Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Thursday, November 30, 2017

انسانی شعور صدیوں سے سرگراں ہے۔۔

منجانب فکرستان 
برائے غور و فکر
امجد اسلام امجد کی زندگی کا  ناقابل فراموش واقعہ "سُرخاب" میں  جِس کسی نے پڑھا ہوگا، اُسکے ذہن نے دعوتِ فکر دی ہوگی۔
اُنکا یہ واقعہ کائناتی مظہراور انسانی زندگی کے بارے میں ایسا سوال اُٹھاتا ہے کہ جس کے حل کیلئے انسانی شعور صدیوں سے سرگراں ہے۔۔
اُن دوستوں کیلئے واقعے کا اقتباس حاضر ہے کہ جنکی نظروں سے یہ واقعہ نہ  گُزرا ہو۔  حسبِ روایت آخر میں اصل سائٹ کا لنک  اِسکے علاوہ واقعے کو مزید نمایاں کرتے وڈیو کے بول ۔۔ 
 امجد اسلام امجد "شیزان" میں دوستوں کے ساتھ تبالہ خیال میں  مصروف  تھے کہ اچانک کسی خیال میں کھوکر خاموش سے ہوگئے، ایسے میں اُنہوں نے دیکھا کہ سامنے سے ایک بیرا ٹرے میں چائے کی پیالیاں و دیگر برتن تھامے چلا آرہا تھا کہ وہ لڑکھڑاگیا ،ٹرے ہاتھوں سے ِپھسل کر فرش پر جا گری یوں برتن کرچی کرچی ہوگئے، بیرا کرچیاں سمیٹنے لگا،اتنے میں امجد صاحب کی نگاہ باہر کی جانب اُٹھی تو دیکھتے کیا ہیں کہ فریدہ خانم نیلے رنگ کی ساڑی میں ملبوس سیڑھیاں چڑھتی چلی آرہی تھیں۔کہ اچانک امجد صاحب اس خیالی تصور سے باہر نکل آئے ۔ انہوں نے جو کچھ دیکھا تھا وہ  سب واہمہ تھا ۔نہ  بیرا سامنے سے آیا تھا،نہ ہی  برتن ٹوٹے تھے  نہ ہی فریدہ خانم  آئی تھیں۔۔۔
تاہم امجد صاحب ابھی اس خیال سے بمشکل باہر نکل ہی پائے تھے کہ دیکھتے کیا ہیں کہ سامنے سے وہی بیرا اُسی طرح سے ٹرے میں چائے کی پیالیاں و دیگر برتن تھامے چلا آرہا تھا کہ وہ لڑکھڑاگیا ، اُسی  طرح سے ٹرے ہاتھوں سے ِپھسل کر فرش پر جا گری برتن کرچی کرچی ہوگئے، بیرا کرچیاں سمیٹنے لگا،اتنے میں امجد صاحب کی نگاہ باہر کی جانب اُٹھی تو دیکھتے کیا ہیں کہ فریدہ خانم وہی نیلے رنگ کی ساڑی میں ملبوس اُسی طرح سیڑھیاں چڑھتی چلی آرہی تھیں، جیسا کہ امجد صاحب نے تصور میں دیکھا تھا،بالکل ویسا ہی حقیقی زندگی میں بھی ہُوا ۔ گویا ( ایکشن ری پلے) ۔۔۔
نوٹ : پوسٹ میں کہی گئی  باتوں سے  اتفاق کرنا نہ کرنا  آپ کا  حق  ہے ۔اب جازت۔۔
{  رب   مہربان  رہے  }
http://e.jang.com.pk/11-12-2017/karachi/mag13.asp

Thursday, November 9, 2017

بہتے دریا میں سے ۔۔۔

منجانب فکرستان 
 9نومبرمحمداقبال ؒکا140واں یوم ولادت
سچّی بات یہ ہے کہ علامہ اقبال کی  فکر نے میری بصیرت میں اتنا اضافہ نہیں کیا  کہ جتنا کہ اضافہ  اُنکی ہمہ جہت فکر کے بارے میں  لکھے مضامین نے کیا،اِسکا بنیادی سبب  یہ ہے کہ دانشورانہ فکر کے بارے میں رائے بھی وہی  شخص دے سکتا ہے کہ جو کہ صاحبِ بصیرت ہو۔یہ مضامین چاہے علامہ کی فکر کی موافقت میں  ہوں میں کہ مُخالفت میں، پڑھنے والوں کو اِن میں بصیرت ملتی ہے کیونکہ یہ مضامین علامہ کی شاعری و خُطبات میں موجود  جہتوں کو حوالہ  بنا کر  لکھے گئے ہیں، اِن مضامین میں میرے خیال کے موجب دانشوروں نے گویا علم و بصیرت کے دریا  بہائے ہیں ۔۔۔ اِس بہتے  دریا میں سے میں نے بھی  جہاں تک ممکن ہوسکا اپنی علم کی پیاس بجھائی ہے۔۔
دانشوروں نے علامہ کی ہمہ جہت فکر  کے حوالے سے اِس قدر کہ زیادہ مضامین لکھے گئے  ہیں کہ شاید اسکی  مثال  برصغیر  میں ملنا مشکل ہے ۔
نوٹ : پوسٹ میں کہی گئی  باتوں سے  اتفاق کرنا نہ کرنا  آپ کا  حق  ہے ۔
{  رب   مہربان  رہے  }