Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Wednesday, May 21, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط # 7 )

منجانب فکرستانغوروفکر کے لئے 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اماں جان مجھ پر قُرآن کی مختلف آیات پڑھ کر  دم کرتیں 

جبکہ  ماموں جان اور اُن کے دوست مُجھے مختلف مولویوں سے دم  

اور،دُعاکراتے، میں دم کیا ہُوا پانی پیتا،اتنے جتن سے بھی حاصل

 کچھ نہ ہوا ، میرے ڈر نے کے عمل میں کوئی کمی نہ آتی، تاہم 

  شاید اماں جان کے بہتے آنسو اور دُعائیں رنگ لائیں کہ پڑوسن

 اماں جان سے ملنے آئیں ، باتوں کے بعد اماں جان سے کہا کہ

 میری جوان بیٹی ہے اُسکو قُرآن پڑھنا سیکھا دیں،اِس کا کوئی نذرانہ

نہیں ہوسکا تاہم میں اپنی خوشی سے جو دوں گی اُس سے آپ خوش

 ہوگئیں ،یہ لڑکی آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی ،ہم  جس جگہ

 رہتے تھے وہ جگہ موسٰے لائن کہلاتی تھی ،دس منٹ کی واک پر

   برٹش  گورنمنٹ کا قائم کردہ لیاری کا بغدادی تھانہ تھا اس کا

 احاطہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں کھیلنے کے لئے گراؤنڈ اور 50 کے

قریب فیملی کواٹر جو کہ چٹانوں کے پتھروں کو تراش کر بنائے گئے

 بلاکوں سے بنائے گئے تھے ، اماں جان سے  جو لڑکی پڑھنے آنے

 لگی تھی اُسکی ہم جماعت سہیلیاں انہیں کواٹروں رہتی تھیں یوں

 اماں جان انہیں سہیلیوں کے زریعے فیملی کواٹر کے بچوں کو اُردو

 اور عربی پڑھا کے لئے متعارف ہوئیں ، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر

 آپ کوئی کام/ بزنس شروع کرنا چاہتے ہیں تو اُس کام/بزنس میں

 موجود گیپ تلاش کریں اور اُس گیپ میں چھلانگ لگائیں کامیابی

 قدم چومے گی۔ایسا ہی گیپ اماں جان کو فیملی کواٹر کی بچیوں کو

 اردو اور عربی پڑھا شکل میں ملا، گویا روزی کا دروازہ کُھل گیا ،اماں

 جان نے فیملی کواٹر کے بہت قریب  کرائے پر مکان لے لیا یوں

 ہم ماموں جان کے مکان سے اپنے کرائے کے مکان میں شفٹ

 ہو گئے ۔ کُچھ نیٹ کی خرابی کُچھ طبعیت کی خرابی قسط لکھنے میں

 آڑے آئی ہے ۔ اب اجازت۔

یارسلامت صحبت باقی/قسط # 8 کے لئے 

  انشاء اللہ

خالق کائنات  ہمیشہ مہربان رہے ۔

 



Monday, May 12, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط # 6 )

 منجانب فکرستانغوروفکر کے لئے  

___________________________

 کراچی میں ماموجان اپنی ذاتی  لکڑی کی ٹال کے مالک تھے مکان

کرائے کا تھا،سنہ 51 میں کراچی میں گھروں میں لائٹ نہیں تھی،

کئی علاقے اسٹریٹ سے بھی محروم تھے، گھروں میں لالٹین جلتی

 تھی ، مکان میں دو کمرے تھے جن میں سے ایک کمرے میں کچن

 بھی تھا،حمام اور لیٹرین الگ الگ تھے۔۔۔ ماموجان نے اپنی سی

 کوشش کی کہ اماں جان کو کسی اسکول میں پڑھانے کی نوکری مل

 جائے مگر ایسا نہیں ہُوسکا،وجہ یہ تھی کہ اُس زمانے میں کراچی

میں سندھی میڈیم اسکول زیادہ تھے اس کے علاوہ اماں جان کو

 انگلش نہیں آتی  تھی بھاولنگر والے ماموں جان کو بھی انگلش نہیں

 آتی تھی اسی لئے اُنہیں بھی بھاولنگر میں اچّھی نوکری نہیں مل سکی

 ،بقول اماں جان کے اُن کا گھرانہ اِس بات کے لئے مشہور تھا کہ

 اُن کے گھرانے کے چوہے بھی پڑھے لکھے ہیں( لیکن یہ سب

 اردواردو پڑھے لکھے ہیں😀)اِسکی وجہ،جس طرح خلافت عباسیہ

 کےدور میں علمی اور سائنسی کتب کے عربی تراجم  کے لئے بغداد

 میں دارالترجمہ قائم تھا) اسی طرز کا  جامعہ عثمانیہ کا دار الترجمہ تھا

 جسےسنہ 1917ء میں جامعہ عثمانیہ قائم کیا گیا  تھا جہاں پر  علمی

 اورسائنسی کتب کے تراجم اردو میں ہوتے تھے، جبکہ پڑوسی ملک  

 ہندوستان میں برطانوی راج کے تحت ثانوی و علیٰ ثانوی کی تدریس

 انگلش میں ہوتی تھی۔ ریاست حیدرآباد میں اُردو

 کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگا سکتے کہ عثمانیہ یونیورسٹی

 میں تمام کے تمام سبجیٹ کی تعلیم اردو میں ہوتی تھی یہاں تک

 کہ  MBBS کی تدریس بھی اردو میں ہوتی تھی۔۔اماں جان

 دوہری پریشانی میں مبتلا تھیں، ایک تو پریشانی یہ تھی کہ نوکری

نہیں مل رہی تھی دوسری  پریشانی یہ بھی تھی میں رات میں ڈرنے

لگا تھا ،ایسے میں اماں جان لاٹین میرے قریب رکھ تیں تو مجھے

 لاٹین کی روشنی کی ' لو 'میں بونا ناچتا ہُوا نظر آتا، اور مجھے اُنگی

 کے  اشارے  سے چُپ رہنے کا اشارہ کرتا، میں یہ بات اماں

 جان کو بتانا چاہتا ہوں لیکن کوشش کے باوجود میری زبان نہیں

کُھلتی، صبح بھی یہ بات اماں جان کو بتانے کی کوشش پر بھی میری

 زبان نہیں کُھلتی۔۔۔اور میں بیمار رہنے لگا۔۔ اب اجازت ۔

یار سلامت صحبت باقی/قسط # 7کے لئے۔ انشاء اللہ

خالق کائنات ہمیشہ مہربان رہے ۔

 

Sunday, May 4, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط # 5 )

  منجانب فکرستانغوروفکر کے لئے 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اباجان کی طرف سے شادی کرنے کا خط آنے پر اماں جان کی ذہنی

 حالت کیا ہوئی ہوگی اماں جان ہی جانتی ہونگیں۔ماموجان کو جو

 نوکری ملی تھی اُس میں تنخواہ بہت کم تھی مامی جان کا خیال تھا کہ

 درویش  کے والدآجائیں گے تو وہ بھی کہیں نہ کہیں کُچھ کریں 

 گے یوں زندگی کی گاڑی چلنے گی ،اب تو معاملہ دوسرا ہو گیا ،

مامی جان کو ہم ماں بیٹا بوجھ لگنے لگے تھے لیکن اب حل کیا ہو؟

دن گزرنے کے ساتھ ساتھ نند بھاوج تنازعازت بھی بڑھنے لگے۔

 اماں جان کی خالہ کا ایک بیٹا تبلیغی جماعت میں تھا اُس کی بچپن 

میں ہی نسبت ٹھرائی گئی تھی لیکن ماموں کے یہ خالہ ذات بھائی

شادی نہیں کرنا چاہتے تھے یا ابھی نہیں کرنا چاہتے تھے تاہم لڑکی

والے دباؤ  ڈال رہے تھے کہ ہمیں اور بچوں کی شادی بھی کرنی 

 ہے ،اس کے لئے ہم نہیں رُکیں گے۔خالہ ذات بھائی کا تبلیغی

 جماعت والا دوست کراچی میں رہتا تھا یہ بات ہے 1946 کی یعنی

پاکستان بنے سے پہلے کی بات ہے ،خالہ ذات بھائی شادی کرنے

 کے دباؤ کو برداشت نہ کرتے ہوئے اپنے تبلیغی جماعت کے

 دوست کو خط  لکھا  اور کراچی دوست کے پاس چلے گئے، حقیقی

 ماموجان جب پاکستان جا رہے۔

 تھے خالہ جان سے بھائی کا پتہ لے لیا ،دونوں بھائیوں میں خطوط کا

کا تبادلہ ہورہا تھا  ، اماں جان نے نند بھاوج  تنازعات سے  جان

چُھڑانے  کے لئے اماں جان نے ماموں جان سے کہا خالہ ذات

 بھائی کو خط لکھیں کہ میں اُن کے پاس  کراچی آنا چاہتی ہوں،

امید ہے کہ کراچی میں کسی اسکول میں پڑھانے  کی نوکری مل

 جائے گی۔ماموں جان کے بلانے پر اماں جان نے کراچی جانے کی

 تیاری شروع کردی ، ماموں جان نے کراچی جانے والی ٹرین پر

 سوار کرادیا۔ کراچی پہنچنے پر ایک قلی کو سامان دیا، اُس کے ساتھ

 چلنے لگیں، کسی با ت پر ضد کر کے میں روتے ہوئےچل رہا تھا

اماں جان قلی جتنی تیز نہیں چل پارہی اچانک اُنہیں احساس ہُوا

 کہ بچے کے رونے کی آوار نہیں آرہی ہے ، مڑکر دیکھا تو میں

 نظر  نہیں آیا اماں جان کے اوسان خطا ہوگئے،وہ پاگل کی طرح

اِدھر اُدھر بھاگنے لگیں، قلی اور سامان کو بھول گئیں کہ اُنہیں

 میرے رونے کی آواز آئی وہ میری آواز کی طرف دوڑیں  میں

 انہیں نظر آگیا 😀 قلی بھی سامان لئے اماں جان کو ڈھونتے

ہوئے پہنچ گیا ،مسلم خواتین کے برقعے وہاں کی مقامی تہذیب کے

 عکاس ہوتے ہیں مثال افغانی برقعے، بنگلہ دیشی برقعے اسی طرح

حیدرآبادی برقعے بوہری برقعوں سے ملتے جلتے طرز کے ہیں جب

 ہم اسٹیشن سے باہر نکلے ، ماموں جان نے اماں کو حیدرآبادی

 برقعے کی وجہ سے فوراً پہچان لیا۔۔

یاد سلامت صحبت باقی/قسط # 5 کے لئے۔

خالق کائنات ہمیشہ مہربان رہے ۔اب اجازت۔