﷽
فکرستان سے پوسٹ ٹیگز: نان مسلم دُنیا/قُرآن/دُعا/علت ومعلول/اچُھوت/نئی نسل/عُلما
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کرکٹ میچ نےقوم میں موجود سارے تعصبات، ساری فرقہ بندیاں ، ایک دن کے لیے ختم کردیے ،یہاں تک کہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گُذارنے والے کروڑوں لوگوں نے بھی ایک دن کے لیے اپنے دُکھوں کو بُھلادیا غرض کہ پوری قوم نے ایک دن کے لیے اپنے سارے مسائل سے فراریت حاصل کی ۔ سب کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا کہ "پا کستان جیت جائے" نہ صرف نماز میں جیت کے لیے دُعائیں مانگیں گئیں بلکہ جیت کے لیے خصوصی دُعاؤں کا اہتمام بھی کیا گیا یہاں تک کہ ٹی وی چینلز نے بھی دُعاؤں کے اسپشلسٹوں کو بُلاکر پوری قوم سے اجتماعی دُعائیں کرائیں ۔ بعض چینلز ایسے الفاظ بھی مُہیا کر رہے تھے کہ جس کے ورد سے ٹیم فتح سے ہمکنار ہوگی۔قوم نے تسبیحیں ، کاؤنٹرز سنبھال لیے ۔
عُلما نے مسلمان قوم کودُعاؤں کےسحر میں مبتلا کرکے ناکارہ بنادیا ہے ۔نان مسلم دُنیا قُرانی آیات پر عمل کرتے ہوئے سائنس اور ٹیکنا لوجی کے ماہر پیدا کر رہی ہے اِدھر ہم عُلما کی مہربانی سے دُعاؤں اور نعتوں کے اسپشلسٹ پیدا کررہے ہیں اور اِسکول پر اِسکول تباہ کر رہے ہیں۔
عُلما نے مسلمان قوم کودُعاؤں کےسحر میں مبتلا کرکے ناکارہ بنادیا ہے ۔نان مسلم دُنیا قُرانی آیات پر عمل کرتے ہوئے سائنس اور ٹیکنا لوجی کے ماہر پیدا کر رہی ہے اِدھر ہم عُلما کی مہربانی سے دُعاؤں اور نعتوں کے اسپشلسٹ پیدا کررہے ہیں اور اِسکول پر اِسکول تباہ کر رہے ہیں۔
ہر جگہ نان مسلم مسلمانوں کو مار رہے ہیں عراق میں مسلمانوں کو مارا ہے ،افغانستان میں مسلمانوں کو مار رہے ہیں، پاکستان میں مُسلمانوں کو مار رہے ہیں، فلسطین میں مسلمانوں کو مار رہے ہیں، کشمیر میں مسلمانوں کو مار رہے ہیں ۔ لیبیا میں مسلمانوں کو مار رہے ہیں ۔ بحرین میں بالواسطہ مسلمانوں کو مار رہے ہیں ۔ اور ہم پر دہشت گرد کا لیبل بھی چپکا دیا گیا ہے۔آج دُنیا کی قومیں ہم سے اچُھوتوں جیسا سلوک کر رہی ہیں ،علما نہیں جانتے کہ اقلیت میں موجود ممالک میں مسلمانوں کی نئی نسل کس عذاب سے گُذر رہی ہے ۔ ائیرپورٹوں پر ہماری ہماری خصوصی تلاشی ہوتی ہے، اسطرح ہم پوری دُنیا میں اتنے ذلیل خُوار ہو گئے ہیں کہ رُونے کو جی چاہتا ہے۔
ہم اس حال میں عُلما کے طُفیل پہُنچے ہیں اِنہوں نےہماری ذہنی صلاحیت کو دوسری جانب فوکس کردیاہے یعنی داڑھی اتنی بڑی ، اتنی چھوٹی رکھنا ہے، پانی ایسے پینا ہے، غُسل ایسے کرنا ہے ،وضو ایسے کرنا ہے ۔ باہر سے آؤ تو گھر میں پہلے کونسا پاؤں داخل کرنا ہے ، ان باریکیوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ اُمّت نیرو مائنڈ بن گئی اسکے علاوہ یہ اتنی بار پڑھو ٹیم جیت جائے گی،یہ اتنی بار پڑھو نوکری مل جائے گی ،۔یہ اتنی بار پڑھو امتحان میں کامیابی مل جائے گی۔ کاروبار نہ چل رہا ہوتو یہ ورد گھر میں ختم کراؤ کاروبار چل پڑے گا۔غرض کہ اِس درس نے امّت کی ذہنی صلاحیت کو کافی نقصان پہنچا یا۔ کاش اِن چکروں میں پڑنے کے بجائے اصل کتاب قُرآن کو سمجھنے کی کوشش کرتے ۔
قُران کے مُطابق اللہ نے تمام کائنات میں علت و معلول کا قانون رکھ دیا ہے قُرآن کا دعویٰ ہے کہ پوری کائنات میں گھوم پھر کے کے دیکھ لو اس قانون میں کہیں فرق نہ پاؤ گے تسبیحوں اور کاؤنٹر کے زریعے قانون قُدرت نہیں بدلے جاسکتے ہیں۔
آپﷺ نے اِسلام کو پھیلانے میں کیسی کیسی تکلیفیں اُٹھائیں ہیں یہ سب جانتے ہیں ، آپ ﷺ چاہتے تو دُعاؤں کے زریعے سب کے قُلوب تبدیل ہوجاتے ، مگر آپﷺ نے اُمّت کو بتانا تھا کہ مقصد کو حاصل کرنے کاقانون یہ ہے کہ ایسی جدوجہد کرو جیسی میں کررہا ہوں آج بھی آپ ﷺ کی اِس یکسو محنت اور جدوجہد کو نان مسلم بھی مانتے ہیں۔لیکن ہمارے عُلما نے اُمّت کو سُنتِ محمؐدی کی محنت و جدوجہد کا درس دینے کے بجائے امّت کے ہاتھ میں تسبیحیں اور کاؤنٹرز دے دیئے ۔کہ یہ اتنی بار پڑھو اتنے گُناہ معاف، یہ اتنی بار پڑھو اتنا ثواب ۔ اس مسئلہ کیلئے یہ اتنی بار پڑھو مسئلہ حل ہوجائے گا، یہ ورد کرو ٹیم جیت جائے گی غرض کہ ہر مسئلہ کیلئے کوئی نہ کوئی ورد یا دُعا موجود ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خلوص کا طالب( ایم ۔ ڈی) ۔
bhaoot khoob janab, Ap ke sath mano ann se itfaq karta hun
ReplyDeleteدور جانے کی ضرورت نہیں ایسے بہت سے آپکو اس بلاگستان میں بھی مل جائیں گے،جو اپنی عالمیت کا ڈھنڈھورا پیٹتے نہیں تھکتے مگر دین کے نام پر ایسی ہی فضول باتوں سے عوام کو گمراہ کررہے ہیں،
ReplyDeleteکوئی اپنے تعصب کو مزہب کے لبادے میں چھپائے ہے تو کوئی اپنی جہالت کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
محترم جناب ڈاکٹر افتخار راجا صاحب ٭ اِس حوصلہ افزائی کا بُہت شُکریہ۔
ReplyDeleteخلوص کا طالب ۔( ایم ۔ ڈی )۔
محترم جناب عبداللہ صاحب ٭ آپنے اپنے خیالات سے نوازا آپکا بُہت شُکریہ۔
ReplyDeleteخلوص کا طالب( ایم ۔ ڈی )۔
بہت خوب جناب۔
ReplyDeleteبعض کسی حال میں بھی تعصب نہیں بھول پاتے ان پر بھی ایک عدد تیر چھوڑ دیتے۔
بات تو ٹھیک ہے بھائی آپکی۔۔۔ ہم عمل کی بجائے تخیل کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔۔۔ سست قوم جو ٹھرے۔۔۔ دعا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن دعا کے بعد عمل کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔۔۔ نا کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جایا جائے۔۔۔ ہر جمعہ یا عیدین کی نماز کے بعد دعا کروائی جاتی ہے کہ یا اللہ، کشمیر آزاد ہو جائے۔۔۔ مسلمانوں کی عزت رکھ لے اور غیر مسلموں کی ذلیل کر۔۔۔ لیکن ان دعاووں کے بعد مزید کیا کیا گیا جو ہم عزت دار ٹھریں؟؟؟
ReplyDeleteمحترم جناب عمران اقبال صاحب ٭ دُعا کے لیے ہمیں حضور ص کی سُنت پر عمل کرنا چاہیے ۔جسکا طریقہ آپ ص نے جنگِ بدر میں اُمّت کو بتا دیا ہے ۔ آپ ص نے سب سے پہلے علاقہ کی مُناسبت سے اپنے تجربہ اور انتہائی ذہنی کاوش سے جنگِی حکمتِ عملی وضع کی اور اُسی مُناسبت سے تما م مُجاہدین کو تعینات کرنے کے بعد خالق سے مددکی دُعا فرمائی ۔ یعنی کسی مقصد کے حصول کیلئے پہلے ہرطرح کی تمام کی تمام انتہائی کاوشیں کرلیں پھر مدد کیلئے اللہ سے دُعا مانگیں۔
ReplyDeleteآپ نے اچھا تبصرہ کیا کہ پوسٹ کے حوالے سے مزید وضاحت کا مُجھے موقع مل گیا ۔ آپکا بُہت شُکریہ۔
خلوص کا طالب۔( ایم ۔ ڈی )۔
محترم جناب یاسر خوامخواہ جاپانی صاحب ٭ آپ ص تعصبی شخص کو پسند نہیں کرتے تھے جسکا ثبوت آپ ص کا خطبہ حجتہ الوداع ہے ۔کسی عربی کو عجمی پر یا کسی عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل ہے۔ اتنا واضع حُکم کےبعد بھی اگر کوئی شخص تعصب میں مبتلا ہے تو وہ آپ ص کی تعلیم کی خلاف ورزی کررہا ہے ۔ ایسا شخص کس درجہ گُناہ گار ہے وہ رب جانتا ہے ۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ جو بھی تعصبی شخص ہے وہ نا پسندیدہ شخص ہے ۔ اب اِس میں نہ تیر چلانے کی ضرورت ہے نہ بھالا چلانے کی واضع حُکم موجود ہے ۔ آپکے تبصرہ کا بُہت شُکریہ۔
ReplyDeleteخلوص کا طالب۔( ایم ۔ ڈی )۔
merey khayal men aap zayada ter durust keh rahaey hen, lakin kahin kahin jazbati ho gui hen
ReplyDeletemen yehean mutaffiq nahin hoon:
۔نان مسلم دُنیا قُرانی آیات پر عمل کرتے ہوئے سائنس اور ٹیکنا لوجی کے ماہر پیدا کر رہی ہے
ان باریکیوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ اُمّت نیرو مائنڈ بن گئی
ہم اس حال میں عُلما کے طُفیل پہُنچے ہیں
کہ یہ اتنی بار پڑھو اتنے گُناہ معاف، یہ اتنی بار پڑھو اتنا ثواب
(magar ye tau mutaffiq ahadis sey sabit hey, keh gunah e sagheera astaghfar waghera perhney sey muaf ho jatey hen
aur kuch wird asey hen jinhen perhney sey sawab milta hey)
عُلما نے مسلمان قوم کودُعاؤں کےسحر میں مبتلا کرکے ناکارہ بنادیا ہے
mutaffiq hoon:
نعتوں کے اسپشلسٹ پیدا کررہے ہی....
آپ ﷺ چاہتے تو دُعاؤں کے زریعے سب کے قُلوب تبدیل ہوجاتے ، مگر آپﷺ نے اُمّت کو بتانا تھا کہ مقصد کو حاصل کرنے کاقانون یہ ہے کہ ایسی جدوجہد کرو جیسی میں کررہا ہوں
اس مسئلہ کیلئے یہ اتنی بار پڑھو مسئلہ حل ہوجائے گا، یہ ورد کرو ٹیم جیت جائے گی
wallah ilm bilsawab
Armughan
حترم جناب ارمغان صاحب ٭ محققین کے مُطابق جب اسلام غیر ممالک میں پھیلنے لگا تو اُن لوگوں کو آپ ص کی سیرت میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ یوں پوری ایک صدی بعد احادیث جمع ہونے کی لہر اُٹھی اسکی وجہ یہ تھی کہ حضرت ابو بکرصدیق رض کے دور میں ہی راویوں کے بیانوں میں اختلاف پیدا ہوگئے تھے اختلاف پیدا ہونا قدرتی امر ہے ۔ مثلاً ہم کوئی تقریر یا واعظ سنتے ہیں تمام سُننے والے وہی بات جب دوسروں کو بتانے لگیں گے تواُس میں فرق پڑ جاتا ہے من و عن الفاظ یاد نہیں رہتے ہیں۔ جس سے بعض مرتبہ معنی میں بھی فرق پڑ جاتا ہے ۔اسلئے صدیق رض نے تمام صاحبہ کو حدیث روایت کرنے سے منع فرمایا تھا اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لوگ قُرآن کوچھوڑ کر حدیثوں کی جانب راغب ہونے لگے تھے جیسا کہ آجکل ہورہاہے حضرت عُمر رض کے دور میں بھی حدیث روایت کرنا منع تھا دیکھئے صفحہ نمبر3 تزکرۃالحفاط ذہبی اور طبقات ابن سعدج صفحہ 140۔ ایک صدی بعد جب احادیث جمع کرنے کی لہر اُ ٹھی تو جسکو جو یاد تھا ، یا جسکی جیسی مصلحت تھی اُسکے مُطابق حدیثیں جمع کرنے میں اپنا حصّہ ڈالا یہ تعداد تقریباً 6 لاکھ تک پُہنچ گئیں غرض کہ ان احادیث میں راویوں کے درمیان اتنا اختلاف تھا کہ لوگ الجھنوں میں گرفتار ہونے لگے نتیجہ یہ نکلا کہ ان احادیث کو قسموں میں بانٹنا پڑا مثلاً اِنکی چیدہ چیدہ قسمیں کُچھ اِسطرح سے ہیں ۔ حسن،ضعیف،متروک،مدرج،موضوع،مرفوع،موقوف، مقطوع ، مسند،مسلسل الید ، عالی، صحیح، متصل،منقطع،مرسل،مععن،مبہم،متواتر، عزیز، احاد،غریب مطلق ۔ وغیرہ اِن چھ لاکھ میں سے دو صدی بعد امام بُخاری نے صرف سوا سات ہزارکوصحیح قرار دیا ۔ آپ ان صحیح احادیث کوپڑھیں ان میں سے بہت سی حدیثوں پر آپکا دل گواہی دیگا کہ حد یث ایسی نہیں ہوسکتی ۔اسکا حل یہ نکالا گیا کہ منتخب احادیث چھاپی جارہی ہیں ۔ آج بھی مسجدوں میں نئے امام آتے ہیں تو اپنے خطبہ میں زور بیاں کیلئے حدیثیں بیان کرتے ہیں دُنیا وی تعلیم سے آراستہ حضرات بھی ان خطبات سے مُتاثر ہوکر حدیث حدیث کرنے لگتے ہیں ۔ اسی لیے ہم اپنی لائف میں دیکھ تے ہیں کہ لوگ باگ حدیثیں کوٹ کرتے ہیں قُرآن کو کوٹ کرنے والا شاید ہی کوئی مل پاتاہے ۔ بعض لوگ تو بحث میں سامنے والے کوچپ کرانے کیلئے ایک حربہ کے طور پر اپنی بات کو حدیث سے وابستہ کردیتے ۔ جو لوگ اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے قُرآن میں تحریف نہیں کرسکتے تھے اُنہوں نے حدیثیں گھڑ گھڑ کرتحریف کا نعم البدل نکال لیا ایسی ایسی حدیثیں گھڑ لیں گئیں ہیں کہ خُود کش بمبارخوشی خوشی جیکٹ پہن کر انسانی جانوں کو خون میں نہلا دیتا ہے ۔ اسکے علاوہ ان حدیثوں کے زریعے اب قُرآن سے بخشش اور ثواب کا ایسا تصور وابستہ کردیا گیا ہے کہ قُرآن علم وحکمت کے بجائے حفظ اور تلاوت کیلئے مختص ہوگیا ہے ۔ تاکہ مدرسوں کوفائدہ پہنچے ۔ مدرسہ سے فارغ التحصیل پوش گھرانوں پر جاکر 10 سے 15منٹ سُننے کے ٹھیک ٹھاک مشاہراہ لیتے ہیں۔چونکہ حفظ کے بعد دوہراتے رہنا ہے بھول گئے تو بُہت زیادہ گُناہ ہوگا ۔لہٰذا نوکری پرمنٹ ہے ۔قُرآن انسانوں کیلئے اللہ کی طرف سے بیش بہا عطیہ ہے، یہ علم و حکمت کا خزانہ ہے اِسی کی تعلیمات کے نفاذ کیلئے آپ ص کو بعثت کیا گیا ۔ آپ ص کی زندگی اسی جدوجہد میں گُذری کہ اللہ کی تعلیمات لوگوں کے دلوں میں گھر کرجائے لیکن مفاد پرستوں نے قُرانی تعلیمات کو ہم سے دور کردیا ہے اور اس خلا کو مفادنےپرست حدیثوں کے زریعے پُر کر ہیں۔ انہوں نے اب قُران کو حفظ کرنے،تلاوت کرنے ، قُران قوانی کرانے تک محدود کرا دیا ہے ۔ جب تک ہم قُرآنی تعلیمات کے فالور نہیں بنیں گے ہم پُوری دُنیا میں ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے ۔ آپکے تبصرہ کا بُہت شُکریہ۔ خلوص کا طالب۔( ایم۔ ڈی )۔
ReplyDeleteمحترم جناب ارمغان صاحب ٭ محترم کا "میم" کٹ جانے پر معزرت خواں ہوں ۔ اُمید ہے در گُذر فرمائیں گے۔ بُہت شُکریہ۔
ReplyDeleteASA
ReplyDeletetafseel sey jawab deney ka shukria, aap key jawab sey andaza hota hey keh aap ahadis key silsley me mukhtalif nuqta e nazar rakhtey hen.
mujhey yaqeen hey keh mander ja zail links aap ki nazar sey huzer chukey hon gey.
(men deeger qaraeen key liey derj ker raha hoon)
http://baazauq.blogspot.com/2010/12/khaak-se-aazaad-hai-momin.html
http://baazauq.blogspot.com/2010/12/inkaar-e-hadees-se-taarikhe-hadees-tak.html
http://kitabosunnat.com/kutub-library/article/1-urdu-islami-kutub/1244-tareekhe-hadees.html
in safhat men derj tafseel is wajah se ahmiat ki haamil he kiun keh, is men aik ferd ka ahadis sey inkar aur phir iqrar ki roodad hey
beher hal yeh aisa mozoo hey jis per bat kerney ka kam az kam men ahal nahin hoon, lakin merey khayal men aap ko is izhar e khayal key liey alaheda post likhni chahiey
wassalm
Armughan
WAS,
ReplyDeleteمحترم جناب ارمغان صاحب ٭حدیث سے کوئی ایک شخص بھی انکار نہیں کرسکتا ہے ۔ لیکن وہ حدیثیں جو قُرآن سے میل کھاتی ہوں دیگر حدیثیں میرے نزدیک کیوں مشتبہ ہیں اِسکی وضاحت تبصرہ کے جواب میں تفصیل سے لکھ چُکا ہوں ۔ اللہ تعلیٰ نے جتنے پیغمبر بھیجے سب کا ایک ہی مقصدتھا قُرآن یعنی تعلیماتِ اللہ کو انسانوں کے دلوں میں راسخ کرانا پیغمبر کے اُٹھ جانے نے کے بعد اللہ کی تعلیمات میں تحریف ہوجاتی تھی اور لوگ اللہ کو بھول کر پیغمبر کی شخصیت میں کھوجاتے تھے جیسے عیسائی ۔اس لیےاللہ نے قُرآن کی حفاظت کا ذمہ لیکر پیغمبروں کو بھیجنے کا سلسلہ ختم کردیا اور کہا دین کو مکمل کردیا یعنی اب کسی اور علم کی ضرورت نہیں اِسی میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی ۔قُران علم کا خزانہ ہے غیر مسلم اللہ کی آیات( نشانیاں )پر قُرآن کے پیغام کے مُطابق غور و فکر کرکے سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کرتے جارہے ہیں ۔ جبکہ ہم صرف حفظ و تلاوت کرکے اُنکے غُلام ہوتے جارہے ہیں ۔قُرآنی تعلیمات رہتی دُنیا تک کے لیے ہے ۔ اسلیئے رہتی دُنیا کے تمام تغیرات کی تشریح قُرآنی تعلیمات کے زریعے ہوسکتی ہے ۔ لیکن کیا کریں مفاد پرستوں نے اجتہاد کا راستہ روک دیا ہے ۔ اب آپ سے یہ عرض ہےکہ آپ صرف پوسٹ پر تبصرہ کریں ۔ کسی قسم کے لنک فراہام نہ کریں ۔ بُہت شُکریہ ۔
خلوص کا طالب۔( ایم ۔ ڈی )۔
ASA
ReplyDeletetabsarey per tabsra kerney ka shukria
Armughan