Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Friday, October 31, 2014

" مذہب کو سائنسی جامہ پہنا نا"

منجانب فکرستان: غور و فکر کے قابل دو خبروں کی شئیرنگ
پہلی خبریہ ہےکہ پوپ فرانسس نے سائنسی نظریہ بگ بینگ اور اِس بھی بڑھ کر مذہب کے حوالے سے متنازعہ نظریئے اِرتقاء کو حقیقی کہہ کر قبولیت بخشی یوں مذہب پر سائنسی جامہ چڑھانے کی کوشش کی ہے۔۔ اپنی بات میں وزن ڈالنے کیلئے پوپ فرانسس کہتے ہیں کہ
When we read about creation in Genesis, we run the risk of imagining God was a magician, with a magic wand able to do everything
پوپ کا نظریہ بیگ بینگ،نظریہ ارتقاء اور خُدا کے بارے میں یوں رائے دینا مذہب کے حوالے سے کہاں تک صحیح ہے ؟؟؟ 
دوسری خبر یہ ہے کہ ایپل کے سربراہ ٹمِ کُک نے کہا ہے کہ" مجھے ہم جنس پرست ہونے پر فخر ہے۔۔
میں اِسے خُدا کی جانب سے دیئے گئے عظیم تحفوں میں سے ایک تحفہ خیال کرتا ہوں " مسٹر کُک کے یہ خیالات دماغ میں جگہ بنا نہیں پارہے ہیں۔۔
اب اجازت دیں، پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔۔۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
پوپ کی خبر کا لنک۔  
http://www.washingtonpost.com/blogs/worldviews/wp/2014/10/28/pope-francis-backs-theory-of-evolution-says-god-is-no-wizard/
ٹم کُک کی خبر کا لنک۔
http://www.reuters.com/article/2014/10/30/us-apple-ceo-idUSKBN0IJ19P20141030
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
پوسٹ میں کہی گئی باتوں سےاختلاف/اتفاق کرناآپکا حق ہے۔

  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں  رہیں }  

Wednesday, October 29, 2014

" انسانی سوچ کا جوار بھاٹا "

منجانب فکرستان
کہاں تو اسمبلی میں پہنچنے کیلئے تگ و دو اور کہاں مزارات پر دن گُذارنے کی آرزو
"ایاز امیر" اپنے کالم میں کہتے ہیں"
میرے ذہن میں بہت عرصے سے یہ خیال ہے کہ میں سڑک پر چلتے چلتے ایک مزار سے 

دوسرے مزار تک حاضری دوں۔ میں نے فقیروں کی عبازیب تن کی ہواور دنیاوی رخت و 

مال پاس نہ ہو۔ قسمت کی خیرات پر جیوں۔تیس سال پہلے میں لال شہباز قلندرؒ کے عرس پر 

سہون شریف گیا تھا۔ اُ س وقت میرے پاس قیام کی کوئی جگہ نہ تھی۔ ایک مہربان اسسٹنٹ 

اسٹیشن ماسٹر نے مجھے اپنے گورنمٹ کوارٹر کا ایک کمرہ دے دیا۔ تین دن تک میں سہون کی 

گلیوںمیں چلتا رہا یا مزار کے احاطے میں بیٹھ جاتا۔ سندھ بھر سے خانہ بدوش لڑکیاں عرس 

میں شرکت کرتیں اور ڈھول کی تھاپ پر دھمال ڈالتیں۔مجھے قلندر کے مزار سے جو دولت 

ملی وہ ذہنی سکون ہے۔
یہ تجربہ میری یاداشت کا انمٹ حصہ ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر اس سفر کو دہرانا چاہتا ہوں، 

صرف سہون شریف ہی نہیں بلکہ بھٹ شاہ بھی جانے کو دل چاہتا ہے۔ میں وہاں جانا چاہتا

 ہوں اور میرے ساتھ کچھ دنیاوی متاع بھی ہو… بہت مال ودولت نہیں  بلکہ کتابیں اور لیپ ٹا 

لیپ    ٹاپ کیونکہ ان کے بغیر شامیں زیادہ تنہا ہوجاتی ہیں۔ 
٭۔۔۔٭۔۔۔٭ 
مکمل کالم پڑھنے کیلئے لنک پر جائیں ۔بشکریہ جنگ
http://jang.com.pk/jang/oct2014-daily/29-10-2014/col1.html

پوسٹ میں  دی گئی رائے سےاختلاف/اتفاق کرناآپکا حق ہے۔

  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں  رہیں } 

" حیرانگی جاتی رہی "

منجانب فکرستان
دوستو ایک وضاحت، جمال صاحب کا یہ مشاہدہ کہ سُناروں کی دُکانوں کے پٹ کُھلے جبکہ دیگر اشیائے فروخت کی دُکانوں کے پٹ بند رہتے ہیں،عام شاپنگ سینٹروں کے بارے میں تھا جبکہ حرم کے قریب واقع ہر قسم کی تمام دُکانوں کے پٹ کُھلے رہتے ہیں کہ ہر نماز کے بعداِن دُکانوں میں خریداروں کا رش پڑتا ہے۔
سب سے زیادہ انڈونیشیا سے ایک لاکھ 68 ہزار،فریضہ حج کی  ادائیگی کیلئے پہنچے، لیکن وہ کہیں نظر نہیں آرہے تھے، نہ منیٰ میں، نہ جمرات میں اور نہ ہی طواف کے دوران ،جمال صاحب اور اُن کے ساتھیوں کیلئے یہ ایک حیران کُن بات تھی،لیکن    مکّہ سے مدینہ پہنچے تو اُنہیں ایسا محسوس ہُوا کہ جیسے وہ مدینے میں نہیں جکارتا میں گھوم رہے ہیں ہر طرف انڈونیشئین گھوم پھر رہے تھے، یوں اُنکی حیرانگی جاتی رہی اور جمال صاحب کے سمجھ میں یہ بات آئی کہ اُن کے اور انڈونیشئین کے درمیان وقت اور رہائشی علاقے کا فرق آڑے آیا ہوگا کہ اُنہیں انڈونیشئین نظر نہیں آرہے تھے۔۔۔ اب اجازت دیں، پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔۔۔۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
پوسٹ میں کہی گئی باتوں سےاختلاف/اتفاق کرناآپکا حق ہے۔

  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں  رہیں }   
     

Thursday, October 23, 2014

کیا وڈیو میشل کومشتعل کرسکتی ہے ؟؟

منجانب فکرستان: قہقہے، تبادلہ خیالات اور جونز کی وارننگ 
جیسا کہ وڈیو دِکھاتی ہے( لنک موجود ہے) صدر اوباما تو مائک جونز کی گرل فرینڈ کو  چھوُنا تو دور کی بات، وہ بیچارے تو ایک شریف مرد کی طرح آنکھیں نیچی کئے  وسط مدتی اپنا ووٹ بُھگتا رہے تھے، لیکن اوباما کو دیکھ مائک جونز کو کیا سوجھی کہ اُس نے کہا جنابِ صدر میری محبوبہ کو مت چُھونا!! جونز کی اِس بات پر (امریکی خواتین کی سائیکی کے مطابق) اُسکی محبوبہ کے قہقہے گونجے تو اوباما متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے، پھر دونوں میں تبادلہ خیال شروع ہُوا۔۔۔۔
 قہقہے، تبادلہ خیال اور جونز کی وارننگ نے اوباما کی مردانگی کو اِتنا جگادیا کہ میشل بھی یاد نہ رہی، اوباما نے نہ صرف جونز کی محبوبہ کو چُھوا بلکہ گلے سے بھی لگایا یہی کُچھ جونز کی محبوبہ نے اوباما سے کیا۔۔۔اب خُدا جانے اوباما کی بیوی میشل وڈیو دیکھ کر میشل ہی رہتی ہیں کہ مشتعل ہوکر مشعلبن جاتیں ہیں ؟؟جبکہ جونز اور اُسکی محبوبہ خوب خوش ہیں کہ وہ اتنے مشہور ہوگئے ہیں کہ ٹی وی والے اُن کے انٹرویو لے رہے ہیں ۔۔۔۔
"وڈیو دیکھنا چاہیں تو لنک پر جائیں اور مجھے اجازت دیں،پڑھنے کا بُہت شُکریہ"  

http://urdu.alarabiya.net/ur/editor-selection/2014/10/22/-%D9%85%DB%8C%D8%B1%DB%8C-%DA%AF%D8%B1%D9%84-%D9%81%D8%B1%DB%8C%D9%86%DA%88-%D9%86%DB%81-%DA%86%DA%BE%DB%8C%DA%91%DB%8C%DA%BA-%D8%8C-%D9%86%D9%88%D8%AC%D9%88%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%A8%D8%A7%D9%85%D8%A7-%DA%A9%D9%88-%D8%AF%DA%BE%D9%85%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D8%A7%D8%B1%D9%86%D9%86%DA%AF.html
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
پوسٹ میں کہی گئی باتوں سےاختلاف/اتفاق کرناآپکا حق ہے،

  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں  رہیں }        

Monday, October 20, 2014

" کوئی روایتی عقیدہ ہوسکتا ہے"

منجانب فکرستان :مکّہ یا جدہ
بیوی ساتھ ہو تو شوہر کو شاپنگ سینٹرز  کے  چکر لگانے  ہی پڑتے  ہی ہیں،  جمال صاحب کےمشاہدے میں یہ بات آئی کہ مکہ یا جدہ میں کاسمیٹکسکی شاپس ہوں یا کہ گارمنٹس کی غرض کہ ہر قسم کی شاپس کے دروازے بند ہوتے ہیں لیکن سونے کے زیورات کی کسی بھی شاپ کے دروازے بند نہیں ہوتے ہیں اِن شاپس  کے دروازے ہمیشہ  کھُلے رہتے ہیں، اِن کھُلے دروازے زیوارات کی شاپس پر کوئی سیکورٹی گاڈز بھی نہیں ہوتے ہیں جمال صاحب کیلئے یہ اچمبے کی بات تھی ۔۔اُن کے ذہن میںیہ خیال بھی آیا کہ زیورات شاپس کے دروازے یوں کھُلے رکھنا کسی روایتی عقیدے کا حصہ بھی تو ہو سکتا ہے جس پر آج بھی عمل ہورہا ہو۔۔
ساتھ میں یہ خیال آیا بھی کہ ہمارے جمہوری ملک میں یوں کھُلے دروازے سونے کے زیورات کی شاپس وہ بھی بغیر کسی سیکورٹی گارڈز کے تصور میں بھی آنا نہ ممکن ہے۔۔
 اِس بادشاہت میں لوگوں کو جان و مال کا تحفظ حاصل ہے جبکہ ہمارے جمہوری ملک میں یہ تحفظ نہ پید ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟؟ ہمارے جمہوری ملک میں تو یوٹیوب پر بھی پابندی ہے جبکہ سعودی عرب میں پابندی نہیں ہے۔۔کوئی دوست یہ نہ سمجھے کہ میں جمہوریت کی مخالفت کررہاہوں"گلوبل پیس انڈیکس ممالک جمہوریت بہترین طرز حکومت کی گواہی دیتے ہیں "رہی پاکستانی جمہوریت کی بات تو اس بارے میں روز نامہ دُنیا کے سنڈے میگزین میں معروف شاعر ،نقاد ،مترجم،اوراستادمحترم ڈاکٹر سعادت سعید صاحب کا انٹرویو شائع ہُوا ہے جس میں اُنہوں نے پاکستان میں رائج جمہوری نظام کے بارے میں کہا ہے کہ "موجودہ جمہوری نظام جاگیرداروں، سرمایاداروں،اور لٹیروں کا اکٹھ ہے یہ جمہوریت نہیں سول مارشل لاء ہے۔یہ جمہوریت دیو استبداد ہے " 
محترم جناب ڈاکٹر سعادت سعید کا انٹرویو پڑھنا چاہیں تو لنک پر جائیں اور مجھے اجازت د یں۔  http://mag.dunya.com.pk/index.php/interviews/1776/2014-10-12 
نوٹ:دوستو نئے لیپ ٹاپ کو اردو لکھنے سے کچھ الرجی ہے لکھائی کی لائنیں آرڈر میں نہیں آتی ہیں یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ میرا اناڑی پن ہے  بہرحال کوشش میں لگا ہُوا ہوں دیکھیں کب کامیاب ہوتا ہوں ۔۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
پوسٹ میں کہی گئی باتوں سےاختلاف/اتفاق کرناآپکا حق ہے،پڑھنے کا بُہت شُکریہ۔ 

  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں  رہیں }        





   

Sunday, October 19, 2014

سوال یہ ہے کہ

منجانب فکرستان :کِردار حقیقی نام فرضی
جمال صاحب بمع بیوی ادائیگی حج کیلئے جدہ ائیرپورٹ پہنچے جہاں دیگر ممالک سے آئے افراد بھی
موجود تھے۔ صدا آئی کہ پاکستانی خواتین و حضرات ایک طرف ہوجائیں انہیں پولیو کے قطرے
 پِلائے جائیں گے، جمال صاحب نے قطرے پِلانے والے سے کہا (جو کہ اردو جانتا تھا)"ہم پولیو
کے قطرے پاکستان سے پی کر آئیں ہیں پاسپورٹ سے منسلک سرٹیفیکیٹ آپ دیکھ سکتے ہیں"
اُن صاحب نے جمال صاحب کی ایک نہ سُنی،قطروں کا ڈراپر جمال صاحب کے مُنہ کے قریب
لے گیا تو جمال صاحب کا مُنہ خودبخود کھُل گیا اور قطرے زبان پر ٹپکنے لگے یوں سارا احتجاج
دھرے کا دھرہ رہ گیا،تاہم اُنہیں اِس بات کا رنج ہے کہ پاکستان سے لائے اُن کے پولیو کے
سرٹیفیکیٹ کو قبول نہیں کیا گیا ۔۔۔
سوال یہ ہے کہ پاکستانیوں کو اِس حال میں کس نے پہنچایا ؟؟؟
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
پوسٹ میں کہی گئی باتوں سےاختلاف/اتفاق کرناآپکا حق ہے،اب مجھےاجازت دیں،پڑھنے کا بُہت شُکریہ۔ 

  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں  رہیں }