منجانب فکرستان: پوسٹ کی تیاری میں مشہور دانشور جناب ڈاکٹر منظور احمد کے مضمون" خُدا " سے مدد لی گئی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آجکل "شرک" متعدی مرض کی طرح پھیل رہا ہے ،اب لوگ بات بے بات دوسرے کو باور کراتے ہیں کہ" بھائی یہ شرک ہے " یہودیت میں شرک کسے کہتے ہیں ؟؟ مشہور یہودی عالم موسیٰ بن میمون نے اپنی مشہور کتاب' دلالہ- الحائرین' میں لکھا ہے کہ خُدا کو جاننے کے دو طریقے ہیں ۔ایک طریقہ جو عام ہے وہ عام آدمیوں کیلئے ہے کہ جن کی فکری استعداد ترقی یافتہ نہیں ہوتی ۔لیکن اسکے برخلاف جب اہل دانش خُدا کے متعلق کچھ جاننا چاہیں تو انکو معلوم ہونا چاہیے کہ" خُدا کی کسی شکل اور کسی ہئیت میں کوئی لازمی صفات نہیں ہیں "اور یہ کہ جب خُدا کی تجسیم کا انکار کیا جاتا ہے تو اسکے معنی تمام مثبت صفات سے انکار کرنے کے ٹہرتے ہیں ۔وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ خُدا ایک ہے اور متعدد صفات سے متصف ہے ،وہ زبان سے تو خُدا کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں لیکن فکری طور پر شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ اس لیے کے ذات کے ساتھ صفات کے وجود کا اقرار خُدا کی ذات کے علاوہ دیگر وجود کے اقرار کے ٹہرتے ہیں جو توحید خالص کی ضد ہے ۔۔۔ اوریہ شرک ہے ۔۔۔۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
گنگا کے پانی میں نہانے نے سے انسان کے سارے گُناہ دُھل جاتے ہیں۔۔۔ عقیدوں کی مملکت میں عقل کا داخلہ منع ہے۔۔۔ زبردستی عقل گھُسائی جائے گی تو یہ غیر فطری عمل کہلائے گا اور غیر فطری عمل سے غیر فطری شرک اور فرقے بر آمد ہونا یقینی بات ہے۔۔۔ اب اجازت دیں آپکا بہت شُکریہ۔۔( ایم ۔ڈی)