والے کیوں 

نہ ہوں  آپکی بخشش نہیں ہوگی ،آپ جنت میں نہیں جاسکیں گے۔۔۔۔۔۔ 

 کیااسطرح خُدا  لامحدود کو محدود کرنے کےمترادف نہیں ہے ؟ 

 اب فرض کریں خُدا کی بخشش اور جنت پانے کیلئے میں کسی مذہب میں  شامل 

ہوجاتا ہوں مگر یہ کیا ؟ یہاں تو مُجھے ہر طرف فرقے ہی فرقے نظر آرہے ہیں اور 

ہر فرقہ یہ کہتا ہے کہ اس مذہب کی اصل تعلیمات پر ہم عمل پیرا ہیں اسلئے خُدا کی 

بخشش اور جنت کے صرف ہم ہی حقدار ہیں باقی تمام فرقے بددتی ،شرک  والے ، 

کافر دوزخی ہیں ۔۔۔ ہر فرقہ کا یہ دعویٰ ۔۔۔ میرے لیے سوالیہ نشان ہے ؟ یہاں ان 

فرقوں نے خُدا لامحدود کو اور بھی محدود کردیا ۔۔

یہ فرقے کیا ہیں ،ہر مذہب کے بانی کے اُٹھ جانے کے بعد اصل مذہب کی تحریف 

(تبدیل ) شُدہ شکلیں ہیں اسکی بہترین مثال گوتم بُدھ بُدھا کی ہے جسکی  تعلیم ہے کہ 

کسی قسم کا بت نہ بنا نا لیکن  بُدھا  کے مرتے ہی مذہبی رہنماؤں نے بُدھا کے اتنے 

بڑے  بڑے بُت بنائے کہ دُنیا حیران رہ گئی۔۔۔اسی سے آپ اندازہ لگائیں کہ بُدھا کی  

تعلیم کیا تھی کیا بن گئی۔۔۔

۔ با نی مذہب کے اُٹھ جا نے کے بعد ہر مذ ہب کا یہی حال ہُوتا ہے۔۔۔ اُس مذہب  کے 

مختلف الخیال مذہبی رہنما اپنیاپنی اجارہ داری کیلئے اس مذہب پرقبضہ کرلیتے ہیں 

اسطرح ایک مذہب مختلف  فرقوں میں بٹ جاتا ہے  ۔ بانی مذہب کی اصل تعلیم پس 

پشت چلی جاتی ہے۔ تحریف( تبدیل )شدہ مذہبی فرقوں کی تعلیمات سامنے آجاتی ہیں۔

آخری پیغمبر نے اسی خدشہ کے پیش نظر آخری حج کے خطبہ میں فرمایا تھا کہ 

دیکھو دین میں تبدیلیاں کرکے فرقے نہ بنانا کہ تم سے پہلی قومیں بھی اسی وجہ سے 

تباہ ہوگئیں تھیں اور ایسانہ ہو کے میرے بعد تم بھی آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں 

کاٹ نے لگو لیکن ہُوا وہی کہ جسکا خدشہ ظاہر کیآ گیا تھا۔۔۔ اور آج تک بھی ہورہا۔ 

نوجوان نسل ان فرقوں سے کافی پریشان ہوتی ہے  اور طرح طرح کے الجھنوں میں 

گرفتارہوجاتی ہے  اب میں اُنکے خدشات دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔خُدا ایک 

اُسکا پیغام ایک ، تمام پیغمبر۔۔۔ خُدا کا ایک ہی پیغام لائے ہیں ۔ جوکہ یہ ہے ۔ "حقوق 

العباد کی پاسداری کروکہ آخرت میں سب سے پہلے اسی کی پوچھ ہوگی ۔۔۔ خُدا واحد 

کی عبادت کرو۔۔۔ اور یوم آخرت  میں اعمال کی بُنیاد پر جزا اور سزاپر یقین رکھوا

سارے پیغمبر خُدا کا یہی پیغام لائے ہیں سارے آسمانی  مذا ہب والے اس پیغام کی 

حقانیت کومانتے ہیں باقی رہےفرقے تو ۔ یہ سب پادری،ربی،مولوی نے اپنی اپنی 

اجارہ داری کیلے بنائے ہوئے ہیں۔ ۔ خُدا نے کسی فرقے کو گُناہوں سے بخشش اور 

جنت  کا ٹھیکا نہیں دیا ہے۔۔۔ 

۔ میں نے اسلام کو سمجھنے کیلئے قُرآن کابھی مُطالعہ کیا ہے اب آپ دیکھیں  اپنے 

آخری پیغیمبر کے زریعے بھی خُدا نے اپنا وہی آفاقی پیغام دوہرایا ہے قُران کی  آیات 

2۔62اور5۔59  میں  صاف لفظوں میں خُدا کا آفاقی پیغام لکھا ہے قُرآن کے الفاظ۔( 

مسلمان ہوں یا یہودی ،عیسائی ہوں یا ستارہ پرست یا جوکوئی بھی  نیک عمل کرے گا 

یوم آخرت کی جزا و سزا پر یقین رکھے گا وہ کسی خوف میں مبتلا نہ ہوں اُنہیں پورا 

پورا اجر ملے گا )  یعنی کسی مذہب یا کسی فرقے کی کوئی اجارہ داری نہیں ہے ۔ ان 

آیات کے مُطابق طرز عبادت کی بھی کوئی شرط نہیں  اصل چیز دل سے عبادت ہے 

طرز عبادت  نہیں۔

حضرت محمد ص نے آخری حج کے خطبہ میں بھی خُدا کا  آفاقی پیغام دوہرایا تھا  کہ 

تمام انسان آدم کی اولاد ہیں تم میں کوئی اعلیٰ یا ادنیٰ نہیں ہے اعلیٰ وہی ہے جس نے 

خُدا کے پیغام پر عمل کیا۔۔۔آپ ص نے فرمایا اے لوگو ایسا نہ ہو کہ یوم آخرت میں  

میری اُمت کی گردنیں  دنیا وی بوجھ سے جُھکی جارہی ہوں جبکہ دوسری اُمتیں 

سامان آخرت لیکر پُہنچیں ایسی صورت میں، میں  تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ ہر 

شخص اپنے کئے کا خود ذمہ دار ہوگا ۔۔۔
     
میں مسلمانوں کی عبادت  دیکھنے خانہ کعبہ بھی گیا تھا وہاں میں نے دیکھا کہ   

مختلف لوگ مختلف طریقہ سے نماز پڑھ رہے ہیں ۔ کوئی ہاتھ باندھ کر پڑھ رہا ہے تو 

کوئی ہاتھ کُھلے رکھ کر پڑھ رہا ہے، کوئی کسی طرح پڑھرہا ہے تو کوئی کسی طرح  

لیکن ان  میں کوئی بھی اپنے کوصحیح ظاہر کرا نے کیلئے کسی دوسرے کی  نماز 

پراعتراض نہیں کرتا ہے نہ کوئی کسی کو کا فر کہتا ہے نہ ہی نفرت کرتا ہے  سب 

اعتقاد سے بھائیوں کی طرح  اپنی اپنی عبادت نماز پڑھتے ہیں ۔ طرز عبادت کیساہی 

کیوں نہ ہو دل سے عبادت ہو نی چاہیئے۔۔۔نوجوان نسل سے مُجھے یہی کہنا ہے کہ 

آپکا تعلق کسی مذہب کے کسی فرقے سےکیوں نہ ہو آپ اُسی میں رہیں

صرف  پیغام خُدا کی پاسداری کا خیال رکھیں۔۔ دل سے عبادت کریں پھر کسی خوف 

اوراندیشہ  میں مبتلا نہ ہوں ۔۔۔۔ویسے آپکی مرضی۔۔۔۔آپ سوچ رہے ہونگےکہ میں 

اسلام کے بارے میں بُہت کچھ جانتا ہوں تو عرض ہے کہ میرا یقین ہے کہ اس دین پر 

سے فرقہ پرست اپنا قبضہ ہٹالیں اسکو بانی دین کی اصل تعلیمات پر رہنے دیںتو یہ 

دین پہلے کی طرح بُہت تیزی سے دُنیا پر چھا جائے گا ۔چونکہ یہ عقل کے بُہت قریب 

ہے۔۔۔       

اب میں کچھ بےدین لوگوں کی بات کروں گا سب سے پہلے میں نوبیل انعام یافتہ چینی     

ادیب گاؤژینگیان کے احساسات کا ذکر کروں گا کہ اس بے دین شخص نے خُدا کی 

جو ڈیفینیشن ( تعریف) کی ہے ۔اتنی اچھی تعریف میں نے کسی فرقہ پرست مذہبی 

رہنما سے کبھی نہیں سُنی جو کہ اُنہوں نے نوبیل انعام ملنے پر اپنے خطاب میں کی 

تھی اُنکے الفاظ یہ ہیں" باوجود بے دین ہونے کے میں نےہمیشہ ایک ناقابل تعارف 

وجود کا احترام کیا ہے " کیا ہم ایسے شخص کو بے دین کہیں گے جو خُدا سے اتنے 

گہرے طور پر وابستہ ہے کہ خُدااُسکے احساس میں رچا /بسا ہُوا ہے۔۔ یہی حال اکثر 

سائنسدانوں کا ہے جو بے دین کہلاتے ہیں ۔۔بعض سائنسداں ہوتے  تو پکے  مذہب 

پرست ہیں مگراپنے آپ کو بے دین ظاہر کرتے ہیں جبکہ بعض ایسے بھی ہیں جونہ 

صرف کھلم کھلا اپنے مذہب کا اظہار کرتے ہیں بلکہ اپنے مذہبی عبادات بھی دلجمی 

سے ادا کرتے ہیں۔جیسے یہودی سائنسداں  رابرٹ ونسٹن یا  نوبیل انعام یافتہ 

سائنسداں ڈاکٹر عبدالالسلام کہ جن کا نوبیل خطاب ایک سائنسداں کے بجائے ایک 

مذہبی رہنما کا خطاب لگتا ہےاب آپ خود اندازہ لگائیں۔ایسے پکے دیندار شخص کو 

بھی بے دین /کافر کہہ کراُسکا گھر جلادیا گیا اُسکو مارنے کے درپہ ہوگئے۔ صرف 

اسلیئے کہ وہ ہماری طرح کا عقیدہ نہیں رکھتا ہے ۔تو یہ ہیں فرقہ پرست کہ جنہوں 

نے دُنیا  کو جہنم بنایا ہُوا ہے ۔

جب ایک سائنسداں انسانی سیل میں موجود چھوٹی کائنات کو دیکھتا ہے پھر بڑی 

کائنات  کو دیکھتا ہے پھر ان سب میں موجود مربوط توازن ،انرجی،  اور قوانین کو 

دیکھتا ہے تو اسکے دل میں  لامحدود ذات ، لامحدود طاقت اور لامحدود ذہانت کا 

تصورابھرتا ہے ۔ آسٹریلوی بے دین سائینسداں / پروفیسر پال ڈیویز نے کتاب مائنڈ 

آف گوڈ لکھی ہے جس میں اُنہوں نے لکھا ہے کہ سائینس کے مختلف میدانوں 

میں مصروف کاربے دین سائنسدان بھی عمیق معنوں میں دیندار ہیں وہ لامحدودخُدا کو 

مانتے ہیں یہاں تک کہ سخت سے سخت قسم کے دہریے سائنسدان بھی بعض دفعہ ایک لامحدود 

ہستی کو ماننے پر مجبور پائے گئے ہیں۔ پھر سائنسدان/ پروفیسرصاحب نے اپنی ذاتی 

رائے ان الفاظوں میں ظاہر کی " اب تک کی سائنسی تحقیقات کے باعث میں اس ایقان 

تک پُہنچا ہوں کہ تمام طبیعی کائنات اس طور پر مربوط ہےکہ اسے محض بے معنی 

اتفاق نہیں کہا جاسکتا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ وضاحت کی کسی گہری سطح پر کوئی 

عمیق معنویت موجود ہے مزید یہ کہ میرے اخذ کردہ نتائج کے مُطابق ذہن بھی مادہ 

کی حادثاتی پیداوار نہیں ہے بلکہ یہ کسی ایک حقیقت کا نہایت بنیادی پہلوہے"دیکھا 

آپ نے عام معنی میں یہ بے دین سائنسدان بھی ۔۔عمیق معنی میں  کتنے دیندار نکلے 

۔ انہیں سہولیات حاصل تھیں اسلیے خُدا کی قدرت کودیکھ کر لامحدود ہستی پر ایمان 

لانے پر مجبورہوئے ۔ لیکن عام انسان کو یہ سہولت حاصل نہیں اسلئے پیغمبروں کا 

آنا ضروری تھا۔ رسوماتی عبادات  کی بھی اپنی ایک اہمیت ہے کہ  جس سے کوئی 

بھی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ اس سے روح کو طمانیت حاصل ہوتی ہے سائنسدان 

جسکو لامحدود ہستی کہتے ہیں اُسی کو مذہب والے  برہما،یہووا،خُدا ،بھگوان 

،گوڈ،اللہ جیسے ناموں سے پُکارتے ہیں ۔یہ سب اسم معرفہ ہیں اور اسم معرفہ محدود 

کے معنی میں بولا جاتا ہے ۔ اسلیئے میں اُسکوعموما"خالق کائنات یا رب جیسے 

صفاتی نام سے یاد کرتا ہوں لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے آپکا تصوراتنا 

وسیع ہوکہ جس میں سارے  صفاتی نام بھی شامل  ہوجاتے ہوں ۔اصل آپکا تصورہے 

نام چاہے کچھ بھی ہو۔۔اُسکو۔۔احساس میں۔۔ روح سے۔۔ محسوس کرو۔۔ بیشک کوئی نام 

نہ دو۔ 

اب میں اپنے ساتھیوں کی رائے آپ لوگوں پر ظاہر کر رہاہوں کہ اُنہیں کسی مذہب 

نے بھی مُتاثر نہیں کیا ہے ۔ 

میری فرقہ پرست مذہبی رہنماؤں سے گُذارش ہے کہ مخلوق خُدا پر رحم فرمائیں ۔ 

نوجوانوں کے ذہنوں کو پرا گندہ نہ کریں ۔ لامحدود خُدا کو اپنے فرقہ تک محدود نہ 

رکھیں ۔کفر، بددت، شرک،جیسے خُدائی فیصلے خود نہ کریں ،آخرت میں خُدا کو 

کرنے کیلئے بھی تو کچھ فیصلے چھوڑیں ۔ اسلیئے کہ آپ دلوں کے حال نہیں جانتے 

ہیں ۔

مُجھے یہ دُعا بُہت پسند ہے جسے میں اکثر سُنتا ہوں ۔کیوں سُنتا ہوں ؟ شاید اسکے 

بول متاثر کن ہیں یا شاید ماحول متاثر کن ہے( چونکہ سامنے جنازہ رکھا ہے) یا 

موسیقی متاثرکن ہے یا پھر یہ سب کچھ ملکر ہی مُتاثر کن ہے ۔میں بھی آپ کے ساتھ 

سُنتا ہوں جہاں مُجھے اتنا برداشت کیا ہے تین منٹ اور سہی۔الوداع






10 comments:

  1. اچھا یعنی آپ قادیانی ہیں!

    ReplyDelete
  2. محترم سکندر صاحب بُہت شُکریہ کہ آپنے تبصرہ فرمایا ۔ محترم میرے خیال میں کسی مذہب کے بانی کے اُٹھ جا نے کے بعد اُس مذہب میں جتنے بھی فرقے بنتے ہیں تمام کے تمام اختلاف کی بنیاد پر بنتے ہیں ۔ ہر فرقہ کے مذہبی رہنما اس خوف کے تحت کہ ہمارے فرقہ والے کسی دوسرے فرقے میں نہ چلیں جائیں ۔دوسرے فرقوں کیلئے اُنکے دلوں میں نفرت بھر تے رہتے ہیں۔ اور ڈراتے رہتے ہیں کہ دوسرے فرقے والے بددتی ہیں ،کافر ہیں دوزخی ہیں اور اپنے فرقے والوں کو خوشخبری دیتے رہتے ہیں کہ صرف ہمارا فرقہ دین کی صحیح پیروی کر رہا اسلئے خُدا کی بخشش اور جنت صرف ہمارے فرقے کیلئے لئے ہے ۔یہ میں کسی ایک مذہب یا ایک فرقے کی بات نہیں کر رہا ہوں میں تمام مذاہب کے تمام فرقوں کی بات کررہا ہوں ۔ ویسے آپکی مرضی ہے جو چاہے مُجھے سمجھیں ۔ میں کیا ہوں یہ میرا رب جانتا ہے ۔ آپکا بُہت شُکریہ

    ReplyDelete
  3. اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ قادیانیت المعروٖف احمدیت فرقہ نہیں ۔ بلکہ اسلام سے خارج لوگ ہیں جنہیں آئین پاکستان کی رُو سے غیر مسلم قرار دیا گیا ہے ۔ اور جس پہ پوری امت مسلمہ کے تمام فرقوں اور مکتبہ ء فکر کے لوگوں کا اجماع اور اتفاق ہے۔

    نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کو قادیانی ہونے کی وجہ سے عام طور عموما مظلوم کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے ۔ جب کہ حقیقت ہی ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستانی کے جوہری پروگرام کے کے بارے میں امریکہ اور دیگر طاقتوں کو انتہائی خفیہ معلومات دیں ۔ جس وقت پاکستان ایٹمی طاقت بننے کے قریب تھا تب ڈاکٹر عبدالسلام نے نہ صرف خفیہ ایٹمی معلومات امریکہ کو بہم پہنچائی بلکہ فٹ بال کے گیند برابر ایک ایسے ایٹمی بم کا نقشہ بھی فراہم کیا جو مبینہ طور پہ پاکستان کا ایک ایٹمی قوت کے طور پہ پہلا ایٹمی ہتیار تھا۔ ایسے میں کوئی ذی ہوش محب وطن پاکستانی ایک ایسے ڈاکٹر سے عقیدت کا اطہار قطعی طور پہ نہیں کر سکتا جس ڈاکٹر نے اول اول پاکستان کی خلاف پہلی ایف آئی آر امریکہ میں کٹوائی ۔ اس سارے معاملے میں ڈاکٹر عبدالسلام کا قادیانی ہونا ایک ایسا امر تھا جس کے لئیے موصوف نے پاکستان اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف یہ خدمات انجام دیں ۔ ایسے میں کسی ایسے فرد سے کون عقیدت کا اظہار کرے گا؟

    ReplyDelete
  4. محترم جاوید گوندل صاحب ،بلاگ پر آئے تبصرہ کیا بُہت شُکریہ ،مُجھے ایسے مذہبی سائنسدانوں کو دکھانا تھا کہ جو مذہبی رسومات پر سختی سے عمل پیرا ہوں اس سلسلے میں میرے ذہن میں دو سائنسدانوں کے نام آئے ایک برطانیہ کے رابرٹ ونسٹن دوسرے ڈاکٹر عبدلالسلام اس سے سروکار نہیں کہ انکا تعلق کس مذہب ،فرقہ یا گروہ سے ہے ۔یہ دونوں سائنسدان جملہ مذہبی رسومات کے ساتھ عبادت کرتے تھے۔ باقی آپ نے جو انکشاف کئے ہیں میرے لئے نئے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ پاکستانی سائنسداں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی ،اور شاعر ادیب شہزاد احمد بھی واقف نہیں ہونگے چونکہ یہ دونوں حضرات ڈاکٹر صاحب سے بُہت محبت کرتے ہیں ۔ان دونوں حضرات کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے؟ بہر حال آپکا بُہت شُکریہ

    ReplyDelete
  5. تحریر شائع ہونے کے تھوڑی دیر بعد ماورائی فیڈر پر پڑھ کر ہم یہاں تبصرے کرنے کی نیت سے آنے والے تھے کہ تبصروں کا رخ کسی اور جانب جاتا ہوا دیکھ کر ہاتھ روک لیا۔

    ReplyDelete
  6. تحریر پڑھنے کے دوران وجدان ہوا کہ تبصروں کا رخ کس طرف جائے گا۔ اب اسی طرف جا رہا ہے۔ اب ہم تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے تیل اور اسکی دھار دیکھ رہے ہیں۔

    ReplyDelete
  7. محترم ابن سعید بھائی بلاگ پر تشریف لائے آپکا شُکریہ ۔جب میں آخری حصہ لکھنے بیٹھا تو لکھتا ہی چلا گیا کافی مواد جمع ہوگیا جتنا شائع ہُوا ہے اس سے دُگنا موادکی کانٹ چھانٹ کی ہے جس سے ربط کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔سعید بھائی ان فرقوں سے نوجوان طبقہ بُہت سی الجھنوں میں گرفتار ہوجا تا ہے ۔اسی لیے مشورہ دیاہے کہ فرقہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا پیغمبر کے خُدائی پیغام کی پاسداری کرو ۔میرے نزدیک خُطبہ حجتہ الوداع کی بُہت اہمیت ہے ۔ چونکہ اُس میں حضور ص نے تمام اجارہ داریوں کو اپنے پیروں تلے کُچل کر اسلام کا آفاقی پیغام دیا ہے ۔ آپکا بُہت شُکریہ

    ReplyDelete
  8. محترمہ انیقہ ناز صاحبہ، بلاگ پر تشریف لائیں آپکا شُکریہ ۔ صحیح وجدان پر آپکے دماغ کو مُبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ میں نے یہ سلسلہ نوجوانوں پر فرقوں کے پڑنے والے اثرات کو دیکھ کر شُروع کیا تھا کہ ہماری یہ نوجوان نسل ان فرقوں سے طرح طرح کی الجھنوں میں گرفتار ہورہی ہے ایک گھر میں دو بھائی الگ الگ فرقوں میں دونوں ایک دوسرے کو کافر کہہ رہے ہیں۔ کیسا المیہ ہے ؟ آپکا بُہت شُکریہ۔

    ReplyDelete
  9. فرقوں کے بارے آپکی بات درست ہے ۔ کہ مسلکی اختلاف کی وجہ سے ہمارے ہاں انسانی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا حالانکہ اسلام اور دیگر مزاہب کی رُو سے انسانی قتل سب سے بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے۔

    بد قسمتی سے پاکستان میں ضروری نہیں کہ مسلکی بنیاد پہ اختلاف رائے میں شدت پیدا کی جاتی ہے۔ بلکہ عام طور زبر دست کسی قسم کے اختلاف پہ زیردست کی گردن اڑانے سے کم پہ راضی نہیں ہوتا اور یہ روئیہ اسقدر راسخ ہوتا جارہا ہے کہ عموما خبر آتی ہے کہ لین دین ، مول تول، ناپ تول ، یا ویسے ہی سر راہ دو آدمیوں یا کشھ افراد کے دوران کسی اختلاف پہ جگڑا ہوگیا اور نوبت قتل تک جاپہنچی جبکہ کعیہ ایک بار لوگ آپس میں اس روز سے پہلے جانتے تک نہیں تھے۔ میری رائے میں اس بات کا مذھب سے زیادہ سماجی فرسٹریشن سے ہے۔

    جہاں تک دین کے بارے مسلکی اختلاف ہے تو اسے اختلاف برائے نعمت اور حصول علم لیا جانا چاہئیے ۔ اور یہ بات سبھی کو یاد رکھنی چاہئیے کہ ایک وقت میں ہم عصر امام ایک دوسرے کی انتہائی عزت کرتے تھے بلکہ اکتساب علم بھی کرتے تھے۔ اللہ اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے ۔ قرآن کریم نے باشگاف الفاظ میں آپس کے تفرقوں سے باز رہنے اور اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھامے رہنے کا حکم دیاہے۔ جبکہ پاکستان میں مسلکی اختلاف پہ عامتہ الناس کا درجہ حرارت اسقدر بڑھا دیا جاتا ہے کہ وہ قتل و غارت سے کم پہ راضی نہیں ہوتے اور ایسے قبیح افعال کو انجام دینے والے عموما وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں دین اسلام پہ عمل سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔

    میری ذاتی رائے میں معاشرے سے ناامیدی مایوسی )فرسٹریشن) ختم ہونے سے اور تعلیم کو عام کرنے سے اس مسئلے پہ دیگر مسائل سمیت بہتر طریقے سے قابو پایا جاسکتا ہے۔

    ReplyDelete
  10. محترم جاوید گوندل صاحب، مُجھے خُوشی ہے کہ آپ نے میرے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کی ۔آپکا بُہت شُکریہ

    ReplyDelete