Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Monday, May 12, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط # 6 )

 منجانب فکرستانغوروفکر کے لئے  

___________________________

 کراچی میں ماموجان اپنی ذاتی  لکڑی کی ٹال کے مالک تھے مکان

کرائے کا تھا،سنہ 51 میں کراچی میں گھروں میں لائٹ نہیں تھی،

کئی علاقے اسٹریٹ سے بھی محروم تھے، گھروں میں لالٹین جلتی

 تھی ، مکان میں دو کمرے تھے جن میں سے ایک کمرے میں کچن

 بھی تھا،حمام اور لیٹرین الگ الگ تھے۔۔۔ ماموجان نے اپنی سی

 کوشش کی کہ اماں جان کو کسی اسکول میں پڑھانے کی نوکری مل

 جائے مگر ایسا نہیں ہُوسکا،وجہ یہ تھی کہ اُس زمانے میں کراچی

میں سندھی میڈیم اسکول زیادہ تھے اس کے علاوہ اماں جان کو

 انگلش نہیں آتی  تھی بھاولنگر والے ماموں جان کو بھی انگلش نہیں

 آتی تھی اسی لئے اُنہیں بھی بھاولنگر میں اچّھی نوکری نہیں مل سکی

 ،بقول اماں جان کے اُن کا گھرانہ اِس بات کے لئے مشہور تھا کہ

 اُن کے گھرانے کے چوہے بھی پڑھے لکھے ہیں( لیکن یہ سب

 اردواردو پڑھے لکھے ہیں😀)اِسکی وجہ،جس طرح خلافت عباسیہ

 کےدور میں علمی اور سائنسی کتب کے عربی تراجم  کے لئے بغداد

 میں دارالترجمہ قائم تھا) اسی طرز کا  جامعہ عثمانیہ کا دار الترجمہ تھا

 جسےسنہ 1917ء میں جامعہ عثمانیہ قائم کیا گیا  تھا جہاں پر  علمی

 اورسائنسی کتب کے تراجم اردو میں ہوتے تھے، جبکہ پڑوسی ملک  

 ہندوستان میں برطانوی راج کے تحت ثانوی و علیٰ ثانوی کی تدریس

 انگلش میں ہوتی تھی۔ ریاست حیدرآباد میں اُردو

 کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگا سکتے کہ عثمانیہ یونیورسٹی

 میں تمام کے تمام سبجیٹ کی تعلیم اردو میں ہوتی تھی یہاں تک

 کہ  MBBS کی تدریس بھی اردو میں ہوتی تھی۔۔اماں جان

 دوہری پریشانی میں مبتلا تھیں، ایک تو پریشانی یہ تھی کہ نوکری

نہیں مل رہی تھی دوسری  پریشانی یہ بھی تھی میں رات میں ڈرنے

لگا تھا ،ایسے میں اماں جان لاٹین میرے قریب رکھ تیں تو مجھے

 لاٹین کی روشنی کی ' لو 'میں بونا ناچتا ہُوا نظر آتا، اور مجھے اُنگی

 کے  اشارے  سے چُپ رہنے کا اشارہ کرتا، میں یہ بات اماں

 جان کو بتانا چاہتا ہوں لیکن کوشش کے باوجود میری زبان نہیں

کُھلتی، صبح بھی یہ بات اماں جان کو بتانے کی کوشش پر بھی میری

 زبان نہیں کُھلتی۔۔۔اور میں بیمار رہنے لگا۔۔ اب اجازت ۔

یار سلامت صحبت باقی/قسط # 7کے لئے۔ انشاء اللہ

خالق کائنات ہمیشہ مہربان رہے ۔

 

No comments:

Post a Comment