Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Sunday, April 27, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط # 4)

منجانب فکرستانغوروفکر کے لئے

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

آگے بڑھنے سے پہلے جنم  بھومی ریاست حیدرآباد کے بارے میں 

یہ تو میں  پہلے لکھ چُکا ہوں کہ ' آصف جاہی ' نے 1724 میں

مغلوں کی حکومت سے آزادی  حاصل کرکے ایک  خود مختار

 ریاست قائم کی تھی،یہ چھوٹی موٹی ریاست نہیں تھی اسکی وسعت

 کا  اندازہ ۔

۔ 17 ستمبر1948 کو جب بھارتی فوج نے حکومت کا خاتمہ کیا

اُس وقت ریاست کا رقبہ(انگلستان اوراسکاٹ لینڈ کے مجموعی رقبے

  سے بھی زیادہ تھا) جب ترکی خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد دنیا

  میں اسلامی مملکتیں جو باقی تھیں سعودی عرب' افغانستان و ایران

 وغیرہ پر مشتمل تھیں لیکن خوش حالی و شان و شوکت کے لحاظ

 سے ریاستِ حیدرآباد کو جو بین الاقامی مقام حاصل تھا ۔ مکہ معظمہ

 اور مدینہ منورہ کے پانی اور بجلی کے خرچ ریاستِ حیدرآباد نے

 اپنے ذمے لے رکھے تھے۔ ' رباط' کے نام سے نظام نے مکہ اور

 مدینہ میں حاجیوں کو رہنے کے لیے عمارتیں بنوائی ۔ریاست

 حیدرآباد کو معیشت   حوالے  سے  دنیا کی واحد ہیروں کی منڈی

 کی حیثیت  حاصل  تھی۔ یہاں ہیروں کی کانیں تھیں، کوہ نور

 ہیرا   بھی گولکنڈہ    کی کان  سے نکلا تھا۔ٹائم میگزین کے مطابق

 نظام میر عثمان علی خان  دنیا کے  امیر ترین شخص  تھے۔

۔اب اجازت ۔

 یار سلامت صحبت باقی/ قسط # 4 کے لئے۔

پوسٹ کی تیاری میں درج لنک سائٹ سے مدد کی ہے۔

https://www.facebook.com/groups/230979545799/posts/time-magazine-february-22-1937-nizam-of-hyderabad-mir-osman-ali-khan-featured-on/10158158986325800/

https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%82%D9%88%D8%B7_%D8%AD%DB%8C%D8%AF%D8%B1%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF


Thursday, April 24, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط # 3)

 منجانب فکرستانغوروفکر کے لئے 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

بھاولنگر میں ماموجان کے ایک دوست جو کہ ہم سے پہلے پاکستان

 آگئے تھےحیدرآباد والے مکان کے کاغذات دیکھانے پراُنہیں ایک

ہندو فیملی کا چھوڑا ہوا مکان الاٹ ہو گیا تھا ،ماموں جان کے یہ

 دوست باڈر سے ہمیں اپنے گھر لے گئے، یہ دوست ماموں جان کو 

نوکری دلانے میں مددگار ثابت ہوئے،نوکری ملنے پر کرائے کے 

مکان میں شفٹ ہوگئے ،اماں جان اور اباجان کے درمیان خطوط کا

سلسلہ جاری تھا کہ خط آیا کہ پنشن کے کاغذات پر دستخط ہوگئے

 ہیں اب ایک ہفتے میں پیسے مل جائیں گے اور میں پاکستان پہنچ

 جاؤں گا ابھی تین دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ اباجان کا ایک اور

 خط آگیا کہ اب تو بڑی حد تک حیدرآباد کے حالات بہتر ہو گئے

 ہیں اسلئے بجائے میں پاکستان آؤں آپ حیدرآباد آجائیں ، اس کے

 جواب میں ماموں جان نے اباجان کو خط لکھا کہ ہم روز حیدرآباد

کی خبریں پڑھتے ہیں کہ ہندو مسلمانوں پر کیسے کیسے ستم  ڈھارے

ہیں ،آپ پاکستان آجائے کہ یہاں پر کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے،

 وہاں پر آئے دن کے ڈر اور خوف کے سائے زندگی بسر ہوگی 

اس کا جواب اباجان نے اماں جان کو یہ دیا کہ یہاں پر میری اچّھی

 خاصی پنشن منظور ہوئی ہے،وہاں پر مجھے پنشن نہیں ملے گی اور

 میں کوئی کام تو جانتا نہیں،مُجھے لگتا ہے کہ میں پاکستان جاکے

 مصیبت میں پھنس جاؤں گا ،جواب میں اماں جان نے لکھا کہ

جیسے میں حیدرآباد میں پرائیویٹ اسکول میں پڑھا تی تھی اسی طرح

پاکستان میں بھی سرکاری یا پرائیویٹ اسکول میں نوکری کرلوں گی،

 آپ صرف پاکستان آنے کی سوچیں ، درویش کو پروان چڑھا نے

سوچیں کہ یہ پنشن سے بہتر ہوگا۔اس کے جواب میں اباجان نے

 خاندان سے ایسی مثالیں دیں،جن کے بچّے شادی کے بعد والدین

کو پوچھ کے نہیں دیکھا۔۔۔ غرض کہ اباجان اور اماں جان کے 

درمیان دلیلوں کی جنگ چل رہی کہ اباجان کی طرف خط آیا کہ

  فلاں رشتہ دار کی لڑکی سے شادی کر لیا ہوں۔یقیناً اماں جان کو

صدمہ ہُوا۔درج بالا تمام تفصیلات اماں جان نے مُجھے بتائی تھیں۔

یار سلامت صحبت باقی/ قسط # 4 کے لئے۔

۔اب جازت۔



 


Sunday, April 20, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے(قسط # 2)

منجانب فکرستانغوروفکر کے لئے

گزشتہ قسط میں یہ تو  کہا گیا کہ حالات کی مجبوری کے تحت ساتویں

  جماعت سے اسکول چھوڑنا پڑا تھا،سوال یہ ہے کہ ایسی کیا مجبوری

 تھی  کہ اسکول چھوڑ نا پڑا ؟

اس کے لئے مجھے ماضی میں جانا پڑے گا۔

 حیدرآباد ایک نوابی خود مختار ریاست تھی، جسے آصف جاہی  نے

 1724 میں مغلوں کی حکومت سے آزادی  حاصل کرکے ایک

  خود مختار ریاست قائم کی تھی،سنہ 1852 میں انڈیا  برطانوی

  کے تحت آگیا تاہم ریاست حیدرآباد کی خودمختاری پرکوئی آنچ

 نہیں آئی تھی،ریاست کے برطانوی سے قریبی تعلقات تھے اِس 

کی مثال یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں ریاست  کی فوج نے

 برطانیہ کی طرف سے حصّہ لیا ،والد صاحب ریاست کی فوج میں

شامل تھے یوں والد صاحب نے دوسری عالمی جنگ میں حصّہ لیا،

 جنگ 2 ستمبر 1945 کو ختم ہوئی جس کے تھوڑے دنوں بعد والد

  والد صاحب نے فوج سے ریٹائرہونے کا فیصلہ کیا ،جس کی کاروائی

 جاری تھی کہ 11 ستمبر کو 1948 کو قائداعظم کا انتقال ہُوا اور

13ستمبر کو انڈیا نے  ریاست حیدرآباد دکن پر حملہ کردیا ریاست

 کی فوج نے صرف پانچ دنوں تک مراحمت کر سکی 17ستمبر کو انڈیا

نے ریاست حیدرآباد پر قبضہ کر لیا۔ ریاست میں مسلمان اقلیت

 میں اور ہندو اکثریت میں تھے مسلمانوں کی املاک و عصمتیں لوٹی

 جانے لگیں ، والد صاحب کی پنشن کی کاروائی میں دیر ہونے لگی

 ایسے میں میرے ماموجان ہمارے گھر آئے،والد صاحب اور اماں 

جان سے کہا کہ میں بمع فیملی پاکستان جا را ہوں آپ بھی ہمارے

 ساتھ چلیں،والد صاحب نے کہا ، میری پنشن کی کاروائی آخری

  مرحلے میں ہے،آپ لوگ  یہاں سے نکلو کہ حالات خراب سے

خراب ہوتے جا رہے ہیں ،جیسے ہی مجھے پنشن  کے  پیسے ملے

 گے میں بھی پاکستان پہنچ جاؤں گا۔اماں جان کے مطابق

 میں اُس وقت سوا دو سال کا تھا،ہم سب لوگ بھاولنگر باڈر سے

پاکستان پہنچ گئے جبکہ والد صاحب پنشن کے پیسوں کی خاطر حیدرآباد میں رُکے رہے ۔۔۔

بشرطے کہ زندگی ۔۔۔ اگلی قسط#3۔ 

۔اب اجازت۔



Saturday, April 12, 2025

یاد داشت کے جھروکوں سے ( قسط#1) ۔

منجانب فکرستانغوروفکر کے لئے 

 جین، لوٹن کبوتر ،اچانک، مذہب،  فلسفہ،سائنس،

نفسیات،جنسیات،تہذیب و ثقافت۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حالات کی مجبوری،ساتویں جماعت سے ہی اسکول چھوڑ،کام پر جانے

 لگا،نائٹ اسکول میں داخلہ لے لیا (1960کے دور میں کراچی میں

 نائٹ اسکول ہُوا کرتے تھے جو پرائیویٹ میٹرک کراتے تھے )

یوں دن میں کام رات میں نائٹ اسکول جانا ٹہرا۔

ہم لیاری کے جس  علاقے میں رہتے تھے وہ نیاآباد کہلاتا ہے،

یہاں کی آبادی میں میمن،سندھی،بلوچی،مکرانی، وغیرہ شامل ہیں،

یہاں ابراہیم کی لائبریری  غالباً ابھی بھی موجود ہے،میری جین

 میں بھی پڑھنے اور گانے سُننے کا شوق موجود ہے،اِس لائبریری

کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں سے رومانی،تاریخی،جاسوسی،ناولوں

 کے علاوہ  ہر قسم کے  ڈائجسٹ،رسالے بھی کرائے پر مل جاتے

 ہیں،مجھے میرے شوق نے اِس لائبریری کا لوٹن کبوتر بنا دیا وہ

یوں کہ پہلے پہل تاریخی ناول پڑھنے کی کوشش کی تھی تاہم

 یہ بھاری  پتھر صرف چوم کر چھوڑ دیا،پھر باری آئی رومانی ناولوں

  کی ان ناولوں کو بھی میرا ذہن جذب کرنے سے انکاری تھا  یوں

 جاسوسی ناولوں کی باری آگئی، یہ بھی زیادہ دن ساتھ نہ نبھا سکے

 اِن جاسوسی ناولوں میں لفظ"اچانک"اتنا زیادہ استعمال ہوتا ہے کہ

 پڑھنے والے کے ذہن میں اُٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے یہ لفظ گونجنے

 لگتا ہے جیسے کہ ذہن میں کوئی خرابی ہوگئی ہو، میں ڈر گیا اور

 میں نے جاسوسی ناول  پڑھنے چھوڑدئیے ،(تاہم میں یہ تو نہیں

 کہہ سکتا کہ جاسوسی ناول لکھنے والے ابن صفی کے ذہن میں

 جو خلل واقع ہُوا تھا اُس کا سبب یہ لفظ " اچانک " رہا ہوگا )

 جین کی پڑھنے کی پیاس نے ڈائجسٹوں اور رسالوں کی راہ دِکھائی

 یوں میری جین کی پیاس بجھنی لگی کہ اِن  ڈائجسٹوں اور رسالوں

 میں مُجھے مذہب،فلسفہ،سائنس،نفسیات،جنسیات،اورتہذیب و ثقافت

 جیسے مضامین پڑھنے کو ملے جس سے میرے ذہن کی آبیاری 

 ہونے لگی ۔اب اجازت۔