" وراۓ عقل ہے ۔۔۔۔ تیری خدائ "
فکرستان کی شیئرنگ : برائےغوروفکر کیلئے باقی مادہ کہاں چلا گیا؟؟ بِگ بینگ کے بعد باقی مادہ کہاں گیا؟ جوں جوں ’لارج ہیڈرون کولائیڈر‘ کو مرمت کے بعد دوبارہ سٹارٹ کرنے کا وقت قریب آ رہا ہے اور دنیا کی اس سب سے بڑی میشن سے ذرّاتی سائنس کی تاریخ میں تیز ترین رفتار سے نکلنے جا رہے ہیں، ماہرین طبیعات کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ماہرین کی خواہش ہے کہ اس مرتبہ کائنات کی تخلیق کے بنیادی ذرّے اتنی تیزی سے ایک دوسرے سے ٹکرائیں کہ اس سے خود طبیعات کی بنیادیں ہِل جائیں۔ یونیورسٹی آف لوِر پول کے شعبۂ ذرّاتی طبیعات سے منسک ماہر تارا شیئرز کہتی ہیں کہ ’میں میشن کے دوبارہ چلنے کا بے چینی سے انتظار کر رہی ہوں۔ ہم جنوری 2013 سے اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب اس مشین سے پروٹون کی شعاع دوبارہ نکلے گی۔‘ فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی درمیانی سرحد پر واقع اس تجربہ گاہ میں آپ کو جابجا بڑی بڑی تعیمراتی مشینیں دکھائی دیتی ہیں اور ہر تھوڑی دیر بعد ان کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اس کے ساتھ ’لارج ہیڈرون کولائیڈر‘ یا ’ایل ایچ سی‘ کی چلنے کی آواز بھی گونجتی رہتی ہے۔ ...