Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Monday, January 17, 2011

کیا پاکستان پسماندگی سے نکل سکتا ہے ؟؟؟



فکرستان سے۔۔۔اس سوال کا جواب ہم نے مشہور دانشور/مورخ سے حاصل کیا ہے  
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پاکستان کے مشہور دانشور جناب ڈاکٹر مُبارک علی کسی تعرف کے محتاج نہیں ۔درج بالا عنوان کا جواب ہم نے اُنکی
کتاب "تاریخ اور دانشور" کے صفحہ نمبر100 سے حاصل کیا ہے۔وُہ لکھتے ہیں کہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پسماندگی ہماری روایات اورسماجی وسیاسی اور اقتصادی اداروں میں اس قدر سرایت کر چُکی
 ہےکہ اب ان میں اصلاح کرنا نا ممکن ہے  کیونکہ اصلاح کیلئے مصلحین کی بھی  ضرورت ہوتی ہے ،اور ذہنی طور
پر معاشرےکی آمادگی کی بھی ضروری ہوتی ہے  جبکہ ان دونوں چیزوں کی ہمارے ہاں کمی ہے ۔
دوسرا راستہ انقلاب کا ہے  ،جو پورے نظام کو اُلٹ کر یہاں نئے اداروں کی تشکیل کرے،مگر اس عمل کیلئے بھی نہ تو 
دانشوری کی روایات ہیں ،اور نہ ہی تخلیقی صلاحیت والے افراد ہیں اسلئے ان دونوں صورتوں  کے عمل پزیر نہ ہونے 
کی وجہ سے خطرہ اس بات کا ہے کہ پاکستانی  معاشرہ پسماندہ حالت میں ہی رہے گا ۔کب تک اسکی یہ حالت رہےگی 
اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی ہے  ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کتاب کا پہلا ایڈیشن سن1995میں اشاعت پزیر ہُوا تھا ۔پندرہ سال کے عرصے میں  پُلوں سے کافی پانی گُزر
چُکا ہے ۔اب ہم اپنی دانشوری جھاڑتے ہیں ۔۔۔ڈائیلاگ؛۔ کرپشن عُروج پر پُہنچ چُکی ہے ،تمام سیاستدان ننگے ہُوچُکے
 ہیں ۔معیشتتباہ ہوچُکی ہے ۔مذہبی انتہا پسندی کو بڑھاوا مل رہا ہے ۔ اس ساری صورت حال میں  پاکستان  اس وقت 
دردزہ کی کیفیت  سےگُزر رہا ہے ۔  ۔
 ہم طوطے والے کے پاس گئے اور پوچھا ،کیا برآمد ہوگا  ؟ جواب آیا کہ الیکشن کے قریب   پاکستان کو متحد کرنے 
والا" نعرہ "لیکر دردزہ سے ایسا لیڈر برآمد ہوگا۔جس پر پوری قوم کو اعتماد ہوگا ۔ہم توہماتی معجزہ پر بُہت خوش  ہوئے
یہ تو آپکو معلوم ہی ہے کہ بحثیت انسان ہم توہمات اور معجزوں پر بُہت یقین رکھتے ہیں ۔ویسے تاریخ گواہ ہے کہ 
قوموں سے معجزے سرزد ہوئے ہیں ۔حالیہ مثال چین کی موجود ہے ۔ جب چین دردزہ کی کیفیت سے گُزرا تب ہی
 ماؤزےتنگ پیدا ہُوا۔امید ہے ہماری  دانشوری نےآپکی کُچھ ڈھارس بندھائی ہوگی ۔۔۔ 
اتنی دیر برداشت کیا ،آپکابُہت شُکریہ۔

11 comments:

  1. آپ کےآرٹیکلز اچھے ہوتے ہیں اور ہماری دلچسبی کا باعث بھی رہے ہیں ۔ بس سستی کی وجہ سے آپکے بلاگ پر کبھی تبصرہ نہیں کیا ۔ معاف فرما دیجئے گا ۔
    ہم نے مبارک صاحب کو پڑھ تو نہیں رکھا مگر انکی ان گہری باتوں سے تھوڑا بہت اختلاف ہے ۔ مثلا ہمارے خیال میں دانشور انقلاب کے بعد ایک اور انقلاب کی طرف سستی سے بڑھنے والے طبقات کو پروان چڑہانے میں معاون ہوا کرتے ہیں ۔ دوسرا یہ کہ پاکستانی معاشرے کی پسماندگی اسکی اینٹیٹیز کی اپنی مرضی کے ہی کارن ہے ۔ مزید یہ کہ جو معاشرے پسماندہ نہیں سمجھے جاتے انہی کی تھوڑی مختلف پسماندگی کے کارن ہماری سو کالڈ پسماندگی کو قائم رکھا جاتا ہے ۔ کیا غیر پسماندہ معاشروں کی کمائی بیدردی سے پسماندہ معاشروں کی سو کالڈ بھلائی کیلئے خرچ نہیں کی جایا کرتی ۔ کمال لفاظی ہے جی ہمت والوں کی اور حوصلہ ہے سمجھ کر یقین کر لینے والوں کا ۔

    ReplyDelete
  2. آپ کے کہے پر ہمیں اعتبار آیا!
    :)
    دعا ہے کہ آپکی دی ہوئی یہ تسلی محض طفل تسلی نہ ثابت ہو،آمین

    ReplyDelete
  3. آپ ڈاکٹر عبدالقدیر کے کسی کالم سے اس سے بہتر نتیجہ اخز کر سکتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر مبارک علی ہی کیوں؟

    ہماری قوم کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی قوم کے بارے میں ایسے لوگوں کی دانشوری بہت زوروں پہ ہوتی ہے۔ جن کی پور پور پوری قوم کو بے وقوف سجھمتی ہے۔ جو بجائے خود ایسے فلسفوں سے چکا چوند ہیں جس سے اس سرزمین کے باشندے خار کھائے بیٹھے ہیں ۔ ایسی دانش اور فلسفہ جس کے پرچار اور پروپگنڈے کے بطن سے کسی حل نے جنم نہیں لیا۔۔ کوئی راہ قوم کو نہیں سجھائی ۔ مگر بضد ہیں کہ حق بات صرف وہی جانتے ہیں۔

    ReplyDelete
  4. سنکی بھائی شُکریہ کہ آپکو میرے آرٹیکلز پسند آتے ہیں۔ یہاں میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ۔ ڈاکٹر مُبارک علی صاحب ایک مورخ ہیں ۔ یہاں وُہ تاریخ کے اُصول بتا رہے ہیں ۔ کے انقلاب کے لئے کیا چیزیں ضروری ہوتی ہیں اور کس وجہ سے پاکستان پسماندگی میں مبتلہ ہے۔ وہ یہاں صرف تجزیہ کر رہے ہیں ۔ سنکی بھائی اجازت دیں کہ اب لائٹ آف ہونے والی ہے ۔ تبصرہ کا بُہت شُکریہ۔

    ReplyDelete
  5. ہمم، ڈاکٹر مبارک علی ایک مءورخ ہیں اور ڈاکٹر عبدالقدیر ملک کو ایتم بم بنانے کی صلاحیت سے مالا مال کرنے والوں میں شامل۔
    ڈاکٹر مبارک علی ایک مءورخ ہیں اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان ملک کی تاریخ بدل دینے والوں میں شامل۔
    یہ ڈاکٹر صاحب کی سوانح حیات پہ اگر ہماری نصابی کتب میں ایک سبق ڈال دیا جائے تو بہتر نہیں بالخصوص جہاں انہیں شاہین بنانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ یہاں ڈاکٹر صاحب سے میری مراد عبد القدیر خان صاحب ہیں۔
    بلکہ یہ ہر قسم کے مضمونوں کا چکر چحوڑ کر ہمیں اپنے بچوں کو ایٹم بم کی ٹیکنالوجی پہ لگا دینا چاہءیے۔ اسی سے انکے اندرعقابی روح بیدار رہے گی۔
    یہ البتہ سوال رہے گا کہ ایک چھوٹے عقاب کو بڑا عقاب بننے تک کچھ حیاتی عوامل مثلا کھانا پینا کہاں سے فراہم کیا جائے گا۔ شاہین پرواز سے تھک کر کہاں جائے گا۔

    ReplyDelete
  6. آپ نے دردِ زہ کا ذکر کيا ہے ۔ اس کی کئی اقسام ہيں ۔ اچے نتائج اچھے عمل سے پيدا ہوتے ہيں ۔ اگر دردِ زہ اپن کرتوت کے نتيجہ ميں ہو تو اچھے نتيجہ کی اميد کم ہی وتی ہے اور بعض اوقات سرجری اس کا حل ہوتی ہے

    ڈاکٹر مبارک علی صاحب کو ميں نے زيادہ نہيں پڑھا ۔ ڈاکٹر صفدر محمود بھی معروف تاريخ دان ہيں ۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کو ميں نے کافی پڑھا ہے ۔ ميرے خيال ميں ڈاکٹر صفدر محمود صاحب عملی رائے پيش کرتے ہيں جب کہ ڈاکٹر مبارک علی صاحب ايبسٹريکٹ خيالات کے حامی ہيں

    ReplyDelete
  7. عقل عیار ہے سو بھیس بدلتی ہے۔ اسے یوں کہہ لیں۔روشن خیالی عیار ہے سو بھیس بدلتی ہے۔

    روشن خیالی سے مراد پاکستان کے نام نہاد روشن خیالوں کی نام نہاد روشن خیالی ہے۔

    شاہین بچوں کو تو بقول پاکستانی روشن خیالی محض اءین اکبری ہی پڑھا دینا چاہئے۔ اب روشن خیالی کے تعصب کو کوئی کیسے بتائے کہ ایٹمی ٹکنالوجی صرف ایٹم بم کے لئیے ہی نہیں استعمال ہوتی۔ اور مرد پاکستانی ایٹم بم یعنی عبدالقدیر خان پاکستانی تاریخ کی پیچیدہ اور بوجوہ مشکل ترین پراجیکٹ کو لے کر آگے بڑھا۔

    ڈاکٹر صفدر محمود جنکا تذکرہ بجا طور پہ افتخار اجمل صاحب نے کیا ہے ۔ انکا نام یا کسی اور دردمند پاکستانی دانشور کا نام بھی لکھ دیا جاتا تو اس نام کا بھی حشر ڈاکٹر عبد القدیر خان کے نام جیسا ہوتا، ڈھاک کے وہی تیں پات ہوتے کہ

    روشن خیالی عیار ہے وس بھیس بدلتی ہے۔

    ReplyDelete
  8. محترم جناب عبدللہ صاحب ۔ ویلکم کے آپ دوبارہ تبصروں کی دنیا میں ان ہوگئے ہیں ۔ اب میں آپکو اپنی ذاتی مثال سے باور کراتاہوں کہ وقت و تکرار سے انسانی خیالات میں کتنی تبدیلی آجاتی ہے ۔ آپکے اور آپکے مخالفین کے درمیان جملوں کی جو جنگ ہوتی تھی اُس سے مُجھے سخت کوفت ہوتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے ۔ بلکہ بعض دفعہ تو اب میں ان جملوں سے لطف بھی اُٹھا لیتا ہوں۔ بُہت شُکریہ کہ آپنے تبصرہ کیا ۔

    ReplyDelete
  9. محترم جناب جاوید گوندل صاحب ۔ ڈاکٹر مُبارک علی صاحب کا یہ تجزیہ 15 سال پُرانا ہے ۔ موجودہ حالات کا تجزیہ ہوسکتا وہ مختلف انداز میں کریں ۔ بہر حال آپنے اپنی رائے سے نوازہ اسکے لئے میں آپکا شُکر گُذار ہوں ۔ ۔

    ReplyDelete
  10. محترمہ انیقہ ناز صاحبہ ۔ یہ بالکل صحیح ہے کہ دونوں ڈاکٹروں کی فیلڈ الگ الگ اور دونوں ڈاکٹر اپنی اپنی فیلڈ کے ماہر ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ جاوید بھائی نے ایک عام سوچ کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خآن کا حوالہ دیا ہے نہ کہ مورخ کی حیثیت سے۔ بہر حال آپنے اپنی رائے سے نوازہ اسکے لئے میں آپکا شُکر گُذار ہوں۔ ۔

    ReplyDelete
  11. محترم جناب افتخار اجمل بھوپالی صاحب ۔ یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ دردزہ کی کئی قسمیں پائی جاتیں ہیں ۔ اس پورے سیارہ پر دردزہ ایک ہی قسم کا پایا جاتا ہے ،ممکن ہے کسی دوسرے سیارہ پر کسی دوسری قسم کا پایا جاتا ہو۔ یہ بات آپ کسی سے بھی پوچھ سکتے ہیں ۔ مگر یہ بات بھی یاد رکھیں ۔ ۔ ۔ کسی خواتین سے نہ پوچھنا ۔ ۔ ورنہ۔۔؟؟؟

    ReplyDelete