منجانب فکرستان پیش ہے :~ "انسان کی ہوس زدہ کھوپڑی کی کہانی " ۔۔۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
قدرت نے سیاچن کو ایک ایسی وضع قطع عطا کی تھی کہ وہاں کسی جان دار کا گذر نہ ہو،لیکن انسان ، جس کی ہوس کی کہانی ہبوط آدم کی کہانی ہے کہ کس طرح شیطان کے سبز باغ دکھانے پر بہکاوے میں آگیا اور خُدا کے حُکم کی خلاف ورزی کر بیٹھا جس کی پاداش میں جنت سے زمین پر آگیا ، لیکن یہاں بھی اسکی ہوس زدہ کھوپڑی ایسے ہی گل کھلاتی رہتی ہے۔ جسکی حالیہ مثال سیاچن کی ہے، سیاچن کے معنی گلابوں کی سر زمین، نہ جانے کیوں اِس سر زمین کو یہ نام دیا گیا ،اِس سر زمین پر گلاب نہیں اُگتے ہیں۔البتہ انسانی ہوس کی وجہ سے یہاں مامتا/باپتا کے گلاب ضرور دفن ہوتے رہتے ہیں۔۔۔
انسانی ہوس کی یہ کہانی اپریل 1984 سے شروع ہوتی ہے۔خُدا جانے کس بھارتی کی ہوس زدہ کھوپڑی میں سیاچن قبضہ کا شیطانی خیال آیا کہ سیاچن پر چڑھ دوڑے اور کافی علاقہ اپنے قبضہ میں کرلیا نتیجہ میں پاکستان نے بھی سیاچن کے کچھ علاقے پر قبضہ کرلیا اُس دن سے مامتا/باپتا کے گلاب یہاں زندہ دفن ہو رہے ہیں۔۔۔۔"سرد دوزخ کی حقیقت" درج ذیل لنک پر ۔۔۔اب اجازت دیں،آپکا بُہت شُکریہ۔(ایم ۔ ڈی)
http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1101495104&Issue=NP_LHE&Date=20120410