فکرستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نیاسال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیشگوئیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا کہیں گے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بی جے پی کو پیش گوئیوں کے ماہر پنڈتوں نے حساب لگا کر بتایا کہ مہاراج آپ کیلئے شُبھ گھڑی
آپہنچی ہے ۔آپ وقت سے پہلے الیکشن کرالیں آپ کیلئے اووش ہوگا ۔ سیاسی پنڈتوں نے بھی انڈیا
شائن کے نعرہ کے حوالے سے یہی مشورہ دیا کہ ہرطرف بی جے پی کی جے جے کار ہوگی ۔اور
جیت کی انوبھم کے تحت بی جے پی نے وقت سے پہلے الیکشن کرادیا ۔سارا حساب کتاب دھرے
کا دھرا رہ گیا۔بی جے پی کا دھڑام تختہ ہوگیا ۔۔کیا کہیں گے پیش گوئیوں کے بارے میں ؟؟؟
کراچی کُتب میلہ سے غلام جیلانی برق صاحب کی کتاب " میری داستان حیات" لی کتاب کے صفحہ
نمبر77 پر لکھا ہے کہ اٹک کالج میں انکے ساتھی پروفیسرہانڈاجوتش کے ماہر تھے ۔اُنکے دوسرے
ساتھی جوکہ سنسکرت کے پروفیسرتھے کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ۔بچی کی پیدائش کا وقت معلوم کرکے
پروفیسر ہانڈا نے حساب لگا کر برق صاحب کو بتایا کہ ۔اس بچی کی ماں آج سورج ڈوبنے سے پہلے
مر جائیگی۔برق نے کہا دیکھ یہ تیراامتحان ہے اور ایسا نہ ہُوا تو تُجھے گدھے پر بٹھادونگا۔سورج ڈوبنے
کے قریب تھا کہ کالج کے چپراسی نے آکر اطلاع دی کی بچی کی ماںکوٹھے پر چڑھ رہی تھی کہ آخری
اسٹیپ سے گر کر ہلاک ہوگئی ۔۔۔۔کیا کہیں گے پیش گوئیوں کے بارے میں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
برق صاحب اُن دنوں نحوست کے دائرہ میں تھے اُنہوں نے پروفیسر ہانڈا سے پوچھا یار میری اس
نحوست کا تیرے پاس کوئی توڑ ہے ۔پروفیسر ہانڈا برق صاحب کو لیکر اپنے گُرو کے پاس گئے اُنہوں
نے حساب لگا کر توڑ بتادیا ،لیکن یہ توڑ شاید ہندوانی قسم کا تھا جو برق صاحب کو نہ بھایا ۔پھر اُنکے ایک
دوست پروفیسر مولانا زاہدالحسینی نے اُنہیں اسلامی توڑ بتایا ۔جسے اُنہوں نے آزمایا اور کامیاب
رہے۔۔ یعنی توڑ بھی کامیاب ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔توڑ کے کامیاب ہونے کو کیا کہیں گے ؟؟؟؟؟
واہ میرے مالک سب خوش ہیں۔ پیش گوئیاں کرنے والے بھی ۔توڑ کرنے والے بھی۔۔واہ واہ ۔
دوستو اب اجازت دیں کہ مُجھے آکٹوپس بابا کے پاس جاناہے ۔سال بھر کی پیش گوئیاں لینی ہیں ۔
آپ کا بُہت شُکریہ۔
جناب ، آکٹوپس تو لوگ پکا کر کب کا کھا چکے۔ یا پھر وہ خود ہی انتقال کرگیا تھا۔ ایسی خبر آئی تھی پچھلے کچھ دنوں۔
ReplyDeleteآپ یہ بتائیں کہ آکٹوپس کی بجائے گائے چلے گی؟
کوئی پنسٹھ سا پرای بات ہے جب ميرا خالہ زاد بھائی سول سال کا تھا ۔ اپنے ساتھيوں کے ہاتھ ديکھ کر اُول فُول کہا رہتا تھا ۔ ايک دن اُسے ايک پچيس سالہ آدمی نے کہا ميرا ہاتھ ديکھو ۔ وہ انکار کرتا رہا مگر اس نے اصرار کيا تو اس کا ہاتھ ديکھ ک کہنے لگا تم قتل کے جرم ميں پکڑے جاؤ گے ۔ يہ صرف اور صرف ايک گپ تھ جان چھڑانے کيلئے ۔ اتفاق کی بات کہ اگلے دن اُسے کسی کے قتل کے شُبہ ميں پوليس پکڑ کر لے گئی مگر تھانہ جاتے ہی چھوڑ ديا کہ اُس کے باپ کا نام فرق تھا ۔
ReplyDeleteاسے آپ جوتش کہيں گے ؟
ويسے جوتش ہے تو حقيقی مگر اس پر اعتبار کرنا گناہ ہے کيونکہ يہ وہ لوگ کرتے ہيں جو اللہ کو نہيں مانتے
عثمان۔ میرے خیال میں انسان بڑاہی توہم پرست واقع ہُوا ہے ۔میں نے کہیں پڑھا تھا کہ لوگ گائے کے پیشاب سے جو ڈزائین بنتا ہے اُس سے حساب لگا کر پیش گوئیاں کرتے ہیں ۔ بلکہ ڈاکومینٹری چینل پر میں نے خود دیکھا ہے کہ جنگلی قبائل بچھڑے کو مار کر اُسکی آنتیں زمین پر پھیلا دیتے ہیں (جیسے آکٹو پس کے ہاتھ پاؤں ) ۔پھر حساب لگا کر پیش گوئیاں کرتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ بیچارے آکٹوپس کو بھون کر کھایا جا چُکا ہے۔ اب مُجھے طوطے والے کے پاس جانا پڑے گا ۔عثمان آپکا بُہت شُکریہ۔
ReplyDeleteاجمل صاحب آپ خود بتائیں آپ نے جو واقعہ لکھا ہے اسکو کیا نام دیں گے ؟ آپکا بُہت شُکریہ ۔
ReplyDelete