Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Saturday, March 29, 2014

" غور طلاب باتیں "

 منجانب فکرستان
 ٭:ایک طرف تو مذاکرات جاری ہیں تو دوسری جانب اخباری خبر کے مطابق دہشت گردی خطرات کے
 پیشِ نظر قائدِ اعظم،علامہ اقبال کے مزارات اور مینارِ پاکستان عوام کیلئے بند کردیے گئے ہیں۔۔
٭:محترم اثرچوہان صاحب کہتے ہیں:"مولانا فضل الرحمان کے والدمولانا مُفتی محمود صاحب نے آغا شورش
کاشمیری مرحوم کے گھر ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کی موجودگی میں کہا تھا کہ : ’’خُدا کا شُکر ہے کہ ہم پاکستان 
بنانے کے گُناہ میں شامِل نہیں تھے‘‘
٭ :محترم مستنصر حُسین تارڑ  خشونت سنگھ  کی مغفرت کے بارے میں  کہتے  ہیں  کہ: " خشونت سنگھ  کی 
مغفرت کہاں ہونی ہے "۔۔۔
محترم مستنصر حُسین تارڑ دانشور کہلاتے ہیں اُنکا  کا اسطرح  کہنا  کہاں تک صحیح ہے ؟؟؟ جملے پر غور کریں
٭محترم اسد مفتی صاحب کہتے ہیں"معلومات اور علم کے فرق کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔محض معلومات
سے شخصیت کے جوہر نہیں کھلتے،علم کےحصول اور اسے انگیز کرنے سے کھلتے ہیں کہ معلومات سے صرف
حافظے کا تعلق ہے جبکہ علم ذہن کو روشنی،روشن خیالی،عصری سوچ، بھائی چارہ اورشخصیت کوتوانائی عطا کرتا 
 ہے۔میں جانتا ہوں میری یہ بات ارباب اختیار کے گلے سے نہیں اترے گی" ۔۔۔
 تفصیل پڑھنے کے خواہشمند دوست درج ذیل لنکز پر جا ئیں اور مجھے اجازت دیں۔۔ پڑھنے کا شُکریہ ۔۔۔
http://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2014-03-29&edition=LHR&id=971103_86086769
http://www.nawaiwaqt.com.pk/columns/28-Mar-2014/291464
http://dunyapakistan.com/?p=7504
http://jang.com.pk/jang/mar2014-daily/26-03-2014/col12.htm
 نوٹ: درج بالا خیالات سے اختلاف/ اتفاق کرنا ہر پڑھنے والے کا حق ہے 

Thursday, March 27, 2014

"حُکمرانی"

  منجانب فکرستان  
 جھوٹ، بد اعتمادی اورشک کی حُکمرانی نے  سچ کی پہچان کو مشکل بنادیا ہےمثلاً  جناب سرتاج عزیر  صاحب 
نے کہا:ڈیڑھ ارب ڈالر تحفہ ہیں،لیکن لوگ یقین نہیں کر رہے ہیں،بلکہ تحفے میں سے نت نئے قسم کے سچ 
اور معنی تلاش کر رہے ہیں،یوں ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ شک اور بد اعتمادی کے دائرے میں سفر کر رہا ہے۔
ملائیشیا کے وزیراعظم نے کہا طیارہ بحر ہند میں گر کر تباہ ہُوا،کوئی مسافر نہیں بچا،وزیر اعظم کی بات کو لوگوں
 نے سچ نہ مانا اور مطالبہ کیا کہ سچ بتاؤ :نتیجہ تلاش کا کام دوبارہ شروع  
امریکی سینٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی کی سر براہ سینیٹر ڈیان فن سٹائن نے ۔ سی آئی اے پر الزام عائد کیا کہ وہ 
امریکی انٹیلیجنس کمیٹی کے ارکان کی جاسوسی کرتی رہی ہے۔۔۔۔ جبکہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر جناب جان 
برینن نے اِن  الزامات کی تردید کی ہے ۔۔۔۔۔تو پھر سچ کیا ہے؟؟؟
سابق امریکی وزیرِدفاع رابرٹ گیٹس نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہپاکستان کو کبھی اتحادی ملک تسلیم 
نہیں کیا ۔۔۔۔۔اسکے علاوہ یہ بھی لکھا ہے کہ امریکہ اور پاکستان نے کبھی ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کیا ۔۔
(رابرٹ گیٹس کے دور میں تو پاکستان کو اتحادی اور قابل اعتماد کہا جاتا رہا ہے ۔ کیا وہ سب جھوٹ تھا ؟)
حامد کرزئی نے کہا ہے کہ مجھے امریکہ پر اعتماد نہیں ہے، اِس لیے سیکورٹی کے معاہدے پر دستخط نہیں کرونگا
 ۔۔۔غرض کہ اسی طرح کی بیشمار مثالوں سے دُنیا بھری پڑی ہے۔۔۔کہنے مقصدیہ ہے کہ جھوٹ + ہر قسم 
کا میڈیا مل ملا کر انسان کے سامنے کئی قسم کے ایسے سچ پیش کرتے ہیں کہ: جس سے اصل اور حقیقی سچ  کی 
پہچان جاتی رہتی ہے یوں بداعتمادی اور شکوک جنم لیتے ہیں ۔۔۔
 اب اجازت دیں۔۔۔پڑھنے کا بُہت شُکریہ  
درج بالا خیالات سے اختلاف/اتفاق کرنا ہر پڑھنے والے کا حق ہے 

Saturday, March 22, 2014

" حکمتِ خدا وندی "

منجانب فکرستان
غور و فکر کے معنی : خُدا کی قُربت
درج ذیل خبر سے، صرف نظر نہ کریں 10 کھرب پر غور کریں اور خُدا کے قریب ہوجائیں

 درج بالا ذاتی خیالات پر اختلاف /اتفاق کرنا ہر پڑھنے والے کا حق ہے
تمام شُد 


" وصیت "

 منجانب فکرستان 
لگتا ایسا ہے: ورثا کے آگے  وصیت  بیکار کا پُرزہ ہے۔۔جیسا کا درج ذیل میں ہم خشونت سنگھ اور جواہر 
لال  نہرو کی وصیت کا حشر دیکھیں گے۔۔
خشونت سنگھ کی آخری خواہش (شاید وصیت بھی لکھی ہو )۔۔ کااحترام نہیں کیا گیا۔۔۔کچھ عرصہ پہلے
 ریڈرڈائجسٹ میں خشونت سنگھ کا انٹرویو شائع ہُواتھا جسکی چیدہ چیدہ باتیں،،، "روزنامہ دُنیا " نے بھی
 شائع  کی تھیں، جسمیں سوال تھا۔
سوال:سنا ہے،آپ بہائیوں کے قبرستان میں دفن ہونا چاہتے ہیں؟ جواب:جی ہاں۔۔دراصل میں نہیں
 چاہتا کہ مرنے کے بعد میری چتا جلائی جائے،میں مٹی ہوں اور اسی میں ملنا چاہتا ہوں۔۔مگر مسلمانوں
 اور عیسائیوں نے مجھے اپنے قبرستانوں میں دفنانے سے انکار کر دیا۔بہائیوں نے ہامی بھر لی،مگر یہ شرط 
لگائی کہ وہ اپنی رسوم انجام دینے کے بعد مجھے دفنائیں گے۔۔میں نے کہا،جو مرضی رسم اپنا لینا،مجھے تو
 بس زمین کا رزق بننا ہے،لیکن ورثا نے ایسا نہیں ہونے دیا زمین کے بجائے آگ کے حوالے کردیا۔
٭-------٭-------٭
اسی طرح جواہر لال نہرو کی وصیت بھی ورثا کے آگے بیکار کی چیز  ثابت ہوئی۔۔۔بقول کلدیپ نائر 
جواہر لال نہرو کی تحریری وصیت تھی کہ: وفات پر کوئی مذہبی رسوم ادا نہ کی جائے، اِس وصیت کے
 باؤجود نہرو کی وفات پرتمام ہندوانہ رسوم ادا کیں گئیں،سنسکرت کے منتر گائے گئے، لاش پر کنگا جل 
چِھڑکا گیا۔۔چتا کی لکڑیوں کے ڈھیر کے اُوپر خوشبودار صندل کی لکڑیاں بھی رکھی گئیں، غرض کہ وہ 
تمام رسُومات ادا کیں گئیں کہ : جن کے خلاف وہ زندگی بھر لڑتے رہے۔۔کیا موت پر منافقت ہوگئی 
؟؟؟۔۔
منافقت کیسی وہ تو زندہ نہیں تھے، وصیت کردی تھی، وصیت کا پاس رکھنا ورثا کے ذمہ داری تھی ،جو 
اُنہوں نے  پوری نہیں کی ۔۔۔۔   
اب اجازت دیں ۔۔۔پڑھنے کا بُہت شُکریہ  
نوٹ: بلاگ ذاتی،خیالات و احساسات کے اظہار کا زریعہ ہے، اِن سے  اختلاف/ اتفاق کرنا ہر پڑھنے والے کا حق ہے
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }  

Thursday, March 20, 2014

" خُدا پر ایمان لانے کی شرط "

منجانب فکرستان
کیا دُنیا میں کوئی انسان ایسا ہے کہ جسے سب اچّھا  کہیں ؟؟ ایک بھی تو نہیں، خشونت سنگھ بھی ایک 
انسان تھے۔۔20 مارچ کی صبح 99 سال کی عُمر میں اِنتقال ہوگیا، جو آیا ہے،جانا اُسکا مقدر ٹھہرا ہے۔
ہم دوسروں کو دفناتے ہیں، اپنا مرنا بھول جاتے ہیں۔۔
خشونت نے سکھوں کی تاریخ لکھی لیکن وہ کسی مذہب کو نہیں مانتے تھے،جسطرح یہودی سگمنڈ فرائڈ
نے یہودی مذہب اورحضرت موسیٰؑ  کی حقیقت پر تاریخی حوالوں سے روشنی ڈالی لیکن فرائڈ بھی کسی 
مذہب کے پیروکار نہیں تھے ۔۔۔
خُدا پر ایمان لانے کے بارے میں خشونت سنگھ نے اپنی آٹو بائیو گرافی میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ : بیٹی کی گیند درخت کی شاخوں میں پھنس گئی  تھی ،پتھروں اورچھڑیوں سے نکالنے کے کافی جتن کئے مگر گیند کو نہ آنا تھا  نہ آئی آخر تھک ہار کر کوشش ترک کردی اور آئس کریم کھانے چلے گئے واپسی میں دیکھا تو گیند وہیں پر موجود ہے ۔۔جس پر ایکدم مگر کسی قدر غصے سے کہا کہ اگر یہ گیند نیچے آگئی تو میں یقین کرلوں گا کہ پرماتما (خُدا) ہے ۔۔خُدا کا کرنا ایسا ہُوا کہ اُسی لمحے ہَوا کا جھونکا آیا اور گیند نیچے آگئی ۔۔
لیکن پھر بھی خُدا کو نہ مانا ۔۔خُدا کے بارے میں اُنکا عقیدہ یہ تھا کہ" ہم نہیں جانتے" 
خشونت سنگھ نے وصیت کی تھی کہ اُنکی لاش کو جلانے کے بجائے دفنایا جائے ۔۔۔ورثا وصیت پر عمل کریں گے یا نہیں معلوم ہوجائے گا۔۔۔مزید تفصیل جاننے  کیلئے درج ذیل لنک پر جائیں ۔۔۔
اب اجازت دیں ۔۔۔پڑھنے کا بُہت شُکریہ 
٭۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔٭
نوٹ: بلاگ ذاتی،خیالات و احساسات کے اظہار کا زریعہ ہے، اِن سے  اختلاف/ اتفاق کرنا ہر پڑھنے والے کا حق ہے
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }  
  
  


Sunday, March 9, 2014

کسے وکیل کریں؟ کس سے منصفی چاہیں ؟؟

منجانب فکرستان : مور پپیہا میٹھا بولے: کوئل شور مچائے 
اب تھر میں نہ تو مور میٹھا بول رہے ہیں اور نہ ہی  کوئل شور مچارہی ہے،،،،سب خا موش ہوگئے
 ہیں،یہاں تک کہ اب تو معصوم بچوں نے بھی بھوک سے بلک بلک کر رونا بھی چھوڑ دیا ہے۔۔۔
 مرتے ہوئے بچوں کے دکھوں نے ماؤں کی بھوک کی شدت پر بھی غلبہ پالیا،تھر کے لوگ عرصہ 
 درازسے صبر کے عادی ہیں،اسکی وجہ یہ ہے کہ: 
 کسے وکیل کریں؟ کس سے منصفی چاہیں؟؟ 
ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں 
اختتام

Saturday, March 8, 2014

" عورت میں ہمت "

منجاب فِکرستان : 8مارچ  خواتین کا عالمی دن
 
خالق نے مرد کو جسمانی طاقت زیادہ دی ہے جبکہ ہمت کی طاقت عورت کو زیادہ دی ہے،ظلم سہنے کی ہمت کا
 روپ عافیہ صدیقی ،شجاعتی ہمت کا روپ  چاند بی بی، جھانسی کی رانی، ڈاکو پن میں ہمت کا روپ پھولن دیوی: (ایک
 دیہاتن نے حکومت کو ناک چنے چبوادِیئے)۔ ہمت کی ایک اور مثال :اگر عورت بیمار ہوکر پڑ جائے تو اُس کے
کان کے قریب جاکر کہیں بیگم شاپنگ کیلئے جانا ہے۔ وہ اُٹھ کر پرس اور میک اپ کا سامان ڈھونڈنے لگے گی ۔ 
آزمودہ نسخہ ہے جب چاہیں آزمالیں ۔۔۔ 
"ا حتجاج کا میدان ہو یا کھیل کا، یا ہو کوئی شاپنگ سینٹر خواتین ہر جگہ اکٹیو ملیں گی"
  
اب ہم عورت کے اُس عظیم ترین روپ کا ذکر اِس وڈیو میں کریں گے ۔۔۔اِس روپ کو دیکھنے کیلئے آپکو صرف یہ کرنا ہے کہ آنکھیں بند کر کے لیٹ جائیں اور اپنی ماں کو تصور مین لائیں ،سب کچھ بھول جائیں وڈیو کے بولوں میں کھو جائیں ۔۔۔مجھے اجازت دیں۔۔ پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔۔۔                                                                                        
 
نوٹ: بلاگ ذاتی،خیالات و احساسات کا اظہار ہے، اِن سے  اختلاف/ اتفاق کرنا ہر پڑھنے والے کا حق ہے
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }      

Thursday, March 6, 2014

جنسی حملوں کا گراف بلند کیوں ہورہا ہے؟؟

 منجانب فکرستان 

زمین پر چلتی بس ہوکہ فضاء میں تیرتا جہاز یہاں تک کہ اُوپر جاتی لفٹ ہوکہ نیچے آتی ،یہ حملہ ہوجاتا 
ہے،  دُنیا میں اب کوئی جگہ  ایسی  خالی بچی نہیں رہی کہ: جہاں پر  اس طرح کے حملوں نہ ہوتے ہوں 
،سوال یہ ہے کہ : آجکل کے مردوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ وہ نہ چلتی بس دیکھتا  ہے، نہ اُڑتا جہاز، نہ 
معاشرے کی طرف دیکھتا ہے نہ قانون کی طرف اور نہ  ہی اپنی 61 سالہ ڈھلتی عُمر کی طرف دیکھتا 
ہے۔۔ آخر اِس اندھے پن کی کیا وجہ ہے ؟؟ کیوں ان حملوں میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ؟؟ 
 اِن سوالوں کے جوابات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ میرے نزدیک اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں، ایک میڈیا اور دوسری وجہ خود عورت ہے۔۔۔۔ ہر قسم کا میڈیا  رات دن جنسی ترغیبات دیتا رہتا ہے، یوں انسان اصول ہپناٹیزم کے زیر اثر آجاتا ہے ۔۔۔۔۔سونے پہ سہاگہ عورتیں ایسا لباس پہنتی ہیں کہ جس سے جسمانی خدوخال نظر آتے ہیں ، سولہ سنگار کرتی ہیں گویا  پورا سامان تیار ہے مرد کے جنسی جذبات کو  بھڑکانے کا ۔میڈیا کی ترغیباتِ جنسی اور عورت کا حشرسامانیانِ جنسی تیج پال (تہلکہ ڈاٹ کام کے بانی مدیر ) جیسا شریف بااخلاق،اصول پرست انسان بھی  بیٹی کی ہم عُمر  ساتھی صحافی پر جنسی حملہ کر بیٹھا ۔۔۔۔
میڈیا کی ترغیباتِ جنسی جہاں نوجوان کو جنسی شوقِ تجسس میں مبتلا کرتی ہیں، وہیں بڑوں کو بھی ورغلاتی ہیں ۔۔۔میڈیا پوری دُنیا کو جنسیات کی آگ میں جھونک رہا ہے، انگریزی فلمیں تو رہیں ایک طرف، بھارت کی ہندی (اردو) فلموں کی پہچان بھی  ہاٹ سین ، ہاٹ ڈانس ہیں اور تو اور مذہبی سائٹس پر بھی یہ آگ نظر آتی ہے، اور کلک کرو کہتی ہے، تب یوں لگتا ہے جیسے یہ آگ منہ چُڑاکر کہہ رہی ہو کہ: بچ کے کہاں جاؤ گے بچو: جہاں  بھی جاؤگے ، وہیں مجھے پاؤ گے ۔۔۔ غرض کہمیڈیا کی ترغیباتِ جنسی اور عورت کی حشرسامانیانِ جنسی (لباس میک اپ) مل کر  جنسی حملوں کے گراف کو بڑھاوا دے رہے ہیں ۔۔۔ اب اجازت دیں ۔۔۔پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔۔۔  
نوٹ: بلاگ ذاتی دلچسپیوں، خیالات و احساسات  کی شیئرنگ ہے، اِن سے  اختلاف/ اتفاق کرنا ہر پڑھنے والے کا حق ہے
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }      
   

   

" دُنیا میں پھیلتا ناسور "

منجانب فکرستان  
"سروں کے مینار سجانا درج بالا ظلم و بربریت کے آگے" ہیچ "ہے"
پوری کائنات میں اس نوعیت (ہیئت) کی غیر انسانی ظلم و بربریت کی کوئی دوسری مثال
 موجودنہیں ہے۔۔۔
امیرو غریب کے درمیان بڑھتے فرق کے ساتھ غیر انسانی  ظلم و بربریت کا یہ ناسور بھی 
بڑھتا اور پھیلتا جا رہا ہے۔۔۔ایسے میں کوئی حِساس شاعر شکوہ کر بیٹھتا ہے ۔۔
 "دُنیا بنانے والے: کیا تیرے من میں سمائی: کاہے کو دُنیا بنائی؟؟ 
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }  

Wednesday, March 5, 2014

"بلا عنوان "

منجانب فکرستان 
 وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ = ایک رنگ درج ذیل ہے۔
  چھوٹے بچے،سمجھ نہیں پارہے تھے،بڑوں کا دھاڑیں مار کر یوں رونا دیکھ کر ڈر گئے سمجھے کہ:اب
 کوئی بڑی آفت آنے والی ہے ۔۔۔زور زور سے چیخیں مار کر رونا  شروع کردیا۔۔۔
 لطیفہ: دیدی آپ نے کہا تھا جب تیری شادی ہونے والی ہوگی، تُجھے ایک گُر کی بات سمجھاؤں گی،
 اب میری شادی ہونے والی ہے مجھے وہ گُر کی بات سمجھاؤ نا۔۔
دیدی: دیکھ شوہر سے چھوٹا موٹا مطالبہ منوانا ہو تو ایک بار رونا پڑتا ہے اور اگر مطالبہ بڑا ہو اور شوہر مطالبہ پورا کرنے میں آنا کانی کررہا ہو تو ایک بار اور رونا پڑتا ہے۔۔۔ بس یہ گُر کی بات اپنے پلو میں باندھ لے ۔۔۔ 
نوٹ: بلاگ ذاتی دلچسپیوں، خیالات و احساسات  کی شیئرنگ ہے، اِن سے  اختلاف/ اتفاق کرنا ہر پڑھنے والے کا حق ہے
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }    

   

Tuesday, March 4, 2014

کس نے کیا کہا ؟؟

 منجانب فکرستان 
صوبائی ترجمان جماعت اسلامی جناب اسراراللہ نے  کہا  کہ اتحادیوں کو اعتماد میں لیے بغیر عمران خان نے نیٹو سپلائی
 کا دھرنا ختم کردیا،صحت کا انصاف پروگرام بھی حکومتی کی بجائے پارٹی پروگرام میں تبدیل کردیا،اتحادی حکومتیں
 اسطرح نہیں چلائی جاتیں ۔۔۔
جمشید دستی کے بارے میں جنگ کے کالم نویس جناب حذیفہ رحمان کا کہنا ہے کہ:2010-11  کے بدترین سیلاب
 کی میڈیا کوریج کے دوران  میں نے دیکھا  کہ  ہر چیز ڈوب رہی تھی ، ایسے میں جمشید دستی جان کی پرواہکئے بغیر
 خود تیراکی کرکے عوام کی زندگیاں بچانے میں لگے ہوئے تھے " مزید آگاہی کیلئے کالم مکمل پڑھنا چاہیں تو لنک پر جائیں۔۔۔
اخبار جنگ کے ہی ایک اور کالم نویس جناب عدنان رندھاوا اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ:" اراکینِ اسمبلی اور پارٹی قائدین کے کچھ کارنامے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں جو جمشید دستی والے الزامات کا احاطہ کرتے ہیں ، جی چاہتا ہے بلاجھجک تفصیل لکھ دوں، پھر سوچتا ہوں کہ اگر مجھ سے بھی ثبوت مانگ لئے گئے تو کہاں سے لائوں گا"۔۔
مزید آگاہی کیلئے  کالم مکمل  پڑھنا چاہیں تو لنک پر جائیں۔۔۔ مجھے اجازت دیں ۔۔۔پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔۔۔
جناب حذیفہ رحمان http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=176962 
 جناب عدنان رندھاوا  http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=177512
نوٹ: بلاگ ذاتی دلچسپیوں، خیالات و احساسات کے اظہار کا زریعہ ہے، اِن سے  اختلاف/ اتفاق کرنا ہر پڑھنے والے کا حق ہے
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }    

Saturday, March 1, 2014

" مادی خوشی، روحانی خوشی" کون بنے گا کروڑ پتی"

 منجانب فکرستان
حالات سے باخبر رہنے کیلئے خبروں کی چلتی پٹیاں  دیکھتا ہوں، ورنہ  تو ایک عرصہ دراز بیت گیا : کسی قسم کا  کوئی
ٹی وی  پروگرام نہیں دیکھا۔۔کل بھی چینل بدل شغل میں مصروف تھا کہ"  کون بنے گا کروڑ پتی پر رُک گیا" یا 
یوں کہیں کہ حصّہ لینے والی نوجوان لڑکی کے بھولپن نے مجھے چینل تبدیل کرنے سے روک دیا، پروگرام دیکھا، 
مادی  خوشی، روحانی خوشی کو دیکھا !!۔۔
میں نے دیکھا  کم عُمر (نو جوان) بھولی بھالی لڑکی  25 لاکھ کا چیک جیت جاتی ہے، جس سے لڑکی کے چہرے پر خوشی کی جھلک نظر آتی  ہے ۔۔پیسہ یعنی مادی خوشی کی جھلک ۔۔۔ لیکن دل ہی دل میں وہ روحانی خوشی حاصل کرنے کیلئے۔۔۔ منصوبہ بندی بھی  کر رہی تھی ۔۔ بالآخر اُس نے امیتابھ بچن سے کہا سر میں آپ کے ساتھ رقص کرنا چاہتی ہوں، امیتابھ بچن نہ صرف قد میں بڑے ہیں، بلکہ اخلاقی قدر میں بھی  بُلند ہیں، اُنہوں نے لڑکی کی پیش کش کو قبول کیا ،۔۔۔ امیتابھ کے ساتھ رقص، لڑکی  کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی، رقص کرتے میں یہ دمک قابلِ دید تھی، بہت معصوم بُہت روحانی تھی ۔۔۔یہ ویسی ہی روحانی تھی، جیسے کسی  کیوٹ بچّے کو دیکھ کر انسان کے اندر جاگتی ہے جو دوسرے لمحے بچّے کو بھینچ لیتی ہے ۔۔۔ اِس روحانی خوشی کا مذہبی روحانیت سے کوئی تعلق نہیں  ہے ۔۔۔۔
ممکن  ہے کہ: قارئین دوستوں میں سے کسی دوست نے ہفتہ کے دن دُنیا چینل پر وہ شو اور اُس نوجوان لڑکی کا امیتابھ کے ساتھ کیا گیا  مختصر مگر خوبصورت رقص دیکھا ہو۔۔۔۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں جو محسوس کرتا ہوں،  وہ لکھ دیتا ہوں۔۔ اِس شو میں بھی لڑکی کے تاثرات و احساسات کو جیسا میں نے محسوس کیا ویسا لکھ دیا ۔اب اجازت دیں ۔۔پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔۔۔
 بلاگ: ذاتی دلچسپیوں، خیالات اور احساسات کے اظہار کا زریعہ ہے اِن سے  اختلاف/ اتفاق کرنا: ہر پڑھنے والے کا حق ہے
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }         

" پہلا پتھر وہ مارے"

منجانب فکرستان
جمشید دستی یا بدعتی سے ہر کوئی  یہ کہہ رہا ہے۔۔ اِدھر اُدھر جھانکنے سے پہلے، اپنے گریبان میں جھانکتے ۔۔
 یعنی:  پہلا پتھر وہ مارے ۔۔۔۔۔ اورکسی نے پتھر نہ  مارا ، کہانی ختم ۔۔ 

بشکریہ روزنامہ دُنیا لاہور
نوٹ: درج بالا باتوں سے اختلاف/ اتفاق کرنا: ہر پڑھنے والے کا حق ہے