ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فکرستان سے۔۔۔۔۔۔۔شاید کہ اُتر جائے بات میری دل میں آپکے!
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
میرے خیال میں پاکستان کے حوالے سےکسی بھی بُری خبر کا نفسیاتی دباؤ جتنا بیرونی ممالک میں مُقیم پاکستانی
میرے خیال میں پاکستان کے حوالے سےکسی بھی بُری خبر کا نفسیاتی دباؤ جتنا بیرونی ممالک میں مُقیم پاکستانی
محسوس کرتے ہیں ۔ پاکستان میں مُقیم کا درجہ اُس سے ذرا کم ہوتا ہے۔ وجہ اسکی یہ ہے کہ بیرونی ممالک میں
مقیم پاکستانی پاکستان آنا چاہتے ہیں ۔ کاروبار کرنا چاہتے ہیں ،اہلیت کے مُطابق نوکری چاہتے ہیں ،اپنے ملک میں،
اپنوں میں رہنا چاہتے ہیں ۔۔ ۔لیکن پاکستان کے حالات اُنہیں پاکستانآنے سے منع کرتے ہیں ۔
ہم پاکستان کے سیاستدانوں سے مایوس ہو چُکے ہیں ۔ مذہبی جماعتوں کو بھی دیکھ لیا ہے ۔ فوج کوبھی آزمالیا ہے ۔
آنے والے الیکشن میں ووٹ کس کو دیں؟ اب ہمارے پاس کونسا آپشن رہ گیا ہے ؟ بند گلی ؟
لفظ انقلاب سے ذہن فورا" فرانس کی طرف دوڑ جاتا ہے ۔ اوباما کی طرف نہیں جاتا ہے۔ کسی کے تصور میں بھی
یہ بات نہیں تھی کہ وائٹ ہاؤس میں رہنے کیلئے کالا آدمی بھی آسکتا ہے ۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ نعرہ "چینج "نے
یہ سب کچھ ممکن بنادیا ۔
میرے خیال میں پاکستان میں انقلاب (تبدیلی) /چینج کو بیرونی ممالک میں مُقیم پاکستانی ممکن بنا سکتے ہیں ۔ مگر کیسے ؟
پاکستان میں 50تا55٪ ووٹرز ووٹ کاسٹ نہیں کرتا ہے ۔ یہی وُہ ووٹرز ہیں کہ جو تبدیلی لاسکتے ہیں ۔ بیرونیممالک
میں مُقیم پاکستانی مُختصر دورانیہ کے ایسے اشتہار بنواکر پاکستانی چینلوں پر چلوائیں کہ ووٹ کے زریعے انقلاب ایک
تحریک/ایک نعرہ بن جائے ۔تبدیلی کا۔
اشتہاروں میں واضع طور پر لکھا ہو کہ یہ اشتہار اورسیز پاکستانیوں کی طرف سے اس سے یہ ہوگا کہ مُقامی لوگوں
کی بھی غیرت جاگے گی اور جوش و جزبہ بیدار ہوگا ۔
اشتہاروں کے زریعے قابلیت کے حامل لوگوں کے ضمیر کو بھی جھنجوڑنا ہوگا کہ وہ میدان سیاست میں آئیں اور
پاکستان کو بہتر بنانے میں اپنا حصہ ڈالیں ۔اُنہیں یقین دلائیں کہ آپ لوگ اُنکی کیمپنگ چلائیں گے ۔
اسمبلی میں قابلیت کے حامل ،وسعت نظراور پاکستان سے محبت کرنے والے لوگ آجائیں گے تو پاکستان کا نقشہ
بدل جائے گا ۔
جوش ،جذبہ ،نعرہ، تحریک ، ایسی فضاء بنا سکتے ہیں کہ کروڑوں پاکستانیوں کی دُعائیں بار آور ہو سکتی ہیں ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہرشخص کی طرح میں بھی اپنی رائے کے بارے میں خوش فہمی میں مبتلہ ہوں کہ بند گلی سے نکلنے کا یہایک اچھا راستہ ۔
ہے۔۔ ہوسکتا ہے کسی کے دماغ میں پاکستانی قوم کو بند گلی سے نکالنے کا اس سے بھی بہتر راستہ ہو۔اب اجازت دیں
آپنے میرے خیالات پڑھے۔ آپکا شُکریہ۔
تجویز بہت اچھی ہے۔ عملی جامہ کون اور کیسے پہنائے گا؟
ReplyDeleteاگر میں یہ کہوں کہ پاکستان کے حالات کی خرابی میں غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کا بڑا حصہ ہے تو آپ اس سے کس طرح اختلاف کریں گے۔
ReplyDeleteمحترم عامر شہزاد صاحب ۔ ہر مُلک میں پاکستانیوں کی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں ۔ جو پاکستانیوں کو وہاں در پیش مسائل کے حل کیلئے چندہ بھی کرتی ہیں ۔ وہی تنظیمیں یہ کام سرانجام دے سکتی ہیں ۔ آپنے تبصرہ سے نوازہ اسکے لئے آپکا شُکریہ ۔
ReplyDeleteمحترمہ عنیقہ ناز صاحبہ ۔ میرے خیال میں ،ہر شخص کسی بارے میں کوئی رائے بناتا ہے تو اُسکے پیچھے یقینا" محرکات ہوتے ہیں ،جبھی تو اُسنے یہ رائے بنائی ہے ۔ اسی لئے میں کوشش کرتا ہوں کہ کسی کی رائے سے اختلاف ہونے پر بھی ۔اختلاف نہ کروں ۔سوائے اسکے کہ اپنی رائے اُسکے سامنے رکھ دوں ۔ لیکن آخر کو انسان ہوں بعض مرتبہ انا کے ہاتھوں شکست کھا جا تا ہوں ۔ اور بحث میں پڑ جاتا ہوں ۔ اپنی رائے سے نوازنے پر میں آپکا بُہت مشکور ہوں ۔
ReplyDeleteمحترم!
ReplyDeleteگلی بند نہیں۔ دل بند ہیں۔ اذہان بند ہیں۔ شعور پہ پہرا ہے۔ آنکھیں بند ہیں۔ جہالت آزاد اور دانش بند ہے۔ وھژت اور درندگی آزاد اور شرافت بند ہے۔
آپکی اس تحریر سے آپکا درد چھلکتا ہے۔ آپکا اور درمند پاکستانی کا درد مشترکہ ہے۔ آپ کھوج لگائیں۔ بیرونی ممالک سے پاکستانی برادی کے کتنے لوگوں نے پاکستان میں تعلیم اور اسطرح کے بہت سے منصوبوں کے لئیے کوشش کی۔سرمایہ فراہم کیا۔ کنٹینرز بھر کر کمپیٹوٹرز بیجھے۔ پاکستان میں انڈسٹری اور کاروبار کے لئیے ہر قسم کی پیشکش کی۔ آپ ضرور کھوج لگائیں۔
ملک کی قسمت سنوارنے والوں کو جو حشر ہوا ۔ انکا سرمایہ جس بے دردی سے لُوٹا گیا۔ جسطرح وہ ناکام و مایوس لوٹے۔ اس بارے آپ اعداو شمار اکھٹے کریں۔ دل خون کے آنسو روئے گا۔
پاکستان میں وہ جو خضر راہ اور رہنمائی کا دعواہ کرتے ہیں۔ انکے منہ کو چاٹ لگ چکی ہے۔ وہ حاصل مانگتے ہیں اگر کم فہمی سے انکے حاصل کو قوم کا حاصل سمجھ لیا جائے تو وہ ٹھٹھا اڑاتے ہیں۔ دل کھول کر کہتے ہیں کہ ہم اپنے حاصل کی بات کر رہے ہیں۔
امریکہ یوروپ مشرق وسطٰی اور مشرق بعید بسنے والوں کے دل میں قوم کا درد وافر ہے۔ انکے پاس معقول سرمایہ ، علم و ہنر ۔ تجربہ اور خود اعتمادی بھی بہت ہے۔ مگر یہ ساری چیزیں ملکر کر بھی پاکستان میں انہیں گاؤدی ثابت کرنے میں مانع نہیں ہوتیں۔
جسطرح وکلاء ۔ ڈاکٹرز یا دانشوروں وغیرہ میں ماہر وکیل۔ اعلٰی ڈاکٹر۔ اور اچھا دانشور عمومی طور پہ انکی متعلقہ تنظیموں کے سربراہ ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ڈاکوؤں میں سب سے بڑا ڈاکو۔ بھتہ خوروں میں سب سے ذیادہ شقی القلب قاتل اور جاہلوں میں سب سے بڑا جاہل۔ چوروں میں سب سے بڑا چور انکا استاد اور سردار ہوتا ہے۔
جسطرح علم اور جہالت ایک دوسرے کی ضد ہیں اسی طرح بھتہ خوری، چوری اور شرافت، دیانت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
پاکستان پہ قابض جہلاء اور چور بیرون ملک یا اندرون ملک سے ٹھنے والی ہر وہ آواز دبا دیں گے جس سے انھیں انکی جہالت انکی چوری انکی سرداری اور استادی کو خطرہ لاحق ہونے کا امکان ہوا۔ ایسے میں جوش ،جذبہ ،نعرہ اور تحریک سے ایسی فضاء کیسے بنے جس سے کروڑوں پاکستانیوں کو یرغمالی سے رہائی نصیب ہو۔
چوزوں کی رکھوالی پہ گیدڑ بیٹھے ہیں تو چوزوں کا انجام بخریت نہیں ہوتا۔
محترم جناب جاوید گوندل صاحب ۔ آپنے لکھا ہے کہ پاکستان پہ قابض جہلاء اور چور بیرون ملک یا اندروں ملک سے اُٹھنے والی ہر وہ آواز دبادیں گے جس سے اُنہیں اُنکی جہالت ،اُنکی چوری،اُنکی سرداری اور اُستادی کو خطرہ لاحق ہونے کا امکان ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ آپنے بالکل صحیح لکھا ہے ۔ لیکن پھر بھی مایوس ہونے کے بجائے ان سے چھُٹکارہ پانے کی اپنی سی کوشش تو کرنی ہوگی نا ۔ بہرحال آپکے تبصرہ کا بُہت شُکریہ۔
ReplyDelete