فکرستان سے چند غور طلب سوالات ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکھوں کے مقدس گولڈن ٹمپس میں سکھوں کا قتل عام ہورہا تھا ۔ لیکن اندرا گاندھی کی سیکورٹی
اسکواڈمیںسکھ موجود تھا ۔ انٹیلیجنس کہلانے والوں کو ،یہ تو معلوم ہوگا کہ مذھبیت اورقومیت
انسانی جذبات کو شدید مشتعل کرتے ہیں ۔پھر بھی اُنھوں نے اندرا گاندھی کی سیکورٹی اسکواڈمیں
سکھ کو شامل کیا۔
یہی کچھ سلمان تاثیرکے معا ملے میں ہُوا ۔سلمان تاثیر کے بیانات مذہبی انتہاپرستوں کے لیے ناقابل
برداشت تھے ۔پھر بھی چہرے مہرے سے انتہا ہی مذہبی نظر آنے والے شخص کو سلمان تاثیر کی
سیکورٹی پر معمور کیا گیا ۔
بےنظیر کو پاکستان آنے سے پہلے جان کے خطرہ کی اطلات مل رہی تھیں ،پھر کراچی بم دھماکہ میں
بال بال بچیں تھیں ۔اسکے باوجود راولپنڈی جلسے کو آرگنائزکیا ۔جبکہ وُہ ٹیلیفونک خطاب کرسکتی تھیں
لیکن پرسنلی شرکت چاہیں ۔
تاثیر صاحب ذہین انسان تھے چاہتے تو ممتاز قادری پر اعتراض کرسکتے تھے ۔اسی طرح اندراگاندھی
سکھ گارڈپر اعتراض کرسکتی تھیں ۔ بے نظیر ٹیلیفونک خطاب کرسکتی تھیں ۔لیکن ایسا محسوس ہوتا
ہے کہ موتکا مقرر دن آنے پر ساری عقلیات دھری کی دھری رہ جاتی ہے ,عقل پرپردے پڑجاتے ہیں۔
ہے کہ موتکا مقرر دن آنے پر ساری عقلیات دھری کی دھری رہ جاتی ہے ,عقل پرپردے پڑجاتے ہیں۔
۔" آپنے پڑھا آپ کا شُکریہ "۔
تدبير کے پر جلتے ہيں تقدير کے آگے
ReplyDeleteواقعی جی میرا بہت شکریہ جو میں نے پڑھ لیا۔ ورنہ سلمان تاثیر کو عقل مند پڑھ کر تو کسی بھی عقل مند شخص کا دماغ خراب ہوسکتا ہے۔
ReplyDeleteاجمل صاحب۔ خاص کر دُنیا میں آنا اور دُنیا سے جانا۔آپنے پڑھا آپنے تبصرہ کیا آپکا شُکریہ۔
ReplyDeleteعادل بھیا ۔ آپنے پڑھا، آپنے تبصرہ کیا، آپکا شُکریہ۔باقی رہی اختلاف رائے والی بات تو وُہ سب انسانوں میں پایا جاتاہے۔میرے خیال میں اسکی وجہ یہ ہے کہ ہمیں جو ماحول ملتا ہے اور ہم نے جس قسم کا لیٹریچر پڑھا ہوتا ہے ۔ہماری آنکھوں پر اُسی قسم چشمہ چڑھ جاتا ہے ۔پھر ہم اُسی چشمہ کے غلام بن جاتے ہیں ۔ پوری دُنیا کے انسانوں کی یہی حال ہے ۔ میری اس رائے سے آپکا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔ امید ہے آئیندہ بھی اپنی رائے سے نوازتے رہیں گے ۔ بُہت شُکریہ۔
ReplyDeleteبھائیو۔۔۔ سلمان تاثیر کی موت کا دن 4 جنوری 2011 مقرر تھا۔۔۔ اب وہ اچھا انسان تھا یا برا۔۔۔ اس نے 4 جنوری کو جانا ہی جانا تھا۔۔۔ اسی طرح بے نظیر صاحبہ اور اندرا گاندھی اور ان جیسے کروڑوں لوگ اپنا وقت لکھوا کر آئے ہیں۔۔۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم سب دنیا کی اندھیر نگری میں اپنی سب سے بڑی حقیقت یعنی اپنی موت کو بھلا بیٹھے ہیں۔۔۔ اگر موت یاد رہے تو شاید ہم گناہوں سے بچے رہیں اور زمین پر ایسے نا چلیں جیسے کے حق نہیں ہے۔۔۔
ReplyDeleteطریقہ واردات جیسا بھی ہو یہ تو پکا تھا کہ سلمان تاثیر نے کل دنیا سے رخصت ہونا تھا۔۔۔ اب چاہے وہ اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں مارا گیا یا پھر کسی گاڑی کے نیچے آ کر مر جاتا۔۔۔
عمران اقبال صاحب ۔ آپنے پڑھا ،آپنے تبصرہ کیا ،آپکا شُکریہ۔ میں نے جو بات اپنے مضمون میں جس سوچ کے تحت کہی ہے ۔آپ اُسی طرح سے اُس بات کو سمجھ پائیں ہیں ۔ آپ نے بالکل صحیح کہا ہے کہ اگر ہم موت کو یاد رکھیں تو یقینا" ہم گُناہوں سے بچ سکتے ہیں۔ آخر میں ، میں یہ کہوں گا کہ ہم انسان کا صرف ظاہرہ جان سکتے ہیں ۔باطن کا حال رب کے علاوہ کسی کو نہیں معلوم ۔ اُمید ہے آئندہ بھی اپنے تبصروں سے نوازتے رہیں گے ۔ بُہت شُکریہ۔
ReplyDelete