Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Tuesday, June 10, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط # 8 )

ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


 منجانب فکرستانغوروفکر کے لئے

اب جبکہ ہم کرائے کے مکان میں شفٹ ہوگئے، میں نے اماں جان کو لالٹین کی

 لو میں ناچتے بونے کی بابت بتانے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی،ہم جس مکان

 میں شفت ہوئے تھے،ہمارے بالکل سامنے اپوزٹ سائٹ میں لکڑی کا ٹال تھی

 اُسی میں مالک ٹال کا مکان بھی تھا،ماموں جان کی بھی لکڑی کی ٹال تھی یوں

 ماموں جان سے اچّھی دعاسلام ہوئی تو ماموجان نے ٹال کے مالک سرفراز خان

 سے کہا کہ میں موسٰے لائن میں رہتا ہوں میرے بہن اس مکان میں رہی گی

 ذرا خیال رکھنا ،سرفراز نے کہاسمجھو کہ یہ تمہاری نہیں میری بھی بہن ہے۔

سرفراز خان کی فیملی بیوی،دو جوان لڑکے،تین جوان لڑکیاں تھیں ،یہ علاقہ نیا

 آباد کہلاتا ہے،یہاں کے مکینوں میں سندھی زیادہ بہت کم میمن تھے میمنی زبان

 کسی قدر سندھی زبان سے ملتی جلتی ہے ۔ پشتو یا اردو بولنے والا کوئی نہیں تھا۔ 

 کہنے کو  ہندی فلم کہلاتی ہے تاہم فلم کے ڈائیلاک اور گانے وغیرہ سب اردو

 میں ہونے کی وجہ سے پورے برصغیر میں اردو سمجھی جاتی ہ ،پاکستان میں اردو کو

 قومی زبان قرار دینے سے اسکولوں میں اردو کو لازمی زبان کے طور پڑھائی جاتی

یوں سندھی معاشرے میں رہنے میں ہمیں زبان کا کوئی مسئلہ نہیں  تھا  ، اُس

 وقت لوگوں کی واحد تفریح فلم دیکھنا تھی ، اس بات سے یہاں  یادوں کا ایک

 پرانا جھروکا کُھلا، ( اماں جان نے بتایاکہ حیدرآباد میں کسی فلم کے چرچے تھے

 پڑوسن بھی اپنے شوہر کے ساتھ فلم دیکھ آئی تھی اور تعریف کے پل باندھی

 تھی،اماں جان نے ابا جان سے فلم دیکھنے کی ضد کی ،اباجان زیادہ مذہبی تھے، 

 اورسنیما ہال گھر سے دور تھا اسلئے اُنہوں کہا تم فلم دیکھو میں اتنی دیر ہوٹل

 وغیرہ میں گزاروں گا،فلم ختم ہونے پر تمیں لے لوں گا😀)

 اماں کے لئے بچّوں کو اردو،عربی پڑھانے کے ذریعے روزی کا دروازہ کُھل گیا، 

 میرا اسکول میں داخلہ ہوگیا ، گویا زندگی کی گاڑی کو صحیح سمت مل گئی،زندگی کی

 گاڑی اچّھی طرح چلنے لگی، سال پہ سال گزر تے رہے اور  میں چوتھی جماعت

 میں پہنچ گیا 😀۔اب اجازت۔

یار سلامت، صحبت باقی/قسط # 9کے لئے۔ انشاء اللہ

خالق کائنات ہمیشہ مہربان رہے ۔




Wednesday, May 21, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط # 7 )

منجانب فکرستانغوروفکر کے لئے 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اماں جان مجھ پر قُرآن کی مختلف آیات پڑھ کر  دم کرتیں 

جبکہ  ماموں جان اور اُن کے دوست مُجھے مختلف مولویوں سے دم  

اور،دُعاکراتے، میں دم کیا ہُوا پانی پیتا،اتنے جتن سے بھی حاصل

 کچھ نہ ہوا ، میرے ڈر نے کے عمل میں کوئی کمی نہ آتی، تاہم 

  شاید اماں جان کے بہتے آنسو اور دُعائیں رنگ لائیں کہ پڑوسن

 اماں جان سے ملنے آئیں ، باتوں کے بعد اماں جان سے کہا کہ

 میری جوان بیٹی ہے اُسکو قُرآن پڑھنا سیکھا دیں،اِس کا کوئی نذرانہ

نہیں ہوسکا تاہم میں اپنی خوشی سے جو دوں گی اُس سے آپ خوش

 ہوگئیں ،یہ لڑکی آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی ،ہم  جس جگہ

 رہتے تھے وہ جگہ موسٰے لائن کہلاتی تھی ،دس منٹ کی واک پر

   برٹش  گورنمنٹ کا قائم کردہ لیاری کا بغدادی تھانہ تھا اس کا

 احاطہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں کھیلنے کے لئے گراؤنڈ اور 50 کے

قریب فیملی کواٹر جو کہ چٹانوں کے پتھروں کو تراش کر بنائے گئے

 بلاکوں سے بنائے گئے تھے ، اماں جان سے  جو لڑکی پڑھنے آنے

 لگی تھی اُسکی ہم جماعت سہیلیاں انہیں کواٹروں رہتی تھیں یوں

 اماں جان انہیں سہیلیوں کے زریعے فیملی کواٹر کے بچوں کو اُردو

 اور عربی پڑھا کے لئے متعارف ہوئیں ، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر

 آپ کوئی کام/ بزنس شروع کرنا چاہتے ہیں تو اُس کام/بزنس میں

 موجود گیپ تلاش کریں اور اُس گیپ میں چھلانگ لگائیں کامیابی

 قدم چومے گی۔ایسا ہی گیپ اماں جان کو فیملی کواٹر کی بچیوں کو

 اردو اور عربی پڑھا شکل میں ملا، گویا روزی کا دروازہ کُھل گیا ،اماں

 جان نے فیملی کواٹر کے بہت قریب  کرائے پر مکان لے لیا یوں

 ہم ماموں جان کے مکان سے اپنے کرائے کے مکان میں شفٹ

 ہو گئے ۔ کُچھ نیٹ کی خرابی کُچھ طبعیت کی خرابی قسط لکھنے میں

 آڑے آئی ہے ۔ اب اجازت۔

یارسلامت صحبت باقی/قسط # 8 کے لئے 

  انشاء اللہ

خالق کائنات  ہمیشہ مہربان رہے ۔

 



Monday, May 12, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط # 6 )

 منجانب فکرستانغوروفکر کے لئے  

___________________________

 کراچی میں ماموجان اپنی ذاتی  لکڑی کی ٹال کے مالک تھے مکان

کرائے کا تھا،سنہ 51 میں کراچی میں گھروں میں لائٹ نہیں تھی،

کئی علاقے اسٹریٹ سے بھی محروم تھے، گھروں میں لالٹین جلتی

 تھی ، مکان میں دو کمرے تھے جن میں سے ایک کمرے میں کچن

 بھی تھا،حمام اور لیٹرین الگ الگ تھے۔۔۔ ماموجان نے اپنی سی

 کوشش کی کہ اماں جان کو کسی اسکول میں پڑھانے کی نوکری مل

 جائے مگر ایسا نہیں ہُوسکا،وجہ یہ تھی کہ اُس زمانے میں کراچی

میں سندھی میڈیم اسکول زیادہ تھے اس کے علاوہ اماں جان کو

 انگلش نہیں آتی  تھی بھاولنگر والے ماموں جان کو بھی انگلش نہیں

 آتی تھی اسی لئے اُنہیں بھی بھاولنگر میں اچّھی نوکری نہیں مل سکی

 ،بقول اماں جان کے اُن کا گھرانہ اِس بات کے لئے مشہور تھا کہ

 اُن کے گھرانے کے چوہے بھی پڑھے لکھے ہیں( لیکن یہ سب

 اردواردو پڑھے لکھے ہیں😀)اِسکی وجہ،جس طرح خلافت عباسیہ

 کےدور میں علمی اور سائنسی کتب کے عربی تراجم  کے لئے بغداد

 میں دارالترجمہ قائم تھا) اسی طرز کا  جامعہ عثمانیہ کا دار الترجمہ تھا

 جسےسنہ 1917ء میں جامعہ عثمانیہ قائم کیا گیا  تھا جہاں پر  علمی

 اورسائنسی کتب کے تراجم اردو میں ہوتے تھے، جبکہ پڑوسی ملک  

 ہندوستان میں برطانوی راج کے تحت ثانوی و علیٰ ثانوی کی تدریس

 انگلش میں ہوتی تھی۔ ریاست حیدرآباد میں اُردو

 کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگا سکتے کہ عثمانیہ یونیورسٹی

 میں تمام کے تمام سبجیٹ کی تعلیم اردو میں ہوتی تھی یہاں تک

 کہ  MBBS کی تدریس بھی اردو میں ہوتی تھی۔۔اماں جان

 دوہری پریشانی میں مبتلا تھیں، ایک تو پریشانی یہ تھی کہ نوکری

نہیں مل رہی تھی دوسری  پریشانی یہ بھی تھی میں رات میں ڈرنے

لگا تھا ،ایسے میں اماں جان لاٹین میرے قریب رکھ تیں تو مجھے

 لاٹین کی روشنی کی ' لو 'میں بونا ناچتا ہُوا نظر آتا، اور مجھے اُنگی

 کے  اشارے  سے چُپ رہنے کا اشارہ کرتا، میں یہ بات اماں

 جان کو بتانا چاہتا ہوں لیکن کوشش کے باوجود میری زبان نہیں

کُھلتی، صبح بھی یہ بات اماں جان کو بتانے کی کوشش پر بھی میری

 زبان نہیں کُھلتی۔۔۔اور میں بیمار رہنے لگا۔۔ اب اجازت ۔

یار سلامت صحبت باقی/قسط # 7کے لئے۔ انشاء اللہ

خالق کائنات ہمیشہ مہربان رہے ۔

 

Sunday, May 4, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط # 5 )

  منجانب فکرستانغوروفکر کے لئے 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اباجان کی طرف سے شادی کرنے کا خط آنے پر اماں جان کی ذہنی

 حالت کیا ہوئی ہوگی اماں جان ہی جانتی ہونگیں۔ماموجان کو جو

 نوکری ملی تھی اُس میں تنخواہ بہت کم تھی مامی جان کا خیال تھا کہ

 درویش  کے والدآجائیں گے تو وہ بھی کہیں نہ کہیں کُچھ کریں 

 گے یوں زندگی کی گاڑی چلنے گی ،اب تو معاملہ دوسرا ہو گیا ،

مامی جان کو ہم ماں بیٹا بوجھ لگنے لگے تھے لیکن اب حل کیا ہو؟

دن گزرنے کے ساتھ ساتھ نند بھاوج تنازعازت بھی بڑھنے لگے۔

 اماں جان کی خالہ کا ایک بیٹا تبلیغی جماعت میں تھا اُس کی بچپن 

میں ہی نسبت ٹھرائی گئی تھی لیکن ماموں کے یہ خالہ ذات بھائی

شادی نہیں کرنا چاہتے تھے یا ابھی نہیں کرنا چاہتے تھے تاہم لڑکی

والے دباؤ  ڈال رہے تھے کہ ہمیں اور بچوں کی شادی بھی کرنی 

 ہے ،اس کے لئے ہم نہیں رُکیں گے۔خالہ ذات بھائی کا تبلیغی

 جماعت والا دوست کراچی میں رہتا تھا یہ بات ہے 1946 کی یعنی

پاکستان بنے سے پہلے کی بات ہے ،خالہ ذات بھائی شادی کرنے

 کے دباؤ کو برداشت نہ کرتے ہوئے اپنے تبلیغی جماعت کے

 دوست کو خط  لکھا  اور کراچی دوست کے پاس چلے گئے، حقیقی

 ماموجان جب پاکستان جا رہے۔

 تھے خالہ جان سے بھائی کا پتہ لے لیا ،دونوں بھائیوں میں خطوط کا

کا تبادلہ ہورہا تھا  ، اماں جان نے نند بھاوج  تنازعات سے  جان

چُھڑانے  کے لئے اماں جان نے ماموں جان سے کہا خالہ ذات

 بھائی کو خط لکھیں کہ میں اُن کے پاس  کراچی آنا چاہتی ہوں،

امید ہے کہ کراچی میں کسی اسکول میں پڑھانے  کی نوکری مل

 جائے گی۔ماموں جان کے بلانے پر اماں جان نے کراچی جانے کی

 تیاری شروع کردی ، ماموں جان نے کراچی جانے والی ٹرین پر

 سوار کرادیا۔ کراچی پہنچنے پر ایک قلی کو سامان دیا، اُس کے ساتھ

 چلنے لگیں، کسی با ت پر ضد کر کے میں روتے ہوئےچل رہا تھا

اماں جان قلی جتنی تیز نہیں چل پارہی اچانک اُنہیں احساس ہُوا

 کہ بچے کے رونے کی آوار نہیں آرہی ہے ، مڑکر دیکھا تو میں

 نظر  نہیں آیا اماں جان کے اوسان خطا ہوگئے،وہ پاگل کی طرح

اِدھر اُدھر بھاگنے لگیں، قلی اور سامان کو بھول گئیں کہ اُنہیں

 میرے رونے کی آواز آئی وہ میری آواز کی طرف دوڑیں  میں

 انہیں نظر آگیا 😀 قلی بھی سامان لئے اماں جان کو ڈھونتے

ہوئے پہنچ گیا ،مسلم خواتین کے برقعے وہاں کی مقامی تہذیب کے

 عکاس ہوتے ہیں مثال افغانی برقعے، بنگلہ دیشی برقعے اسی طرح

حیدرآبادی برقعے بوہری برقعوں سے ملتے جلتے طرز کے ہیں جب

 ہم اسٹیشن سے باہر نکلے ، ماموں جان نے اماں کو حیدرآبادی

 برقعے کی وجہ سے فوراً پہچان لیا۔۔

یاد سلامت صحبت باقی/قسط # 5 کے لئے۔

خالق کائنات ہمیشہ مہربان رہے ۔اب اجازت۔

 






Sunday, April 27, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط # 4)

منجانب فکرستانغوروفکر کے لئے

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

آگے بڑھنے سے پہلے جنم  بھومی ریاست حیدرآباد کے بارے میں 

یہ تو میں  پہلے لکھ چُکا ہوں کہ ' آصف جاہی ' نے 1724 میں

مغلوں کی حکومت سے آزادی  حاصل کرکے ایک  خود مختار

 ریاست قائم کی تھی،یہ چھوٹی موٹی ریاست نہیں تھی اسکی وسعت

 کا  اندازہ ۔

۔ 17 ستمبر1948 کو جب بھارتی فوج نے حکومت کا خاتمہ کیا

اُس وقت ریاست کا رقبہ(انگلستان اوراسکاٹ لینڈ کے مجموعی رقبے

  سے بھی زیادہ تھا) جب ترکی خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد دنیا

  میں اسلامی مملکتیں جو باقی تھیں سعودی عرب' افغانستان و ایران

 وغیرہ پر مشتمل تھیں لیکن خوش حالی و شان و شوکت کے لحاظ

 سے ریاستِ حیدرآباد کو جو بین الاقامی مقام حاصل تھا ۔ مکہ معظمہ

 اور مدینہ منورہ کے پانی اور بجلی کے خرچ ریاستِ حیدرآباد نے

 اپنے ذمے لے رکھے تھے۔ ' رباط' کے نام سے نظام نے مکہ اور

 مدینہ میں حاجیوں کو رہنے کے لیے عمارتیں بنوائی ۔ریاست

 حیدرآباد کو معیشت   حوالے  سے  دنیا کی واحد ہیروں کی منڈی

 کی حیثیت  حاصل  تھی۔ یہاں ہیروں کی کانیں تھیں، کوہ نور

 ہیرا   بھی گولکنڈہ    کی کان  سے نکلا تھا۔ٹائم میگزین کے مطابق

 نظام میر عثمان علی خان  دنیا کے  امیر ترین شخص  تھے۔

۔اب اجازت ۔

 یار سلامت صحبت باقی/ قسط # 4 کے لئے۔

پوسٹ کی تیاری میں درج لنک سائٹ سے مدد کی ہے۔

https://www.facebook.com/groups/230979545799/posts/time-magazine-february-22-1937-nizam-of-hyderabad-mir-osman-ali-khan-featured-on/10158158986325800/

https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%82%D9%88%D8%B7_%D8%AD%DB%8C%D8%AF%D8%B1%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF


Thursday, April 24, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط # 3)

 منجانب فکرستانغوروفکر کے لئے 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

بھاولنگر میں ماموجان کے ایک دوست جو کہ ہم سے پہلے پاکستان

 آگئے تھےحیدرآباد والے مکان کے کاغذات دیکھانے پراُنہیں ایک

ہندو فیملی کا چھوڑا ہوا مکان الاٹ ہو گیا تھا ،ماموں جان کے یہ

 دوست باڈر سے ہمیں اپنے گھر لے گئے، یہ دوست ماموں جان کو 

نوکری دلانے میں مددگار ثابت ہوئے،نوکری ملنے پر کرائے کے 

مکان میں شفٹ ہوگئے ،اماں جان اور اباجان کے درمیان خطوط کا

سلسلہ جاری تھا کہ خط آیا کہ پنشن کے کاغذات پر دستخط ہوگئے

 ہیں اب ایک ہفتے میں پیسے مل جائیں گے اور میں پاکستان پہنچ

 جاؤں گا ابھی تین دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ اباجان کا ایک اور

 خط آگیا کہ اب تو بڑی حد تک حیدرآباد کے حالات بہتر ہو گئے

 ہیں اسلئے بجائے میں پاکستان آؤں آپ حیدرآباد آجائیں ، اس کے

 جواب میں ماموں جان نے اباجان کو خط لکھا کہ ہم روز حیدرآباد

کی خبریں پڑھتے ہیں کہ ہندو مسلمانوں پر کیسے کیسے ستم  ڈھارے

ہیں ،آپ پاکستان آجائے کہ یہاں پر کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے،

 وہاں پر آئے دن کے ڈر اور خوف کے سائے زندگی بسر ہوگی 

اس کا جواب اباجان نے اماں جان کو یہ دیا کہ یہاں پر میری اچّھی

 خاصی پنشن منظور ہوئی ہے،وہاں پر مجھے پنشن نہیں ملے گی اور

 میں کوئی کام تو جانتا نہیں،مُجھے لگتا ہے کہ میں پاکستان جاکے

 مصیبت میں پھنس جاؤں گا ،جواب میں اماں جان نے لکھا کہ

جیسے میں حیدرآباد میں پرائیویٹ اسکول میں پڑھا تی تھی اسی طرح

پاکستان میں بھی سرکاری یا پرائیویٹ اسکول میں نوکری کرلوں گی،

 آپ صرف پاکستان آنے کی سوچیں ، درویش کو پروان چڑھا نے

سوچیں کہ یہ پنشن سے بہتر ہوگا۔اس کے جواب میں اباجان نے

 خاندان سے ایسی مثالیں دیں،جن کے بچّے شادی کے بعد والدین

کو پوچھ کے نہیں دیکھا۔۔۔ غرض کہ اباجان اور اماں جان کے 

درمیان دلیلوں کی جنگ چل رہی کہ اباجان کی طرف خط آیا کہ

  فلاں رشتہ دار کی لڑکی سے شادی کر لیا ہوں۔یقیناً اماں جان کو

صدمہ ہُوا۔درج بالا تمام تفصیلات اماں جان نے مُجھے بتائی تھیں۔

یار سلامت صحبت باقی/ قسط # 4 کے لئے۔

۔اب جازت۔



 


Sunday, April 20, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط # 2)

منجانب فکرستانغوروفکر کے لئے

گزشتہ قسط میں یہ تو  کہا گیا کہ حالات کی مجبوری کے تحت ساتویں

  جماعت سے اسکول چھوڑنا پڑا تھا،سوال یہ ہے کہ ایسی کیا مجبوری

 تھی  کہ اسکول چھوڑ نا پڑا ؟

اس کے لئے مجھے ماضی میں جانا پڑے گا۔

 حیدرآباد ایک نوابی خود مختار ریاست تھی، جسے آصف جاہی  نے

 1724 میں مغلوں کی حکومت سے آزادی  حاصل کرکے ایک

  خود مختار ریاست قائم کی تھی،سنہ 1852 میں انڈیا  برطانوی

  کے تحت آگیا تاہم ریاست حیدرآباد کی خودمختاری پرکوئی آنچ

 نہیں آئی تھی،ریاست کے برطانوی سے قریبی تعلقات تھے اِس 

کی مثال یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں ریاست  کی فوج نے

 برطانیہ کی طرف سے حصّہ لیا ،والد صاحب ریاست کی فوج میں

شامل تھے یوں والد صاحب نے دوسری عالمی جنگ میں حصّہ لیا،

 جنگ 2 ستمبر 1945 کو ختم ہوئی جس کے تھوڑے دنوں بعد والد

  والد صاحب نے فوج سے ریٹائرہونے کا فیصلہ کیا ،جس کی کاروائی

 جاری تھی کہ 11 ستمبر کو 1948 کو قائداعظم کا انتقال ہُوا اور

13ستمبر کو انڈیا نے  ریاست حیدرآباد دکن پر حملہ کردیا ریاست

 کی فوج نے صرف پانچ دنوں تک مراحمت کر سکی 17ستمبر کو انڈیا

نے ریاست حیدرآباد پر قبضہ کر لیا۔ ریاست میں مسلمان اقلیت

 میں اور ہندو اکثریت میں تھے مسلمانوں کی املاک و عصمتیں لوٹی

 جانے لگیں ، والد صاحب کی پنشن کی کاروائی میں دیر ہونے لگی

 ایسے میں میرے ماموجان ہمارے گھر آئے،والد صاحب اور اماں 

جان سے کہا کہ میں بمع فیملی پاکستان جا را ہوں آپ بھی ہمارے

 ساتھ چلیں،والد صاحب نے کہا ، میری پنشن کی کاروائی آخری

  مرحلے میں ہے،آپ لوگ  یہاں سے نکلو کہ حالات خراب سے

خراب ہوتے جا رہے ہیں ،جیسے ہی مجھے پنشن  کے  پیسے ملے

 گے میں بھی پاکستان پہنچ جاؤں گا۔اماں جان کے مطابق

 میں اُس وقت سوا دو سال کا تھا،ہم سب لوگ بھاولنگر باڈر سے

پاکستان پہنچ گئے جبکہ والد صاحب پنشن کے پیسوں کی خاطر حیدرآباد میں رُکے رہے ۔۔۔

بشرطے کہ زندگی ۔۔۔ اگلی قسط#3۔ 

۔اب اجازت۔