Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Tuesday, July 30, 2013

مذہب عیسائیت میں یہ کیسا انقلاب آیا ہے ؟؟

منجانب فکرستان :  گُناہِ کبیرہ : خون : سچ ہےکہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
انسانوں کو اِسی دُنیا میں  "جنّتی / دوزخی"  کا سر ٹیفیکٹ دینے والے گویا خُدا کے کرنے کے فیصلے خُود کرنے والے عیسائی مذہب کے ٹھیکیدار پادریوں کے سربراہ پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ " ہم جنس پرستی" پر فیصلہ دینے والا میں کون ہوتا ہوں ؟؟؟
 اُنہوں یہ بات اِس تناظر کی روشنی میں کہی ہے کہ " اگر کوئی شخص ہم جنس پرست ہے اور خُدا کو چاہتا ہے اور نیک نیت ہے تو پھر میں کون ہوتا ہوں اُس کے بارے میں فیصلہ صادر کرنے والا
 جبکہ:اِسی مذہب نے کسی شخص  کی کہی ہوئی بات پر/ لکھی ہوئی بات پر/ دوسرے فرقوں پر / دوسرے مذاہب پر جہنمی ہونے کے فیصلے دئیے ہیں، اِن فیصلوں نے خُدا کی مخلوق کو کس طرح سے خونمیں نہلایا تاریخ گواہ ہے ۔۔   
مگر آج اُسی عیسائیت میں یہ کیسا انقلاب آگیا ہے کہ: پوپ صاحب  کہہ رہے  ہیں،  اگر کوئی شخص ہم جنس پرست  یعنی  گُناہ کبیرہ  کا  ہی مرتکب کیوں نہ ہُوا ہو لیکن خُدا کو چاہتا ہے اور نیک نیت ہے تو پھر میں کون ہوتا ہوں اُس  کے بارے میں فیصلہ صادر کرنے والا۔۔
  " سچ ہے کہ فیصلہ رب ہی نے دینا ہے" 
پوپ کے بیان کی مزید تفصیل اگر پڑھنا چاہیں تو لنک پرجائیں 

  نوٹ:: رائے سے اختلاف /  اتفاق  کرنا  ہر ایک  کا حق ہے۔۔ اب مجھے اجازت دیں ۔۔آپکا بُہت شُکریہ۔۔
    { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }

Saturday, July 27, 2013

" شادی کی رسمیں" طلاق سے بچاتی ہیں "

 منجانب فکرستان: سندھ ؛ کُنڈ جی رسم؛ زیادہ طلاقیں
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بعد رمضان شادیوں کا موسم شروع ہوجائے گا۔۔ شادی بیاہ کی رسموں کو بُہت سے لوگ فُضول سمجھتے ہیں، جبکہ میرے خیال میں  شادی کی یہ رسمیں طلاق کی شرح میں کمی کا باعث ثابت ہوتی ہیں۔۔ زیادہ تر رسمیں لڑکی سے متعلق ہوتی ہیں اور  اِن رسموں میں اسرار  پایا جاتا ہے، ۔
 سندھ کے بعض حصّوں میں "کُنڈ جی رسم" یعنی" کونے کی رسم" ادا کی جاتی جو دراصل مایوں کی ہی رسم  ہے۔۔ اِس رسم میں دُلہن بننے والی کا چہرہ گوٹے کناری لگے کپڑے کے نقاب سے  چُھپا دیا جاتا ہے جس میں دیکھنے کیلئے دو سوراخ ہوتے ہیں اور اسے کمرے کے ایک کونے میں بٹھادیا جاتا ہے جس بنا پر اس رسم کو کُنڈ جی رسم کہتے ہیں۔۔
 لڑکی جب مایوں ،مہندی و دیگر رسوماتی مرحلوں سے گُذر کر شادی کا مرحلہ طے کرتی ہے،تو یہ تمام باتیں اُسکے ذہن پر اثر پزیری اثر چھوڑتی ہیں جو طلاق لینے کا سوچتے  وقت لاشعوری مزاحمت  کا کردار ادا کرتی ہیں ، اسطرح طلاق لینے سے باز رکھتی ہیں ۔۔
"  ثبوت یہ  ہے کہ جن قوموں  میں شادی کی رسومات نہیں ہوتی ہیں،اُن قوموں  میں طلاقیں زیادہ ہوتی ہیں"۔۔

  نوٹ:: رائے سے اختلاف /  اتفاق  کرنا  ہر ایک  کا حق ہے۔۔ اب مجھے اجازت دیں ۔۔آپکا بُہت شُکریہ۔۔
    { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }

Thursday, July 25, 2013

" عذابِ قبر سے متعلق " امام غزالی کی رائے "

  منجانب فکرستان:- عذابِ قبر؛ امام غزالی؛ احیاءالعلوم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عذابِ قبر سے متعلق  کچھ لوگوں کے دل میں یہ خیال آتا ہوگا کہ ہندو مت میں لاش جلا دی جاتی ہے ،پھر عذابِ قبر کیسا ؟ ؟ پارسی لاش چیل کوؤں کو کِھلا دیتے ہیں پھر عذابِ قبر کیونکر ممکن ؟؟ ڈوب کر مرنے والوں کی لاش مچھلیاں کھاجاتی ہیں پھر عذابِ قبر کس طرح ؟؟
اِسبارے میں امام غزالی نے اپنی کتاب احیاء العلوم میں وضاحت کی ہے ۔جس کے اردو ترجمہ کا خلاصہ اسطرح سے ہے کہ:
بے شک لوگوں نے کافروں کی قبریں کھول کر دیکھیں ہیں، تاہم ان قبروں میں سانپ بچھو کہیں نظر نہیں آئے ایسے میں عذاب ِ قبر کا کیسے یقین آئے ؟ اِس بارے میں تین احتمال ہیں :
پہلا احتمال یہ ہے کہ کافروں کی قبروں میں سانپ بچھو ہوتے ہیں اور یہ کاٹتے بھی ہیں چونکہ یہ عالمِ ملکوت کے واقعات ہیں اور عالمِ ملکوت کے واقعات اِن آنکھوں سے نہیں دیکھے جاسکتے ہیں۔۔۔
دوسرا احتمال یہ ہے کہ عذابِ قبر کو خواب کے واقعات پر قیاس کیا جائے ،خواب میں سانپ  بچھو کاٹنے پر جو تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ یہی تکلیف عذابِ قبر ہے۔۔
تیسرااحتمال یہ ہے کہ مرنے کے بعد اُسکو روحانی تکلیفیں ہونگی  جِسے سانپ بچھو کے کاٹنے  سے تعبیر کیا گیا ہے ۔۔۔  
 نوٹ:: رائے سے اختلاف /  اتفاق  کرنا  ہر ایک  کا حق ہے۔۔ اب مجھے اجازت دیں ۔۔آپکا بُہت شُکریہ۔۔   
 { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }

Wednesday, July 24, 2013

" یہ آنسو میرے دل کی زبان ہے "

 منجانب فکرستان:بابر اعوان کے آنسو: کالم: زعمِ تقویٰ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ناچنے،گانے، بجانے والوں کو مذہبی لوگ اچّھی نظر سے نہیں دیکھتے۔۔عارف لوہار پی ٹی وی پروگرام میں مہمان تھے ، میزبان خورشید ندیم نے وقفہ ہونے پر غیر رسمی گفتگو میں عارف سے ادائیگی عمرے کی کیفیت پوچھی  تو عارف لوہار کے آنکھوں سے بے اختیار آنسوجاری ہوگئے الفاظ اِتنے رُوند گئے کہ ادائیگی مشکل ہوگئی۔ اِن آنسوؤں   سے پیدا ہونے والے احساسات کو میزبان نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ:
 میں مذہبی لوگوں میں پلا بڑھا ہوں، مجھ سمیت کتنے اہل مذ ہب ہیں جنہیں یہ کیفیت نصیب ہوتی ہے ؟؟
ہم جو خود کو مذہبی کہتے ہیں اور دوسرے کے کفروایمان کا فیصلہ کرتے ہیں ،بعض طبقات کے بارے میں بزعمِ خویش یہ طے کر رکھا ہے کہ دین اور آخرت سے انکا کوئی واسطہ نہیں، آخرت تو ہمارے لیے ہے جو دین کے علمبردار بن کر جیتے ہیں۔دین کا بھرم تو ہم سے ہے ۔ہم نہ رہے تو اِس زمین میں  کون ہے جو اُسکا نام لیوا ہوگا ۔ لیکن عارف لوہار کے آنسو تو ایک دوسری کہانی سُنا رہے تھے ۔۔۔انسانوں کے ظاہر کیا معلوم کہ اُن کے باطن  سے کتنے مختلف ہیں ۔۔
عارف لوہار کے آنسوؤں کا پیغام یہی ہے، جو چار دن سے میرے دل پر ٹپک رہے ہیں ۔۔۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 عمرے کے ایک سفر میں خورشید ندیم کے ساتھ بابر اعوان بھی اُنکے ہمسفر تھے وہ اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ:
 حجرہ عائشہ  کے سامنے کھڑے ہوکر بابراعوان نے دُعا کیلئے ہاتھ اُٹھائے تو آنسو الفاظ پر سبقت لے گئے ،اور بلک بلک کے رونے لگے ۔۔۔مزید لکھتے ہیں کہ:
ہم اپنی دانست میں افراد کے بارے میں ایک فیصلہ صادر کرتے ہیں، یہ خیال کرتے ہوئے کہ ہم اپنی نیکی اور تقویٰ کے باعث عدالت کی کرسی پر برجمان ہیں،جہاں سے دوسروں کے ایمان اور اُخروی انجام کا فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ رویہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم اپنی ذات سے بے خبر زعمِ تقویٰ کے مرض کا شکار ہوجاتے ہیں ۔۔۔ہمیں کیا معلوم جسے ہم بہ زعمِ خویش راندہء درگاہ سمجھ بیٹھے ہوں وہ اپنے آنسوؤں کی بدولت پار ہوجائے اور ہمارا زعم ہمیں لے ڈوبے ۔۔۔
درج ذیل لنک کالم میں عارف لوہار کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔۔۔
درج ذیل لنک کالم میں ذوالفقار علی بھٹو اور بابراعوان کا تذکرہ  پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے

 نوٹ:: رائے سے اختلاف /  اتفاق  کرنا  ہر ایک  کا حق ہے۔۔ اب مجھے اجازت دیں ۔۔آپکا بُہت شُکریہ۔۔   
 { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }

Monday, July 22, 2013

بھائیو: بحث کیوں کر رہے ہو؟؟

منجانب فکرستان: ساتھی ؛ دشمن؛ مذہبی جہات  
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 کُچھ لوگوں کا انداز فکر سائنسی  کٹر پن کا حامل ہے، تو کُچھ لوگ مذہبی کٹر پن میں مبتلا ہیں، دونوں ایک دوسرے کے اندازِِ فکر کو باطل قرار دیتے ہیں، جبکہ انسانوں کا  تیسرا  گروہ کہتا ہے بھائیو: بحث کیوں  کر رہے ہو ؟ تم دونوں ایک ہی بات کہہ رہے ہو، فرق صرف کہنے کے اندازکا ہے۔۔۔
The da vinci codeاور Inferno بیسٹ سیلر کتابوں  کے مصنف "ڈین براؤن"  کا تعلق اِسی تیسرے گروہ سے ہے اُن کے خیالات کُچھ اسطرح کے ہیں۔۔۔۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اپنی کتابوں میں ڈین براؤن نے جس  (نئے) انداز سے مسیحیت کو پیش کیا ہے۔۔۔ اُس پر ویٹی کن کے نمائندے اُن سے کافی ناراض ہیں۔ خود براؤن ہرگز نہیں سمجھتے کہ مذہب اور سائنس کے درمیان کوئی تضاد پایا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جتنا زیادہ اُنھوں نے الجبرا یا طبیعیات پر غور کیا ہے، اتنا زیادہ اُن پر مذہبی جہات کے دَر وَا ہوتے چلے گئے ہیں۔۔
وہ کہتے ہیں ’’ آج کل اُنھیں اس بات کا یقین ہے کہ سائنس اور مذہب در حقیقت دو مختلف زبانیں ہیں، جو ایک ہی کہانی بیان کرتی ہیں، یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، دشمن نہیں‘‘۔
 ڈین براؤن 1964ء میں امریکی ریاست نیو ہیمپشائر میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد الجبرا کے پروفیسر تھے جب کہ والدہ موسیقار تھیں۔ ہنگامہ خیز ناولوں سے شہرت پانے سے پہلے اُنھوں نے انگریزی زبان کے اُستاد کے طور پر کام کیا۔ اپنے سنسنی خیزی، سائنسی اور تاریخی موضوعات اور سازشی نظریات سے عبارت ناولوں کی وجہ سے وہ پوری دنیا میں گزشتہ چند عشروں کے کامیاب ترین ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔۔۔ 
 ڈین براؤن کے بارے میں درج بالا حقائق ذیل لنک سے حاصل کئے ہیں مزیدتفصیل کیلئے لنک پر جائیں ۔۔۔
http://www.dunya.com.pk/index.php/special-feature/2013-07-17/4943#.UeYbY9Jge5w
    نوٹ:: رائے سے اختلاف /  اتفاق  کرنا  ہر ایک  کا حق ہے۔۔ اب مجھے اجازت دیں ۔۔آپکا بُہت شُکریہ۔۔
    { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }

Saturday, July 20, 2013

استثنیٰ ؟؟

 منجانب فکرستان: خواص؛ قُرآن و سُنت
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سابقہ پوسٹ "کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے؟؟؟" میں لکھا تھا کہ خواص کی اسمبلیاں ہیں خواص مفاد قانون سازی کرتی ہیں۔۔ جیسے آجکل یوسف رضا گیلانی خواص کیلئے بنے قانون کا حوالہ دیکر کہہ رہے ہیں، مجھے کوئی گرفتار نہیں  کر سکتا ہے؟؟مجھے پارلیمنٹ سے استثنیٰ حاصل ہے۔۔ مزید کہہ رہے ہیں کہ: مجھے گرفتار کرنا آئین اور پارلیمنٹ کی تذلیل کرنے کے مترادف ہے۔۔۔       
آئین کے بارے میں میری معلومات اخبارات میں پڑھی باتوں تک محدود ہے ۔۔۔کہا جاتا ہے کہ آئین میں کوئی بات ایسی نہیں ہوسکتی ہے، جو قُرآن اور سُنت سے متصادم ہو پھر یہ استثنیٰ کا قانون کیا قُرآن و سُنت کے مُطابق ہے یا متصادم ہے ؟؟؟
  نوٹ: رائے سے اختلاف /  اتفاق  کرنا  ہر ایک  کا حق ہے۔۔ اب مجھے اجازت دیں ۔۔آپکا بُہت شُکریہ۔۔
    { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }

Friday, July 19, 2013

یہ شرم کی بات نہیں ہے ؟؟؟

 منجانب فکرستان:: خود ساختہ: بالآخر: عمران خان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جمہوریت جمہوریت الاپنے والے جمہوریت کی روح  بلدیاتی انتخابات کا سالوں سے  گلا دبائے بیٹھے ہیں کہ:ہمارے اختیارات میں کمی ہوجائیگی، خدشہ یہ بھی ہے کہ: مبادا جمہوریت کی اِس نرسری سے اپنی  کارکردگی کی بنیاد پر کچھ نئے چہرے اسمبلیوں میں نہ پہنچ جائیں، جس سے سدا  کیلئے ہم ہی  خادمِ پنجاب ہم ہی قائمِ سندھ رہنے کا خواب نہ بکھر جائے۔۔۔
 سابقہ پانچ سالوں میں عوام کو بے وقوف سمجھتے ہوئے بلدیاتی الیکشن نہ کرانے کے خودساختہ بے وزن حیلے بہانے گھڑ تے رہے ،اور اب بھی آنا کانی کر رہے ہیں کہ حلقہ بندیوں کا سیٹ اپ تیار نہیں ہے ۔۔سوچنے کی بات یہ کہ پانچ سال تک اِنکی حکومت رہی ہے،اس دوران عوام کو دلاسے دیتے  رہے کہ  ہم جلد بلدیاتی انتخابات کرا رہے ہیں!!! لیکن 5 سالوں میں بلدیاتی الیکشن کرا کے  نہ دئیے ۔۔۔: کیا یہ آمرانہ عمل نہیں ہے ؟؟ کیا یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں ہے؟؟ کیا یہ جمہوریت کے نام پر عوام کے ساتھ دھوکہ نہیں ہے ؟؟؟
  بالآخر صوبائی حکومتوں  کی پینترے بازیوں  کو دیکھتے ہوئے، سپریم کو کہنا پڑا ہے کہ " حکومت بلدیاتی انتخابات کی تاریخ دے ورنہ ہم دیں گے"۔۔جمہوریت کی دعویدار حکومتوں کیلئے : یہ شرم کی بات نہیں ہے؟؟؟
اب بھی کوشش یہ کی جارہی ہے کہ ٹال مٹول سے کام لیکر اتنا وقت گُذارا جائے کہ چیف جسٹس صاحب ریٹائرد ہوجائیں۔۔۔ یا پھر بلدیاتی نظام  میں  قومی مفاد کے نام پر اپنے مفاد کی ایسی ترمیمات  شامل کی جائیں  کہ بلدیاتی نظام کا چہرہ مسخ ہوکر رہ جائے۔۔۔
خواص کی اسمبلیاں ہیں خواص مفاد قانون سازی کریں گی ۔۔۔۔عوام کا کیا ہے سابقہ 5 سالوں کی طرح آئندہ 5 سالوں کیلئے بھی بے بس رہیں گے ۔۔۔
اگرعمران خان کی  "پی ٹی آئی "حقیقی عوامی بلدیاتی نظام رائج کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یقیناً اِسکا کچھ نہ کچھ اثر دوسروں پر بھی پڑے گا کیونکہ:  یہ قدرت کا قانون ہے۔۔ 
    نوٹ:: رائے سے اختلاف /  اتفاق  کرنا  ہر ایک  کا حق ہے۔۔ اب مجھے اجازت دیں ۔۔آپکا بُہت شُکریہ۔۔
    { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }


     

Monday, July 15, 2013

ایسا کیوں ہے ؟؟؟

منجانب فکرستان:: خودکشی : قومی : مذہبی : اضطراب 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
افغانستان میں 2012 کے دوران خودکشی کرنے والے برطانوی فوجیوں کی تعداد طالبان سے لڑائی میں مرنے والے فوجیوں سے زیادہ ہے (بی بی سی)۔۔۔
جبکہ اِسی جنگ کے دوسرے فریق طالبان میں خود کشی کا ایسا رحجان نہیں پایا جا تا ہے۔۔ ممکن ہے میری طرح آپکے ذہن میں بھی یہ سوال پیدا ہُوا ہو کہ ایسا کیوں  ہے؟۔۔ 
جس طرح رب نے آنکھ کو دیکھنے کی، کان کو سُنے کی،زبان کو ذائقہ محسوس کرنے کی فطرت عطا کی ہے اِسی طرح انسانی عقل کو یہ فطرت عطا کی ہے کہ وہ عقل سے دلیل مانگتی رہتی ہے اور پوچھتی رہتی ہے۔۔ایسا کیوں ہے ؟؟ عقلی فطرت کے اسی سوال ایسا کیوں ہے ؟ انسان کی ساری ترقی ایساکیوں ہے؟؟ کے سوال پر مشتمل ہے۔۔ 
اِس تمہید کی روشنی میں میری رائے یہ ہے کہ دلیل کی طالب عقل کو طالبان نے مذہبی اور غاصبانہ جارحیت کی دلیل فراہم کی ہوئی ہے ۔۔ اُنہوں نے عقل کو بتا دیا ہے کہ وہ نان مسلم سے آزادی کیلئے جہاد کر رہے ہیں، گویا قومی اور مذہبی جواز۔۔ یہ دونوں جواز انسانی عقل کیلئے نہایت طاقتور دلائل ہیں۔۔۔
 یوں طالبان کیلئے یہ جنگ بِلا وجہ کی جنگ نہیں کہلاتی ہے، دلیل پر مبنی جنگ کی وجہ سے طالبان کو عقلی، اخلاقی اور جذباتی سپورٹ حاصل ہے، یوں اِنکی عقل اضطراب میں مبتلا نہیں ہوتی ہے۔۔ اسلئیے خودکشی کا رحجان بھی اِن میں نہیں پایا جاتا ہے ۔۔
  جبکہ برطانوی فوج کیلئے یہ جنگ بِلا وجہ کی جنگ ہے۔۔یوں برطانوی فوج کو اِس جنگ میں عقلی، اخلاقی اور جذباتی سپورٹ حاصل نہیں ہے ۔۔اِن فوجیوں کو جنگ میں جھونکنے والوں نے جو خودساختہ جواز تراشے ہیں وہ اتنے کمزور ہیں کہ عقل کو مطمئین نہیں کرتے ہیں یوں اِن فوجیوں کی عقل اضطراب میں مبتلا ہوکر ڈس آرڈر والی سطح پر آجاتی ہے۔۔ جو بالآخر  خودکشی کا باعث بنتی ہے۔۔ 
    مزید یہ کہ جن ملکوں میں مذہب کی گرفت مظبوط ہے وہاں معاشی بدحالی کے باوجود خودکشیوں کی تعداد کم ہے۔۔ اور جن ملکوں میں مذہب کی گرفت ڈھیلی پر گئی ہے، وہاں معاشی بدحالی نہ ہونے کے باوجود خودکشیوں کی تعداد زیادہ ہے ۔۔ایسا کیوں ہے ؟؟؟۔۔
ایسا اِسلئیے ہے کہ مذاہب زندگی کو معنی دیتے ہیں یعنی زندگی کو عقلی جواز فراہم کرتے ہیں، مذاہب کے پیروکار مذہب کے فراہم کردہ دلائل کو قبول کرتے ہیں جس سے اُنکی  زندگی کو مقصد مل جاتا ہے ۔۔جبکہ لامذہب کو زندگی بے مقصد لگتی ہے، اُسکو زندگی میں معنی نہیں ملتے ہیں( جسطرح برطانوی فوجیوں کو افغان جنگ کے معنی نہیں ملتے ہیں) یوں اُسکی عقل اضطراب میں مبتلا رہتی ہے،  بعض کو یہ اضطراب خودکشی کی جانب راغب کرتا ہے ۔۔یہی وجہ ہے کہ لا مذہب لوگ زیادہ خودکشیاں کرتے ہیں ۔۔۔ 
  نوٹ:: رائے سے اختلاف /  اتفاق  کرنا  ہر ایک  کا حق ہے۔۔ اب مجھے اجازت دیں ۔۔آپکا بُہت شُکریہ۔۔
    { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }

Monday, July 8, 2013

" جواز زندگی "

 منجانب فکرستان:: عقل: دلائل: لینن
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
انسانی عقل میں رب نے ایسی فطرت رکھی ہوئی ہے کہ بغیر دلیل (جواز) وہ کسی بات کو قبول نہیں کرتی ہے، عقلی فطرت  کی  اِس طلب کو عقل ہی پورا کرتی رہتی ہے۔ لیکن کائنات میں بُہت سی باتیں ایسی  ہیں جس کا احاطہ عقل نہیں کرسکتی ہے۔۔ لیکن عقلی فطرت اُن کیلئے بھی دلیل مانگتی ہے ۔۔۔
چاہے وہ کائنات کی تخلیق ہو کہ انسان کی پیدائش یا موت یا پھر زندگی میں معنی تلاش کرنا اِن جیسی دیگر کئی باتوں کو  مذاہب قابلِ فہم دلائل فراہم کرتے ہیں ۔۔انسانوں کی ایک بڑی تعداد کی عقلی فطرت مذاہب کے فراہم کردہ اِن دلائل کو  قبول کرتی ہے ۔۔اور اِن پر پکا یقین رکھتی ہے،  پکے یقین سے ہی  انہیں اطمینانِ  ِقلب حاصل ہوتا ہے۔۔ اوراطمینان قلب اِس لیے حاصل ہوتا ہے کہ دلائل کی طالب عقلی فطرت کو دلائل مل جاتے ہیں ۔ یوں بے معنی  زندگی کو  معنی مل جاتے ہیں۔۔
 اور جن  لوگوں کی عقلی فطرت مذاہب کے فراہم کردہ  دلائل سے مطمئن نہیں ہوتی ہے، اُنہیں زندگی کے معنی بھی نہیں ملتے ہیں۔ اُنکی عقلی فطرت  بھٹکتی  رہتی ہے۔۔ علامہ اقبال نے تذبزب کی اِس کیفیت کو ( لینن کے حوالے سے ) ِاس شعر میں ڈھالا ہے۔۔
میں  کیسے سمجھتا   کہ تو  ہے  یا  کہ نہیں ہے 
ہر   دم   متغیر   تھے   خرد     کے    نظریات
نوٹ:: رائے سے اختلاف /  اتفاق  کرنا  ہر ایک  کا حق ہے۔۔ اب مجھے اجازت دیں ۔۔آپکا بُہت شُکریہ۔۔
    { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }

Wednesday, July 3, 2013

ڈاکومنٹری چینل اور خُدا کا شُکریہ

منجانب فکرستان:  گینڈا: شیر: کہانی نہیں حقیقت
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ڈاکومنِٹری چینل پر دیکھا کہ گینڈے کے جسم کے ایک حصے پر خراشیں آئی ہوئی ہیں، جن سے خون رِس رہا ہے ،رِستا خون مکھیوں کیلئے گویا دعوت تھی۔۔ مکھیاں جسم پر بیٹھ کر خون پیتیں۔گینڈا جسم تھرتھراکر اُنہیں بھگاتا۔۔ کُچھ اُڑجاتیں کُچھ ڈھیٹ بیٹھی رہتیں ،جو اُڑتیں، دوبارہ خون پینے آ بیٹھتیں۔۔ غرض کہ گینڈا پریشانی میں جسم  کو تھرتھراتے ہوئے اِدھر اُدھر بھاگتا ہے ،لیکن مکھیاں اُسے چین لینے نہیں دیتیں ، آخرِکار گینڈا بے چین ہو کر  رِستے  خون کی جانب اپنے آپ کو زمین پر گرا لیتا ہے یوں مکھیوں سے نجات پاتا ہے ،مگر کب تک؟؟؟
یہ کہانی نہیں حقیقت کہ  ڈاکومنٹری فلم بنانے والوں نے دیکھا کہ ایک دبلا پتلا شیر مرا پڑا ہے۔۔ قریب جانے  اور کھوج لگانے پر معلوم ہُوا کہ  کچھ ہی دیر پہلے مرا ہے ۔۔مرنے کی وجہ  پیر میں کانٹا   چُبھا  ھُوا ہے۔۔ لیکن جنگل کا بادشاہ کانٹا نکالنے سے لاچار رہا۔۔ اُسکے ساتھی بھی اُسکی کوئی مدد نہ کر سکے ۔۔ وہ بھوکا پیاسا  پڑے پڑے مر گیا۔۔
گینڈا زخموں کی مرہم پٹی نہیں کرسکتا ہے۔۔۔شیر پاؤں میں چُبھا کانٹا نہیں نکال سکتا ہے ۔۔۔۔۔
 میرے خالق۔۔  میرے مالک۔۔  میرے پرور دِگار   بے انتہا شُکریہ کہ  مجھے انسان بنایا ۔۔۔
 { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }

Monday, July 1, 2013

" ویاگرا کے اثرات "

 منجانب فکرستان:: کلدیپ نیر: FDA : نابیناپن : وارننگ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جماعت اسلامی فحاشی کے خلاف آواز بلند کرتی رہتی ہے، جسے کُچھ لوگ سیاست کے  کی نظر سے دیکھتے ہیں۔۔ تاہم کشور ناہید کا اپنے کالم (جنگ) میں فحاشی پر تشویش کا اظہار کرنا معنی خیز  بات ہے گویا، پانی سر سے اُونچا ہورہا ہے۔۔
 انسانوں میں سرایت کرتی ایک اور بے حسی اور بے شرمی کی جانب  اشارہ جناب کلدیپ نیر نے اپنے کالم میں  بھارت  کے اُترا کھنڈ میں آئے سیلاب  کو حوالہ  بناکر   کیا ہے کہ 
 "زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ملک کے کسی بھی حصے میں ہونے والی تباہی پر پورے ملک سے ردعمل آتا تھا۔ لوگ گھر گھر جا کر پیسے‘ کپڑے‘ برتن اور روز مرہ کے استعمال کی بہت سی چیزیں اکٹھی کر کے مختلف تنظیموں کو دیتے تھے جو متاثرین کی بحالی کے کام میں مصروف ہوتی تھیں۔ لیکن  گزشتہ چند برسوں میں یہ رویہ تبدیل ہو گیا ہے۔
 یعنی اب جذبے اور احساس کی وہ فراوانی دکھائی نہیں دیتی جو کہ ایک زمانے میں محسوس ہوا کرتی تھی" مزید تفصیل   کے خواہش مند لنک پر جائیں

کہتے ہیں کہ "رب جب دینے پر آتا ہے  تو  چھپر  پھاڑ  کر  دیتا  ہے " حقیقتاً  یہ  جملہ  فائزر  کمپنی  پر  فٹ  بیٹھتا ہے۔۔۔۔۔۔ ویا گرا  ( سیلڈنفل سائٹریٹ)  اِس  کمپنی  کیلئے  ایک  ایسا  ہی  پارس پتھر  ثابت  ہُوا  ہے  جس  نے  چھپر پھاڑ کر دینے کی  بات  کو  پورا  کیا۔۔۔
اندازہ  اِس  بات  سے  لگا یا  جا سکتا  ہے  کہ فائزر  کی  اجارہ داری  (پیٹنٹ)  کے  ختم  ہونے  پر  اِس  گولی  کی  قیمت  10 پونڈ  فی  گولی  سے  کم  ہو کر  ایک  پونڈ  سے  بھی  کم  رہ  جائے  گی ۔۔۔
   فائرز  نے  یہ   کیمیائی  مرکب  ہائی بلڈ پریشر  مریضوں  کے  علاج   کیلئے  تیار  کیا  تھا۔۔۔  لیکن  تجرباتی  مراحل میں ہی  سیلڈ نفل  نے اپنے میں موجود  اثر  کو  گرتے  سیب  کی  طرح  چُھپے  راز  سے  پردہ  اُٹھا  دیا  وہ یہ  کہ  حقِ زوجیت  ناکارہ  مریضوں   کیلئے  رب نے  اِس  میں  شفا  رکھی  ہے۔۔
اس  انکشاف  نے  ویاگرا کو  فائزر  کیلئے  پارس پتھر  اس لیے بنادیا  کہ ویاگرا کا  استعمال  مریض  سے  کہیں  زیادہ  دُنیا بھر کے عیاش  لوگ استعمال کر تے ہیں ۔۔۔
 تاہم عیاش  لوگوں  کو متنبع  کرنے  کیلئے   سیلڈنفل مرکب اپنا  ایک  اور   اثر  دکھانے  لگا  ہے  جسکی  تحقیق  ہورہی  ہے وہ یہ ہے کہ۔۔
"امریکہ میں صحت عامہ سے متعلق حکام دوا ویاگرا استعمال کرنے والے چند افراد میں نابینا پن کے مختلف درجات پائے جانے کی خبروں کا معائنہ کر رہے ہیں۔دی فوڈ اینڈ ڈرگ اڈمنسٹریشن نے نابینا پن کے ایسے پچاس کیسوں کا پتہ چلایا ہے ۔۔۔ کمپنی فائزر کا کہنا ہے کہ وہ دوا کے لیبل پر درج وارننگ کو تبدیل کرنے پر غور کر رہی ہے۔ " مزید  تفصیل   کے خواہش مند لِنک پر "
نوٹ:: رائے سے اختلاف /  اتفاق  کرنا  ہر ایک  کا حق ہے۔۔ اب مجھے اجازت دیں ۔۔آپکا بُہت شُکریہ۔۔