Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Friday, May 31, 2013

عمران خان کا ڈرون حملہ

 منجانب فکرستان ٹیگز : ڈرون *اپوزیشن * طالبان * امریکی پالیسی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عمران خان کا یہ بیان اپنے آپ میں نواز شریف پر ڈرون حملے جیسا ہے کہ نواز شریف امریکی ڈرون گرا کر اپنی حکومت کا آغاز کریں۔۔۔
قدم بڑھاؤ کا نعرہ اب ہُوا پُرانا نیا نعرہ ہے ڈرون مار گراؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔۔یہ بیان ایک جانب بھرپور اپوزیشن کا عکاس ہے تو دوسری جانب طالبان موقف کے حق میں بھی جاتا ہے۔۔اور تیسری جانب ممکن ہے کہ امریکی پالیسی سازوں کو بھی تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی کُچھ سوچنے پر مجبور کرے کہ یہ آواز طالبان کی نہیں بلکہ ایک منتخب شخص اور ایک کثیر تعداد میں ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی کے سر براہ کی آواز ہے ۔۔
عمران خان نے دھاندلی جیت پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُنکی جیت کا بھانڈا پھوڑ کر رہیں گے، چاہے کسی حد تک جانا پڑے  ۔۔۔مزید تفصیل کیلئے لنک پر جائیں ۔۔
رائے سے اختلاف/اتفاق سب کا حق ہے ۔۔اب مجھے اجازت دیں ۔۔آپکا بُہت شُکریہ۔۔
 { ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں } 

Saturday, May 25, 2013

اُڑنے سے پیشتر

منجانب فکرستان: دوچار ہاتھ جبکہ لبِ بام رہ گیا تھا۔ (غالب سے معذرت)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کیا خیبر پختونخوا میں حکومت بننے سے پہلے ٹوٹ جائے گی ؟؟ چونکہ اب دونوں جانب سے  وضاحتی بیانات آرہے ہیں ، لہجہ بھی بدل رہا ہے ، جماعت اسلامی کے رہنما امیرالعظیم کا کہنا ہے کہ، 3 وزارتیں،تعلیم ،فنانس اور زکواۃ جماعت اسلامی کو دینے کی بات طے ہوچُکی ہے جبکہ پی ٹی آئی کے قائدین وزارتیں دینے سےمتعلق اپنی لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ۔ ۔

اِس سلسلے میں جماعت اسلامی کے امیر العظیم اپنے نقطہ نظرکی وضاحت میں یہ دلیل پیش کی ہے کہ،دو دن پہلے پارٹی وفد کی عمران خان سے ملاقات ہوئی تھی جس میں وزارتوں کے بارے میں بھی بات ہوئی تھی اگر اس بارے میں پی ٹی آئی کو کچھ تحفظات ہوتے تو سامنے آجاتے۔۔۔

 پی ٹی آئی کی پارٹی ترجمان شیریں مزاری نے کہا ہے کہ عمران خان کی خواہش ہے کہ تعلیم کی وزارت پی ٹی آئی کے پاس رہے ، چونکہ اس حوالے سے پارٹی نے اپنا ایک جامع روڈ میپ بنایا ہُوا ہے جو نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ پورے ملک کیلئے ایک رول ماڈل ثابت ہوگا۔۔۔
یاد ہوگا کہ الیکشن میں دونوں پارٹیوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معملہ دوچار ہاتھ جبکہ لبِ بام رہ گیا تھا ۔۔۔

 رائے سے اتفاق/ اختلاف کرنا سب کا حق ہے۔۔۔خبر کی تفصیل کیلئے لنک پر جائیں ۔۔۔ مجھے اجازت دیں ۔۔آپکا بُہت شُکریہ ۔۔۔
{ ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں}

Monday, May 20, 2013

" دلائل اپنے اپنے "

منجانب فکرستان : دونوں حلقوں کے دلائل وزن دار ہیں۔  
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
  اب اکثریت  کی گفتگو کا محور پی ٹی آئی کو حکومت بنانی چاہئیے/ نہیں بنانی چاہئیے پر ہے اس حوالے سے اپنے اپنے دلائل ہیں مثلاً ایک حلقے  کا کہنا ہے کہ عمران کو کمزور مخلوط  حکومت نہیں بنا نا چاہئیے اُنکے خیال میں طالبان اور ڈرون مسئلوں سے بڑھ کر اتحادی کھینچاتانی مسائل پیدا کریں گے، چاروں میں زرداری جیسا مفاہمتی  کوئی نہیں ہے، یوں چار کی حکومت چوک میں پُھوٹے گی، سارے خواب ....کرِچی کرِچی ہوجائیں گے۔۔
 7 سیٹوں پر 3 وزارتیں جماعت اسلامی اور 7 سیٹوں پر قومی وطن پارٹی نے بھی 3 وزارتیں مانگ لی ہیں، جبکہ عوامی جمہوری پارٹی 3 سیٹوں پر 2 وزارتیں مانگ رہی ہیں۔۔
جس طرح کہا جاتا ہے کہ بھارت نے ابھی تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا ہے بالکل اُسی طرح مولانا فضل الرحمان نے بھی پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا ہے۔۔ اوپر سے جماعت اسلامی کی تین وزارتیں ،سینے پر مونگ دلنے جیسی بات ہے ۔۔ مولانا سیاسی داؤپیچ کے ماہر ہیں ،جو کمزور حکومت کو مسلسل دھکے مارتے ہیں گے۔۔۔ 
جبکہ دوسرے حلقے کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو حکومت ضرور بنانا چاہئیے کہ یہ اکثریت دِلانے والے ووٹرز کا پی ٹی آئی پر قرض ہے کہ وہ حکومت بنائے اور اپنے آپ کو منوانے  کے اِس بہترین موقع کو ضائع نہ کرے ۔۔۔ اپنے خواب  کو جس حد تک صوبائی اختیارات اجازت دیتے ہیں عملی صورت عطا کرے۔۔۔
دونوں حلقوں کے دلائل وزن دار ہیں ۔۔ اب اجازت دیں ۔۔آپکا بُہت شُکریہ۔۔
{ خُدا حافظ }

    
      

Sunday, May 19, 2013

" خالص کھیل "

منجانب فکرستان : آئی پی ایل : حرکات وسکنات 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آئی پی ایل کھیل  کئی انسانوں کی حقیقی خوشی کا باعث ہے/تھا لیکن اب یہ خالص نہیں رہا،اب ہمیشہ شک کے دائرہ میں رہے گا ، یوں مزا کرِ کرا کرے گا۔۔شروع شروع میں لڑکیوں کے ناچ پر اُنگلیاں اُٹھیں تھیں کہ لوگ کرکٹ کا خالص کھیل دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن ہُوا کیا لڑکیوں کا ناچ تو خالص رہا اور کرکٹ کا کھیل ہی  ملاوٹ زدہ ہو گیا۔۔  
سیاست کے کھیل میںجیت کیلئے اور کرکٹ کے کھیل میں ہار کیلئے دھاندلیاں ہورہی ہیں، سیاستدانوں کی طرح اب کرکٹ کے کھلاڑی بھی بدنام ہوتے جارہے ہیں  البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ سیاستداں کو جسم پر جس جگہ کُجھلی محسوس ہو کُجھا لے گا   لیکن کرکٹ کا کھلاڑی سپاٹ فکسنگ خوف سے مّچھر کے کاٹنے پر بھی نہیں کُھجائے گا اور نہ ہی جوتے کے کاٹنے پر کوئی ردِ عمل دِکھا سکے گا۔۔  یعنی حقیقی حرکات وسکنات بھی اب شک دائرے میں رہیں گے۔۔۔اب اجازت دیں ،بُہت شُکریہ۔
{ خُدا حافظ }




Tuesday, May 14, 2013

" شفاف الیکشن "

 منجانب فکرستان: ڈیفنس کی کہانی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شفاف الیکشن پر خواہ مخواہ  انگلیاں اُٹھائی جا رہیں، اب اس سے زیادہ شفافیت کیا ہو گی کہ بعض حلقوں میں فرشتوں نے ووٹ ڈالے ہیں ( فافن کے مُطابق 136 اسٹیشنوں پر٪ 100 سے زیادہ ٹرن آؤٹ رہا)  جبکہ 45 لاکھ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں دیا گیا ، اگر انہیں حق مل جاتا تو رزلٹ کچھ اور ہوتا۔ 
 مثال: کراچی ڈیفنس ہوکہ لاہور ڈیفنس اِس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اتِنا باشعور طبقہ رہتا ہے کہ  جو دھرنا تو دُور کی بات ہے ووٹ ڈالنے تک نہیں جاتا کہ چہرے ، نام اور پارٹیاں الگ سہی، لیکن سب ایک ہیں، اِن میں کوئی فرق نہیں  پھر انتخاب کیسے ہو اور کس کا ہو ؟؟؟ اِس سوچ کے تحت اکثریت ووٹ دینے نہیں جاتی ہے ۔۔۔
 اس الیکشن میں اُنہیں ایک ایسی آواز سُنائی  دی جو بالکل نئی تھی ، اس نئی آواز میں موجود خلوص بھی اُنہیں نظر آرہا تھا ، اِس لیے ڈیفنس کے رہائشی اس آواز پر جذباتی ہوگئے ، کیا مرد کیا خواتین کیا جوان کیا بوڑھے سب ہی ووٹ دینے نکل پڑے لیکن نتیجہ؟؟؟
پورے پاکستان میں صرف لاہور ڈیفنس اور کراچی ڈیفنس کے مکینوں نے نہ صرف دھاندلی کا شکوہ کیا بلکہ جذباتی نعرے بھی لگائے اور دھرنا بھی دیا ۔۔۔
 45 لاکھ سمندر پار ووٹرز بھی ڈیفنس ووٹرز کی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور ووٹرز ہیں،جو لسانیت، برادری ازم، علاقائی عصبیت، گدی ازم غرض کہ ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ووٹرز  ہیں،  میری معلومات کے مُطابق سمندر پار والوں کو بھی اِس نئی آواز نے متاثر کیا تھا اور جذباتی بھی ہوئے تھے، اگر اِنہیں ووٹ کاسٹ کا حق مل جاتا تو پھر نتائج یہ نہیں رہتے، بُہت بدل جاتے ۔مگر  
85 سالہ عمر نے اپنے تقاضے دکھائے۔۔۔45 لاکھ دباؤ سے آزاد ووٹرز ووٹ سے محروم ہوئے۔ 
ممکن ہےآپکا نقطہ نظر مجھ سے مختلف ہو، اور یہ کوئی بُری بات نہیں ہے،اب مجھے اجازت دیں،آپکا بُہت شُکریہ۔
{ اللہ بیلی }
لنک پر فافن رپورٹ کی تفصیل ہے 
        

Sunday, May 12, 2013

"مختصر سا جائزہ "

 منجانب فکرستان: پی ٹی آئی کو کم سیٹیں ملنے کی چند ممکنہ وجوہات۔ 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 (دوستو : میری اُنگلیاں پھسل گئیں کالم نگار ہارون رشید کے بجائے ہارون الرشید لکھ دیا تھا ، اِس کیلئے میں معزرت خواں  ہوں) یہ  اُسی طرح ہُوا ہے جسطرح عمران خان نے شیرپر مہر لگانے کو کہا اور لوگوں نے شیر پر مہر لگا دیا۔۔ اسی طرح شہباز شریف نے دو سال میں بجلی ختم کرنے کی بات کی ہے دیکھیں کیا ہوتا ہے ؟؟؟ 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مثلاً عمران خان نے نواز شریف کے خلاف جو جوش و جذبے والا اندازِ تکلم اپنایا تھا وہ پنجاب کی عوام کو پسند ہو۔۔۔جبکہ عمران خان ممکن ہے اِیسا سمجھتے رہے ہوں کہ اس طرح  کے جوش ،جذبے اورجیت کے دعوے کرکے وہ ووٹروں کا پی ٹی آئی پر اعتماد بڑھا رہے ہیں۔۔
  کالم نگار ہارون رشید کی بات نہ ماننے پر اُنکا کپتان سے خفا ہونا ۔۔۔ کالم نگار حسن نثار کا ایک دم سے یوٹرن لینا اور پی ٹی آئی کے خلاف لکھنا ،جو لوگ حسن نثار اور ہارون رشید کے کالم پڑھتے ہیں اُن پر پی ٹی آئی کے بارے میں منفی اثرات پڑے ہونگے ۔۔ 
  تجربہ، سرمایا اور طاقت انتخابات میں جیت کے  بڑے اسباب میں شمار ہوتے ہیں۔۔ ن لیگ اِن تینوں طاقتوں میں مالا مال تھی۔۔ ن لیگ کے امیدوار تجربہ کار تھے ، سرمائے کی طاقت بھی اُنکے پاس تھی جبکہ پنجاب کی انتظامیہ شہباز شریف والی ہی تھی ۔۔ 
 ممکن ہے آپ کے خیالات مجھ سے مختلف ہوں اور یہ کوئی بُری بات نہیں ہے۔اب مجھے اجازت دیں۔آپکا شُکریہ
 {اللہ بیلی }

Friday, May 10, 2013

" تبدیلی لانے کا دن "

 منجانب فکرستان : مجھے اوباما پسند نہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سابقہ امریکی الیکشن میں اُس نسل پرست گورے کا انٹرویو ممکن ہے کہ  یاد ہو جس نے کہا تھا  کہ میں کالوں سے نفرت کرتا ہوں اور مجھے اوباما بالکل بھی پسند نہیں  ہے اس لیے میں اوباما کو ووٹ نہیں دونگا، لیکن میں مُلک کی بہتری کیلئے اُسکی چینج پالیسی کو ووٹ دونگا ۔اسی طرح ممکن ہے آپ کو عمران خان کا اندازِ تکلم پسند نہ آتا ہو لیکن آپ سمجھتے ہوں کہ  اُسکی تبدیلی لانے والی پالیسی  مُلک کیلئے بہتر ہے تو ملک کی بہتری کیلئے ووٹ دیں ۔۔ مجھے اجازت دیں ۔۔
 { اللہ بیلی }  

فیصلہ کریں ۔

 منجانب فکرستان : فیصلہ کریں : { پُرانانظام یا نیا نظام} { نعرہ یا تبدیلی }
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگر پی ٹی آئی کو کامیابی ملتی ہے تو مُلک میں تبدیلی یقینی ہے چونکہ پی ٹی آئی کا منشور تبدیلی کا منشور ہے۔اور اگر مسلم لیگ نون کو کامیابی ملتی  ہے۔تو وہ اگلے پانچ سال تک۔۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی گذشتہ پانچ سالہ دورِ حکومت کی بُرائیاں گِناتی رہے گی کہ خزانہ خالی کردیا ہے، بیرونی قرضہ بڑھ گیا ہے ، وراثت میں بُری معیشت ملی ہے ، ادارے تباہ ہوگئے ہیں  وغیرہ۔ لیکن کیا اِسکی ذمہ دار اکیلی پیپلز پارٹی ہے یا اِسکی اتنی ہی  ذمہ داری فرینڈلی اپوزیشن پر بھی آئد ہوتی ہے؟؟؟   
  مسلم لیگ نون والے عمران خان کی طرح جب تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو حیرت  ہونے لگتی ہے مسلم لیگ نون میں شامل تقریباً سب ہی وہی پُرانے آزمائے ہوئے کھلاڑی ہیں، یقیناً یہ پُرانے کھلاڑی اپنا وہی پُرانا کھیل پیش کریں گے کہ جس کے یہ ماہر ہیں۔۔۔ ایسے میں تبدیلی کی بات صرف ایک نعرہ ہے ۔۔۔بالکل اسی طرح کا نعرہ کہ جیسے "بجلی 2 سال میں ختم کردیں گے"  اب اجازت دیں ۔۔
{ رب راکھا }

   

Thursday, May 9, 2013

" آگہی کیلئے "

منجانب فکرستان: ڈگری تصدیق کرانے کی رُوداد !!۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اسلام آباد HEC کے آفس صبح 6 بجے پہنچا میرا نمبر 37 واں تھا دیکھتے ہی دیکھتے  ایک  بُہت لمبی لائن لگ گئی، آفس کا گیٹ کھُلا  کچھ دیر بعد میرا نمبر بھی آگیا، ہمیں کمپیوٹروں پر بِٹھا دیا گیا، کسی کے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کرنا کیا ہے؟ پھر آفس کے ایک مددگار صاحب نظر آئے جو لیڈیز فرسٹ کا فرض ادا کر رہے تھے،یہاں سے قسمت کا کھیل شروع ہوتا ہے، ایک انار سو بیمار کی مثال بھی صادق آتی ہے، کیونکہ ہر کوئی اُن صاحب کو اپنے کمپیوٹر پربُلانا چاہتا ہے۔۔غرض کہ جس کی قسمت زور آور ہوتی ہے، اُسکی آواز توجہ پا جاتی ہے یوں مددگار صاحب اُس کے پا س چلے جاتے، غرض کہ میری اپلیکیشن کا جب پرنٹ نکلتا ہے میں 37 سے 142 نمبر پر پُہنچ جاتا ہوں۔۔۔
 اس مرحلے کے بعد ڈاکومنٹس (میٹرک تا ڈگری) کی جانچ پڑتال کی لائن لگتی ہے ،کچھ دیر تو  نمبر کے تحت  ڈاکومنٹس  کی جانچ پڑتال کا سلسلہ چلتا رہا ،پھر نمبر کو  نظر انداز کرکے لائن کا طریقہ اپنایا گیا، جس سے دھکم پیل شروع ہوگئی ، اِس دھکم پیل میں طاقتور ونڈو پر پہنچ کر اپنا کام  پہلے کرالیتے ہیں ، میں بھی اِس دھکم پیل کی لہر میں بہتا ہُوا ونڈو تک پُہنچ گیا، ڈاکومنٹ چیک کرا کے فیس جمع کرا نے بنک کی لائن میں لگ جاتا ہوں ،فیس جمع کرا نے کے بعد۔۔ ڈاکومنٹس جمع کرانے کی لائن میں لگ جاتا ہوں، اور جب ڈاکومنٹس جمع کراکے گھڑی دیکھتا ہوں تو گھڑی بارہ بجکر چالیس منٹ کا وقت بتا تی  ہے، اور مجھے ڈاکومنٹس اور تصدیق شُدہ ڈگری کی واپسی کا ٹائم تین بجے کا ملتا ہے ۔ اب دو گھنٹے کیلئے ہوٹل جانا اور واپس آنا مناسب نہیں لگتا ہے، غرض کہ  کوئی فرد بھی گھر یا ہوٹل نہیں جاتا ہے، کیفے ٹیریا میں کھانا کھاتا ہے اور ڈاکومنٹ کی واپسی والی لائن میں لگ جاتا ہے ۔۔
لیکن یہاں پر لائن میں لگنا بیکار ہے ،چونکہ ڈاکومنٹس وقفے وقفے سے آتے ہیں اور سیریل نمبر سے نہیں آتے ہیں ، مثلاً 9 نمبر کے بعد 71 نمبر آسکتا ہے 71 کے بعد 2 نمبر آسکتا ہے۔۔ غرض کہ دس پندرہ منٹ کے وقفے سے تین یا چار ڈاکومنٹس بمع تصدیق شُدہ ڈگری کے آتے ہیں ،بہر حال جب مجھے تصدیق شُدہ ڈگری ملی تو رات کے تقریباً آٹھ بج رہے تھے ،میرے بعد بھی کافی لوگ اپنے ڈاکومنٹس اور تصدیق شُدہ ڈگری کا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔
 پاکستان کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے لوگوں کے درمیان الیکشن کے حوالے  سے خوب تبصرے ہورہے تھے،زیادہ تر تبصرے پی ٹی آئی اور ن لیگ کے حوالے    سے ہو رہے تھے ، میں نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور اپنی جانب سے پی ٹی آئی کے حق میں خوب دلائل دئیے۔۔۔غرض کہ دوسروں کا تو مجھے علم نہیں لیکن میں نے ڈگری تصدیق کرانے کی اِس مہم کو خوب انجوائے کیا ۔۔۔
OCS کورئیر والوں کو پاکستان کے مختلف شہروں سے ڈاکومنٹس لے جانے اور لانے کا اختیار HEC نے دیا ہے ،لیکن اس طریقہ کار میں 45 تا 50 دن لگتے ہیں۔۔ 
بیرونی ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے اسی طرح کی کورئیر خدمات کا اختیار فیڈیکس کورئیر کو دیا ہے ۔۔۔وہ کتنے دن لیتے ہیں اسکا مجھے علم نہیں ہے۔۔
ذہن میں سوالات آتے ہیں کہ: یہ کیسا نظام ہے کراچی، لاہور، پشاور،اور کوئٹہ میں HEC کے ریجنل آفس موجود ہیں،لیکن ڈگری تصدیق کرنے کے مجاز نہیں ہیں!!۔یہ کیسی عجیب بات ہے کہ: جس یونیورسٹی نے ڈگری جاری کی ہے وہ ڈگری کو تصدیق کرنے کی مجاز نہیں ہے۔۔
 ایسے میں عمران خان اِس نظام کو بدلنے کی بات کر رہا ہے تو میں اُسکی حمایت کیوں نہ کروں۔اب اجازت دیں۔
 رب راکھا }





Thursday, May 2, 2013

"عوامی مومنٹم "

 منجانب فکرستان: پڑوسی ملک میں: اپنے ملک میں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بھارت کے سینئر کالم نگارظفر آغا نے سیاست اور کرپشن پر کالم لکھا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ  برسرِ اقتدار کی کرپشن کا کوئی کیس پکڑ میں آجاتا ہے تو اپوزیشن چور چور کا خوب شور مچاتی ہے،تاہم یہ سارا شور شراپا اس احساس کے تحت نہیں ہوتا ہے کہ یہ قوم کا پیسہ ہے۔ بلکہ سارا درد یہ ہے کہ یہ پیسہ ہماری جیب میں کیوں نہیں آیا، ہم اقتدار میں کیوں نہیں ہیں؟؟ یوں چور چور کا شور مچاکر اقتدار حاصل کرنے کے بعد خود جیبیں بھرنے لگتے ہیں ،لیکن پھر اِنکا بھی کوئی کیس پکڑ میں آجاتا ہے تو اب نئی بننے والی اپوزیشن چور چور کا شور مچاتی ہے  ۔۔غرض کہ کرپشن کیلئے اپوزیشن اور اقتدار کے درمیان سی سا  جیسا کھیل  جاری رہتا ہے لیکن اس کھیل کے دونوں جانب واقع اپوزیشن اور اقتدار کے کرپشن کا سارا بوجھ بیچ میں واقع عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے ۔۔۔
 بھارت کے تمام سیاست دان  عوامی لوک پال بل منظور نہیں ہونے دیتے کہ اس طرح  انکا جاری سی سا کا  یہ کھیل رُک جانے کا اُنہیں اندیشہ ہے، ایسے میں قوم کا درد رکھنے والا کوئی  انا ہزارے جیسا سرپھرا کرپشن کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو چالاک سیاست دان اسکے ساتھیوں کو خرید کر اُس سر پھرے سے  کرپشن کرپشن کے بولوں کی جگہ الیکشن الیکشن  کے بول پڑا وا دیتے ہیں اور یوں سیاست دان ابھر نے والے عوامی مومنٹم کو توڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔۔۔
پڑوسی مُلک بھارت کے بد سیاستدانوں کی بُہت بُرائی کرلی، اب ہم اپنے مُلک کے شریف سیاستدانوں پر بزریعے جنگ ایک نظر ڈالتے ہیں، جو آج 2 مئی کے اخبار میں شائع ہوئی ہے۔۔ 

 بشکریہ Close
اسلام آباد (عامرمیر) میاں نوازشریف اور شہباز شریف سمیت ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے کم از کم 18 سیاستدان مہران گیٹ اسکینڈل میں نامزد ہونے کے باوجود آئندہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ مہران گیٹ اسکینڈل کے تحت آئی ایس آئی نے 1990کے انتخابات سے قبل ان سیاستدانوں میں لاکھوں روپے تقسیم کئے تھے جبکہ آئندہ انتخابات میں شریک یہ سیاستدان اس اسکینڈل سے آج تک اپنے آپ کو کلیئر نہیں کرا سکے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے 6ماہ قبل اصغرخان کیس کا تاریخی فیصلہ سنایا تھا اور اس بنچ کے احکامات کی روشنی میں ان 18سیاستدانوں نے ایف آئی آر کی انکوائری کا سامنا بھی کرنا ہے۔ فاضل عدالت نے 1990 میں الیکشن مہم چلانے کے لئے آئی ایس آئی سے مبینہ طور پر رقوم وصول کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف قانونی کارروائی کا حکم بھی دیا تھا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے فیصلے میں حکم دیا تھا کہ ایف آئی اے اصغرخان کیس میں رقوم وصول کرنے والے تمام سیاستدانوں کے خلاف شفاف انکوائری کرے اور ثبوت ملنے پر ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ عدالت عظمیٰ نے مہران بینک کے مالک یونس حبیب کی طرف سے آئی ایس آئی کو رقوم کی فراہمی پر ان کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا تھا تاہم آج 6 ماہ بعد بھی ایف آئی اے نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر نہ تو اس حوالے سے تحقیقات کا آغاز کیا اور نہ ہی فنڈز وصول کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کی۔ ایف آئی اے کے اس رویئے کے باعث یہ 18سیاستدان خود کو کلیئر کرائے بغیر آئندہ انتخابات میں شریک ہورہے ہیں۔ مہران گیٹ اسکینڈل میں ملوث ان 15سیاستدانوں میں نوازشریف  شہبازشریف  جاوید ہاشمی  آفتاب شیرپاؤ  لیاقت بلوچ  عابدہ حسین  لیاقت علی جتوئی  آفاق احمد  سید مظفرحسین شاہ  میر ہمایوں مری  پیر نورمحمدشاہ  اسماعیل راہو  نادر مگسی  جام معشوق اور دوست محمد فیضی شامل ہیں۔ 24جولائی 1994 کو اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل اسد درانی کے حلف نامے کے مطابق نوازشریف کو 35 لاکھ روپے  لیفٹیننٹ جنرل رفاقت (جی آئی کے الیکشن سیل) 56لاکھ روپے  میر افضل ایک کروڑ  غلام مصطفی جتوئی 50لاکھ  جام صادق علی 50لاکھ  محمدخان جونیجو 25لاکھ روپے  پیر پگاڑا 20لاکھ  عبدالحفیظ پیرزادہ 30لاکھ  یوسف ہارون 50لاکھ  سید مظفر حسین شاہ 3لاکھ  عابدہ حسین 10لاکھ  ہمایوں مری 54لاکھ  جماعت اسلامی 50لاکھ  الطاف حسین قریشی اور مصطفی صادق 5لاکھ  ارباب غلام آفتاب 3لاکھ  ارباب فیض محمد 3لاکھ  ارباب غلام حبیب 2لاکھ  اسماعیل راہو 2لاکھ  لیاقت بلوچ 15لاکھ  جام یوسف ساڑھے سات لاکھ جبکہ نادر مگسی کو 10لاکھ روپے ادا کئے گئے تھے۔ یونس حبیب کے عدالت میں پیش کئے جانے والے بیان کے مطابق سیاستدانوں اور دیگر افراد کو یہ رقوم 1991 سے 1994 کے درمیان ادا کی گئی تھیں۔ جنرل مرزا اسلم بیگ کو 140ملین روپے  جام صادق علی کو 80ملین روپے  الطاف حسین کو 20ملین روپے  ایڈووکیٹ یوسف میمن کو جاویدہاشمی اور دیگر کو رقوم کی ادائیگی کے لئے 50ملین روپے  جام صادق علی 150ملین روپے  لیاقت علی جتوئی کو ایک لاکھ  وزیراعلیٰ سندھ کو امتیاز شیخ کے ذریعے 12ملین  آفاق احمد کو 0.5ملین روپے  1993 میں وزیراعلیٰ سندھ کو امتیاز شیخ کے ذریعے ایک لاکھ  سابق وفاقی وزیر اجمل خان کو 1.4ملین روپے  1993میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو 3.5ملین  27ستمبر 1993 کو نوازشریف کو 2.5 ملین روپے  جام معشوق علی کو 0.5ملین روپے  دوست محمد فیضی کو 10لاکھ روپے  جام حیدر 2ملین روپے  جام معشوق 3ملین روپے  سرتاج عزیز کے بیٹے عدنان کو 10لاکھ روپے  نوازشریف اور اتفاق گروپ آف کمپنیز کو 200ملین روپے  سردار فاروق لغاری کو 12 دسمبر 1993 کو 30ملین روپے  6جنوری 94 کو 2.0856 ملین جبکہ 10مارچ 1994 کو 1.92ملین روپے دیئے گئے۔ اصغرخان کیس کی سماعت کے دوران یونس حبیب نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ انہوں نے خود نوازشریف کو ان کی لاہور کی رہاشگاہ پر 2.5 ملین روپے ادا کئے جبکہ شہبازشریف کو ٹیلی گرافک ٹرانسفر کے ذریعے 2.5ملین روپے فراہم کئے گئے۔ یونس حبیب نے بتایا کہ کھاتوں میں رقوم میں اضافہ کے لئے آفتاب شیرپاؤکو بڑی رقم دی گئی۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے اگرچہ یونس حبیب کے ان بیانات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا گیاتاہم جنرل (ر) اسلم بیگ اور جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے حلف ناموں میں نوازشریف کی جانب سے رقوم کی وصولی کی تصدیق کی گئی۔ نوازشریف نے 25اکتوبر 2012کو ایک نجی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے نہ تو کبھی یونس حبیب سے ملاقات کی اور نہ ہی ان سے رقم وصول کی انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ ان کے خاندان کی ملکیتی صنعتوں نے 1990 کے دوران 920 ملین روپے ٹیکس ادا کیا تھا اور ان پر آئی ایس آئی سے 1990 کے انتخابات کے لئے 2.5 ملین روپے کی وصولی کا الزام محض لطیفہ ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی جماعت اس حوالے سے ایف آئی اے کی تحقیقات کی مخالفت کیوں کر رہی ہے تو انہوں نے کہاکہ چودھری نثار علی خان کو ایف آئی اے کے معاملات چلانے والے بعض افراد کے حوالے سے تحفظات ہیں۔{پڑھنے کا شُکریہ رب راکھا}