منجانب فکرستان: غوروفکر کے لئے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اماں جان مجھ پر قُرآن کی مختلف آیات پڑھ کر دم کرتیں
جبکہ ماموں جان اور اُن کے دوست مُجھے مختلف مولویوں سے دم
اور،دُعاکراتے، میں دم کیا ہُوا پانی پیتا،اتنے جتن سے بھی حاصل
کچھ نہ ہوا ، میرے ڈر نے کے عمل میں کوئی کمی نہ آتی، تاہم
شاید اماں جان کے بہتے آنسو اور دُعائیں رنگ لائیں کہ پڑوسن
اماں جان سے ملنے آئیں ، باتوں کے بعد اماں جان سے کہا کہ
میری جوان بیٹی ہے اُسکو قُرآن پڑھنا سیکھا دیں،اِس کا کوئی نذرانہ
نہیں ہوسکا تاہم میں اپنی خوشی سے جو دوں گی اُس سے آپ خوش
ہوگئیں ،یہ لڑکی آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی ،ہم جس جگہ
رہتے تھے وہ جگہ موسٰے لائن کہلاتی تھی ،دس منٹ کی واک پر
برٹش گورنمنٹ کا قائم کردہ لیاری کا بغدادی تھانہ تھا اس کا
احاطہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں کھیلنے کے لئے گراؤنڈ اور 50 کے
قریب فیملی کواٹر جو کہ چٹانوں کے پتھروں کو تراش کر بنائے گئے
بلاکوں سے بنائے گئے تھے ، اماں جان سے جو لڑکی پڑھنے آنے
لگی تھی اُسکی ہم جماعت سہیلیاں انہیں کواٹروں رہتی تھیں یوں
اماں جان انہیں سہیلیوں کے زریعے فیملی کواٹر کے بچوں کو اُردو
اور عربی پڑھا کے لئے متعارف ہوئیں ، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر
آپ کوئی کام/ بزنس شروع کرنا چاہتے ہیں تو اُس کام/بزنس میں
موجود گیپ تلاش کریں اور اُس گیپ میں چھلانگ لگائیں کامیابی
قدم چومے گی۔ایسا ہی گیپ اماں جان کو فیملی کواٹر کی بچیوں کو
اردو اور عربی پڑھا شکل میں ملا، گویا روزی کا دروازہ کُھل گیا ،اماں
جان نے فیملی کواٹر کے بہت قریب کرائے پر مکان لے لیا یوں
ہم ماموں جان کے مکان سے اپنے کرائے کے مکان میں شفٹ
ہو گئے ۔ کُچھ نیٹ کی خرابی کُچھ طبعیت کی خرابی قسط لکھنے میں
آڑے آئی ہے ۔ اب اجازت۔
یارسلامت صحبت باقی/قسط # 8 کے لئے
انشاء اللہ
خالق کائنات ہمیشہ مہربان رہے ۔
No comments:
Post a Comment