Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Thursday, January 30, 2014

" خُدا اور انگوٹھا "

 منجانب فکرستان
 دوستو: پہلے کچھ عمران خان کے بارے میں:
 ایک بلاگر نے دوران الیکشن لکھا تھا:عمران خان کے حمایتی احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں،اب سوچتا ہوں شاید
 ٹھیک ہی لکھا تھا:مثلاً کئی کالم نگاروں نے لکھا تھا کہ جماعت اور عمران کی سوچ میں تضادموجودہے ملکر حکومت
 بنانا عمران کا احمقانہ فیصلہ ہے۔۔۔
مزید احمقانہ پن یہ کہ کے پی کے کی حکومت سے اپنی برہمی کا اظہارکر کے جہاں وہ اپنی ساکھ خراب کررہے
 ہیں،وہیں یہ پیغام بھی دے رہے ہیں،جیسےاب پارٹی پر اُنکی گرفت نہیں رہی۔۔مزید یہ کہ دُنیا نیوز کےمطابق
تحریک انصاف کےضلعی صدر جناب رانا نعیم خان نے پی ٹی آئی سیکرٹریٹ میں کارکنوں سے خطاب کے دوران بتایا کہ کے پی کے کی حکومت بلدیاتی انتخابات سے فرار چاہتی ہے ۔۔۔۔دوسری جانب حمزہ شریف طعنے دے رہے ہیں خان صاحب کچھ کرکے دکھاؤ۔۔۔۔ایسے میں پی ٹی آئی کے ہمدردوں میں مایوسی کا پھیلنا  قدرتی بات ہے۔۔۔ 
 ٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
انگوٹھے پر ایسی چوٹ لگی کہ انگوٹھے کو باندھنا پڑا ۔۔۔لیکن بِنا انگوٹھا اُنگلیاں بے معنی ہوگئیں، گویا اِن اِنگلیوں میں معنی انگوٹھا ہی ڈالتا ہے ،بلکہ ذرا سا غور کرنے پر معلوم ہُوا کہ پورا ہاتھ انگوٹھے بِنا اپنے معنی کھو بیٹھا ہے۔۔یعنی یہ چھوٹا سا انگوٹھا پورے ہاتھ کو معنی عطا کرتا ہے ۔۔۔یعنی خُدا کی حکمت و عظمت اِس چھوٹے سے انگوٹھے میں شاندار طریقے سے جلوہ گر ہے۔۔۔
 (بے شک جسمانی فنکشن کا ذرہ ذرہ اُسکی حکمت و عظمت کی گواہی ہے ) 
٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
ایک پُرانا واقعہ گھر میں کوئی نہیں تھا انڈا فرائی کرنے کیلئے تیل گرم کیا، گرم تیل میں انڈا ڈالتے ہی تیل کا چھینٹا اُڑا کہ سیکنڈ کے ہزارویں یا لاکھویں لمحے میں پلک جھپک گئی اور گرم تیل کا چھینٹا پلک کے اُوپر پڑا ۔۔یہ سب کچھ اتنی سرعت سے ہُوا کہ اِس  کلکولیشن پر مولا کی شان نے مجھے حیرت زدہ کردیا،اگر پلک جھپکنے والی کلکولیشن میں سیکنڈ کے ہزارویں یا لاکھویں لمحے کا  بھی فرق آجاتا تو گرم تیل کا چھینٹا آنکھ کے اندر چلا جا تا اور میں اِس سوچ میں پڑگیا کہ اگر یہ پلکیں نہ ہوتیں تو کتنی ہی خواتین پکاتے میں اندھی ہوجاتیں ۔۔۔میں نے وائف کو سارا واقعہ سُنا یا تو اُسنے :grin: ہنس کر کہا: پتا چلا انڈا کیسے تلا جاتا ہے؟ پھر کہا یہ تو ہمارے ساتھ آئے دن ہوتا رہتا ہے۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟؟ ۔۔۔لو کرلو گل :grin: :grin:  
اب اپنے دوست کو اجازت دیں ۔۔۔پڑھنے کا بُہت شُکریہ۔۔
نوٹ: درج بالا خیالات سے اختلاف/ اتفاق کرنا: ہر پڑھنے والے کا حق ہے
  { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }        

Monday, January 27, 2014

" موت کا خوف "

منجانب فکرستان 
ہمارے دوست کے والد صاحب جن کی عُمر 75-80 کے قریب ہوگی، تمام ذمہ داریوں سے عہدہ براں
 ہوچُکے ہیں، بیوی بھی مر چُکی ہے، حج بھی کر چُکے ہیں، دُل میں درد اُٹھا، ٹیسٹ رپورٹوں نے دل کے
 وال خراب کی گواہی دی، یوں آپریشن ناگُزیر ٹھہرا۔۔۔جس دن وہ آپریشن کیلئے جارہے تھے ،اتفاق سے
 رشتے داروں کے ساتھ میں بھی انکے گھر میں موجود تھا، اُنکی حالت کافی خوف زدہ تھی ،ہر رشتے دار کا
 ہاتھ پکڑ   پکڑ  کر بار بار کہہ رہے تھے،دُعا کرنا میں بچ جاؤں، دُعا کرنا میں بچ جاؤں، اُنکا حد درجہ موت کا خوف اور جینے کی خواہش نے میرے ذہن کو خود کشی کرنے والوں کی جانب موڑ دیا کہ: وہ کیسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ہاتھوں اپنی زندگی ختم کرلیتے ہیں۔۔۔ خودکشی کرنے والوں کے ذہنوں میں ہمارے دوست کے والد کی طرح کا مرنے کا خوف یا جینے کی آرزو والے جذبے کیوں دم توڑ دیتے ہیں؟؟
 ایک سوال اور وہ یہ کہ اعدادوشمار کے مطابق خودکشی کرنے والوں کی اکثریت تعلیم یافتہ اور مناسب آمدنی والے لوگ ہوتے ہیں، پھر ایسا کیوں کرتے ہیں ؟؟؟  یعنی یہ بھی ایک معمہ ہے، سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ۔۔۔ ارے بڑے میاں کا قصہ تو رہ گیا!!!آپریشن تو کامیاب رہا لیکن بڑے میاں نے بیڈ اور دواؤں کی شیشیاں پکڑ لیں، بیڈ اور دواؤں کی شیشیاں پکڑنا گویا نئی بیماریوں کو جنم دینا ہے۔ بے انتہا کمزور ہوگئے ہیں ،ایسے میں بیوی کا نہ ہونا تکلیف دہ بات ہے، کس سے بات کریں، بہوؤں سے کیا کہیں؟؟ 
جو آیا ہے اُسنے جانا ہے ،اِس آنے جانے کے بیچ ایک شاہکار ڈرامہ ہے :grin: :grin:۔۔  
اب اپنے دوست کو اجازت دیں ۔۔۔پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔۔۔ 
نوٹ: درج بالا خیالات سے اختلاف/ اتفاق کرنا: ہر پڑھنے والے کا حق ہے
  { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }        


Sunday, January 26, 2014

"محبت کی سچّی کہانی "

منجانب فکرستان : کہانی کی تلخیص بمع تصاویر
دھلی کی رہائشی 15 سالہ" لکشمی" کو 32 سالہ شخص نے شادی کیلئے پرپوز کیا، انکار پر بھرے 
بازار میںچہرے پر ایسا مادہ پھینکا کہ چہرہ تیزی سے جلنے اور گلنے لگا،مدد کی پُکار پر مدد کو کوئی 
نہ آیا، جلد ہاسپیٹل پہنچ جاتی تو چہرے کو اتنا نقصان نہ پہنچتا ۔۔
واقعہ نے لکشمی کے دل میں مرد ذات کیلئے نفرت بٹھادی،لیکن قدرت کےاتفاق والے بھید کو 
 کون سمجھ پایاہے؟؟؟ لکشمی کی زندگی میں بھی، ایک ایسا ہی مسرت بھرا اتفاق "آلوک دکشت 
نامی وجیہہ نوجوان شخص کی صورت میں ظاہر ہُوا۔۔"آلوک معنی روشنی(سنسکرت)" اِس وجیہہ نوجوان صحافی نے لکشمی کی سیاہ زندگی میںروشنی بھردی۔۔ اسطرح لکشمی کیلئے بے معنی لفظ"محبت" بامعنی لفظ محبت میں ڈھل گیا۔۔۔۔۔اُنکی ملاقات تیزاب حملوں کی روک تھام مہم کی دوران ہوئی اور پھر وہ ایک دوسرے کےہوگئے۔۔
لکشمی کا کہنا ہے کہ میں نے دکشت کی زندگی میں بُہت سے رنگ شامل کئے ہیں، مثلاً پہلے وہ  سادے کپڑے پہنتے تھے، اب رنگین پہنے لگے ہیں، ہم نے سنڈریلا فلم دیکھی۔۔ میں نے دکشت کو بتا یا ہے کہ وہ ہی میرے لئیے سنڈریلا والے پرنس چارمنگ ہیں۔۔
 اکھٹے ساتھ رہتے، اِس جوڑے سے میڈیا والوں نے "شادی" کے بارے میں پوچھا، جسکا جواب دکشت نے یہ دیا کہ: ہم ساتھ رہیں گے، شادی نہیں کریں گے، چونکہ میں اسطرح کے سماجی بندھنوں کے سخت خلاف ہوں، تو پھر میں خود اِسکا حصّہ کیسے بن سکتا ہوں؟؟ جبکہ لکشمی کا کہنا ہے کہ: میں آلوک دکشت کے فیصلے کا احترام کرتی ہوں، اور اس پر عمل کرتی ہوں، لیکن مجھے یقین بھری امید ہے کہ ہماری دوستی، ہماری محبت، آہستہ آہستہ رنگ لائے گی اور  شادی کے بندھن میں بندھ جائے گی۔۔۔۔
٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
دوستو:ذیل میں 3 تصاویر ہیں اگر کسی وجہ سے تصاویر اُڑ گئیں تو بی بی سی لنک پر جا کر دیکھ لیں۔۔۔ اب اجازت دیں۔۔۔پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔۔ 
  { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }           
Laxmi

 یہ 8سال پُرانی تیزابی حملے سے پہلے کی تصویر ہے جب لکشمی 15 سال کی تھی، اب وہ 23 سال کی ہے۔ لکشمی کی یہ کہانی بی بی سی نے 22 جنوری 2014 کو شائع کی، یہ اُس کہانی کی تلخیص ہے مکمل کہانی کیلئے لنک پر جائیں: http://www.bbc.co.uk/news/world-asia-india-25773382 

Alok and Laxmi
    Laxmi and Alok Dixit

Thursday, January 23, 2014

"جنسیات اور تحقیقاتی حقیقت "

منجانب فکرستان 
خاتون کالم نگار "محترمہ انجم نیاز صاحبہ"نے اپنے کالم"خوبصورتی اورصحافت"میں ایک ایسی معمر خاتون
 صحافی کا تذکرہ کیا ہے،جنہوں نے خواتین کو مشورہ دیا ہے کہ:جبحُسن اُن کا سا تھ چھوڑ نے لگے
 تو جنس مخالف کواپنی طرفمتوجہ کرنے کیلئے بُہت سے زیورات پہنیں۔جہاں تک جنس مخالف کو متوجہ
 کرنے کی بات ہے۔ اِس بارے میں محترم جناب ڈاکٹر عطاءالرحمان صاحب نے ناقابلِ تصور لیکن
 تحقیقاتی حقیقت یوں بیان کی ہے:
جہاں کیمیا "انسا نی جسم" کے ہر کام میں شامل ہے وہاں کیا یہ "جنسی روّیوں" پر بھی اثر انداز ہوتی ہے ؟؟
 بہت سے جانوروں کے معاملے میں یہ بات طے ہے کہ مخالف جنس کو اپنی جانب متوجّہ کرنے کے لئے کسی خاص کیمیائی اجزاء کا اخراج ہوتا ہے مثلاً مکھّیوں اور کیڑوں میں مخالف جنس کو اپنی طرف متوجّہ کرنے کا بڑا ہی پیچیدہ نطام ِ موجود ہوتا ہے جس میں ایک خاص ہار مون ("pheromones"). کا اخراج ہوتا ہے۔ ان کیمیائی اجزاء کے اخراج کی طرف کیڑوں کی حسّاسیت اسقدر زبردست ہوتی ہے کہ آپ کا دماغ چونکا دیگی۔مثال کے طور پر اگر ایک چھوٹی سی بوتل میں کسی خاص کیڑے کا ہارمون موجود ہو تو سات سے آٹھ میل دورسے پتنگا اور تتلی اس ہارمون کی کشش محسوس کر کے پھڑ پھڑانا شروع ہو جاتی ہیں۔اسی حسّاسیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مادہ کیڑوں کو پکڑنے کے لئے ان ہارمونز کا جال بچھایا جاتا ہے تاکہ ان کیڑوں کی افزائش ِ نسل کو روکا جا سکے۔انسانوں میں کیا ہوتا ہے؟ بہت سی آرائشِ حسن کی کمپنیاں اس جستجو میں لگی ہوئی ہیں کہ مخالف جنس کو اپنی طرف متوجّہ کرنے والی خوشبوئیں دریافت کر لیں ۔بلکہ کچھ کیمیائی اجزاء تو بنانے میں کامیاب بھی ہو گئے ہیں جو کہ خواتین کومخالف جنس کی سمت کھینچتے ہیں۔مثال کے طور پر مردوں کی بغلوں سے خارج ہونے والا مرکّب ("androstadienone") خواتین میں دباؤ کے ہارمون ("cortisol")کو بڑھادیتا ہے جس کی وجہ سے خواتین مردوں میں کشش محسوس کرتی ہیں۔۔۔
۔(مکمل کالم پڑھنے کے خواہش مند  درج ذیل لِنک پر جائیں)۔
 ٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
۔"  یہ سب فطرت کے کھیل تماشے ہیں :grin: :grin:  عبثہوتے ہم بدنام ہیں "۔

 اب اپنے دوست کو اجازت دیں ۔۔۔۔پڑھنے کا بُہت شُکریہ  
نوٹ: درج بالا خیالات سے اختلاف/ اتفاق کرنا: ہر پڑھنے والے کا حق ہے
  { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }            

Tuesday, January 21, 2014

۔"بدعتی" وزیراعلیٰ "۔

 منجانب فکرستان
    آندھی آئے کہ طوفان 
پکے اِرادے والوں کے اِرادوں میں دراڑ نہیں پرتی، مثلاً ٹھنڈ اور کُہر نے بیمار کیجری وال کے ارادوں میں ذرا سی
 بھی جنبش لانے میں کامیاب نہ ہوسکی، ڈینمارک خاتون سے زیاتی اور سسرال والوں کے ہاتھوں جلائی جانے والی
 خاتون کیس میں پولیس کے تاخیری حربوں اور سیکس اور ڈرگ میں ملوث پولیس افسروں کے خلاف کہنے کے
 باوجود مرکزی حکومت کا پولیس کے خلاف ایکشن نہ لینے پر وزیراعلیٰ ہوتے ہوبھی روڈ پر ہی دھرنے پر بیٹھ گئے
 ساتھ میں یہ مطالبہ بھی رکھ دیا کہ پولیس اُنکی حکومت کی ما تحتی میں دی جائے۔۔
 پورا دن گُذر گیا کیجری وال اور انکے حمایتی بیٹھے رہے۔۔پورا علاقہ بلاک کردیا گیا لوگ بلاک دائرہ کے باہر بیٹھ گئے، رات ہوگئی کیجری وال بیٹھے رہے ، رات گُذر گئی کیجری  بیٹھے رہے، صبح ،دوپہر اور پھر رات ہوئی۔۔۔ مرکزی حکومت کی " انا " بھی  پولیس افسروں کو معطل کرنے میں آڑے آرہی تھی (دہلی پولیس مرکزی حکومت کے تحت ہے)  غرض رات ساڑے 8 بجے پولیس افسروں  کو معطل تو نہیں کیا، البتہ دو افسروں کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا۔ یوں دھرنا ختم ہُوا۔۔۔ منصب پر ہوتے ہوئے روایت سے ہٹ کر کسی وزیر اعلیٰ کا دھرنا تاریخ میں پہلا دھر نا شمار ہوگا ۔۔۔اور کیجری وال پہلے بدعتی وزیر اعلیٰ کہلائیں گے ۔۔
 اب اپنے دوست کو اجازت دیں ۔۔۔۔پڑھنے کا بُہت شُکریہ  
نوٹ: درج بالا خیالات سے اختلاف/ اتفاق کرنا: ہر پڑھنے والے کا حق ہے
  { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }            

۔21 جنوری 2014۔

 منجانب فکرستان پیش ہے : کس نے کیا کہا منتخب جملے؟؟
٭:  مجھے سے ملاقات ہوتی تو طبیعت صاف کردیتا، امریکی وزیر دفاع نے حکمرانوں کو جھاڑپلائی : عمران خان 
٭: عمران خان مسائل کے حل میں رکاوٹ ہیں :عاصمہ جہانگیر
٭: طالبان سے مفاہمتی عمل کی کڑوی گولی نگل لینی چاہئیے : اسلم بیگ
٭: معاملات حکومت کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں: حمید گُل

٭:سری لنکا کے تمام منفی حربے ناکام، پاکستان کی تاریخی جیت : فہد کیہر

٭: شوہر اسد بشیر خٹک کو شلوار پہننے کا عادی بنا دیا: وینا ملک 
٭: حالیہ طوفان وسیلاب ہم جنس پرستوں کی شادی کو جائز قرار دینے کا نتیجہ ہے: یوکےآئی پی کے  کونسلر سلوسٹر 
٭: شامی مذاکرات میں اقوام متحدہ  ایران کو شامل نہ کرے: امریکہ 
٭:جمائما سے تعلق پر بُہت خوش ہوں: کامیڈین رسل برانڈ
 اب اپنے دوست کو اجازت دیں ۔۔۔پڑھنے کا بُہت شُکریہ  
نوٹ: درج بالا خیالات سے اختلاف/ اتفاق کرنا: ہر پڑھنے والے کا حق ہے
  { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }    



Sunday, January 19, 2014

"سورج کی نظردُنیا پر "

منجانب فکرستان ٹیگز: گاندھی : 9مہینے
 چرچوں میں بڑے پیمانے پر بچّوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں پر پہلی بار اقوام متحدہ نے ویٹیکن سے  رپورٹ طلب
 کی ہے، معاملہ چونکہ چرچ ، پادری اور راہبوں  کا ہے، اسلئیے صحیح اعدادوشمار کا مِلنا ناممکن بات ہے۔یہ پہلی بار ہُوا
ہے کہ اقوام متحدہ نے ویٹیکن کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور عوام کے سامنے بریفنگ کے دوران پوچھا ہے کہ :" ویٹیکن کیوں
اس معاملے کو بچوں کے خلاف جرم قرار دینے کے بجائے محض اخلاقیا ت پر حملہ قرار دے رہا ہے"؟؟۔( کتنی عجیب بات 
 ہے: دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کُھلا)
فرانس اور برطانیہ نے بھارت جانے والی خواتین کو وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُنہیں وہاں جنسی حملوں کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔۔(باپو گاندھی کے دیش بھارت میں جنسی زیادتیوں کی بڑی بھیانک وارداتیں نہ صرف دیش کی عورتوں  بلکہ غیر ملکی سیاح عورتوں کے ساتھ بھی ہوئی ہیں )
اِٹلی ہی میں 31 سالہ راہبہ کہہ رہی ہے، مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ میں حاملہ ہوں، میرے پیٹ میں عام سا درد محسوس ہُوا ۔۔ ہاسپیٹل گئی تو اُنہوں نے کہا تم حاملہ ہو۔۔ اوریہ درد ۔۔دردزہ ہے۔۔مجھے حیرت ہوئی ۔۔ اِدھر  گرجا گھر میں بھی  راہبہ کی سہیلیوں کا یہی کہنا ہے کہ یہ حاملہ کیسے ہوگئی؟؟ ہم سب حیرت میں ہیں۔۔۔ گرجا  گھر کا پادری بھی گواہی دیتا پھر رہا ہے کہ راہبہ سچ کہہ رہی ہے اُسے نہیں معلوم تھا  کہ وہ حاملہ ہے۔۔(ہے نا کیسی عجیب بات 9 مہینے تک پتا نہ چلا)۔
دُنیا کے ایسے ہی عجیب و غریب واقعات دیکھ دیکھ کر سورج  بھی اب تھک گیا ہے ۔۔۔اب اُس کو بھی نیند آنے لگ گئی ہے۔۔۔http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/01/140117_vetican_defrocked_priests_zs.shtml
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/01/140118_nun_unaware_pregnancy_sa.shtml
 اب اپنے دوست کو اجازت دیں ۔۔۔پڑھنے کا بُہت شُکریہ  
نوٹ: درج بالا خیالات سے اختلاف/ اتفاق کرنا: ہر پڑھنے والے کا حق ہے
  { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }    

Saturday, January 18, 2014

"دُعا اور ستارے"

منجانب فکرستان 
خشونت سنگھ غُسل خانے میں گِر پڑ تے ہیں،اُٹھ نہیں پاتے ہیں،سمجھتے ہیں  کہ اب دم دمِ آخر آن پہنچا ہے ،جس پراُنہیں
دُعا کا خِیال آتا ہے( کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ جو شخص کسی مذہب کا لیبل  لگانا  پسند نہ کرتا ہو، وہ دمِ آخر دُعا کے
 بارے میں سوچتا ہے ،جبکہ دُعا کا تعلق مذہب سے ہے ) لیکن یہ کیا؟؟  مغفرت کی دُعا مانگنے کے بجائے اُن کے ذہن میں علامہ اقبال کا ایک فلسفیانہ شعر گونجنے لگتا ہے۔۔ 
خشونت سنگھ کے مطابق ۔۔ جب اُنہوں نے اپنے رسالے میں سِتاروں کی پیش گوئی کا صفحہ (جو اُنکی عقل پرستانہ مزاج سے
 مطابقت نہیں رکھتا تھا) بند کردیا تو رسالے کے خریدار کم ہوگئے مجبوراً اُنہیں وہ صفحہ دوبارہ شروع کرنا پڑا ، پھر یہاں تک ہُوا  کہ ستاروں کا حال لکھنے والے کی عدم موجودگی میں، مجبوراً تین ماہ تک یہ صفحہ خود لکھتے رہے تاکہ میگزین کی سر کولیشن پر کوئی اثر نہ پڑے۔۔۔(غور طلب بات یہ ہے کہ آج کا انسان  بھی توہم پرستی پر کس درجہ یقین رکھتا ہے)۔۔۔
اب اپنے دوست کو اجازت دیں ۔۔۔۔پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔۔۔
نوٹ: درج بالا خیالات سے اختلاف/ اتفاق کرنا: ہر پڑھنے والے کا حق ہے
  { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }    

Thursday, January 16, 2014

" عجیب وصیتیں "چند غور طلب باتیں "

منجانب فکرستان 
 دو دانشوروں کی وصیتیں
حسیات کے زریعے انسانی دماغ میں جو ڈیٹا جمع ہوتا رہتا ہے وہ انسان سے  کیسے کیسے فیصلے کراتا ہے اُسکی ایک جھلک۔۔۔۔۔
ن م راشد مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے ادبی دُنیا میں خوب نام کمایا، دانشور کہلائے، اپنے لیے کسی مذہبی حوالے کو ضروری 
نہیں سمجھا، لیکن اپنی میت کیلئے جو وصیت کی وہ دفنانے کے بجائے جلانے کی، کی تھی ۔۔۔۔خشونت سنگھ سِکھ گھرانے میں 
پیدا ہوئے ، ادبی دُنیا میں خوب نام کمایا، دانشور کہلائے، یہ حضرت بھی اپنے لیے کسی مذہبی حوالے کو ضروری نہیں سمجھتے
ہیں، اپنی میت کو جلانے کے بجائے دفنانے کی وصیت کرتے ہیں ۔۔۔ہے نا کتنی عجیب بات: دفنانے کی خاندانی روایت والے نے اپنی میت کو جلانا پسند کیا، جبکہ جلانے کی خاندانی روایت والے نے اپنی میت کو دفنانا پسند کیا۔۔۔۔۔۔ کیا اِن وصیتوں  کو اِن دانشوروں کی ذاتی وصیتیں کہیں گے۔۔۔۔
یا یہ وصیتیں،حسیاتی ڈیٹا کی کارستانی کہلائیں گیں؟(یعنی) کیا دماغ میں پہنچنے والے ڈیٹا نے اِن سے ایسے غیر روایتی  فیصلے کروائے ؟ 
٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
روز نامہ دُنیا سنڈے میگزین میں شائع خشونت سنگھ کے انٹرویو سے منتخب چند غور طلب باتیں
٭سوال:آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ زندگی دھیرے دھیرے اندر سے نکل رہی ہے؟ جواب:جی ہاں،۔کچھ عرصہ قبل غسل خانے میں گر پڑا۔اتفاق سے گھر میں کوئی نہ تھا،سو ایک گھنٹے تک فرش پہ پڑا رہا۔مجھے یقین ہو گیا کہ میرا آخری وقت آ پہنچا۔سو خیال آیا کہ کوئی دعا ہی پڑھ لوں۔تبھی (علامہ)اقبالؒ  کا یہ شعر ذہن میں گونجنے لگا: " باغ ِبہشت سے مجھے حکمسفر دیا تھا کیوں کار ِجہاں دراز ہے،اب میرا انتظار کر "
٭سوال:سنا ہے،آپ بہائیوں کے قبرستان میں دفن ہونا چاہتے ہیں؟ جواب:جی ہاں۔دراصل میں نہیں چاہتا کہ مرنے کے بعد میری چتا جلائی جائے،میں مٹی ہوں اور اسی میں ملنا چاہتا ہوں۔مگر مسلمانوں اور عیسائیوں نے مجھے اپنے قبرستانوں میں دفنانے سے انکار کر دیا۔بہائیوں نے ہامی بھر لی،مگر یہ شرط لگائی کہ وہ اپنی رسوم انجام دینے کے بعد مجھے دفنائیں گے۔میں نے کہا،جو مرضی رسم اپنا لینا،مجھے تو بس زمین کا رزق بننا ہے۔
٭سوال:آپ خود کو باشعور اور عقلی انسان کہتے ہیں۔لیکن جب آپ ’’السٹریٹیڈ ویکلی‘‘کے مدیر تھے،تو رسالے میں ’’ستارے کیا کہتے ہیں‘‘مسلسل کیوں شائع ہوتا رہا؟
 جواب:کیونکہ جب بھی ہم اسے ختم کرتے ،تو رسالے کی مانگ کم ہو جاتی اور مالک چیخنے لگتے۔(قہقہہ)پہلے ہم برطانیہ کے ایک پامسٹ سے کالم لکھواتے تھے۔پھر ایک مقامی جوتشی سے لکھوانے لگے۔ایک بار پامسٹ کی عدم موجودگی میں ،میں بھی تین ماہ تک قارئین کو ستاروں کی چال سے آگاہ کرتا رہا…اور کہیں سے پیشن گوئی غلط ہونے کی شکایت نہ آئی۔(قہقہہ) 
٭سوال:آپ کی اپنی تحریر کردہ پسندیدہ کتابیں؟ جواب:’’سکھوں کی تاریخ‘‘اور ’’شکوہ و جواب ِشکوہ‘‘کا انگریزی ترجمہ۔اس کتاب کا بارہواں ایڈیشن شائع ہونے والا ہے۔ ،ریڈرزڈائجسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے انکشاف کیا کہ علامہ اقبالؒ ان کے پسندیدہ شاعر ہیں۔۔۔
درج ذیل انٹرویو لنک بمع شُکریہ روز نامہ دُنیا ۔۔۔
 اب اپنے دوست کو اجازت دیں ۔۔۔پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔۔۔
ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }