﷽
فکرستان سے پیش ہے پوسٹ ٹیگز: ممتاز قادری/ علامہ اقبال / جرسومہ/سُپر مُسلمان /نوعـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آجکل گھروں کے دروازوں میں جو پمفلٹ اٹکائے جارہے ہیں ان میں ایسے پمفلٹوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے کہ اتوار کے دن فلاں شادی حال میں فلاں سابقے لاحقے کے حامل مولانا درس قُرآن دیں گے ۔ پردے کا خاص انتظام ہے۔ ماشااللہ سے خواتین کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد ان درسوں میں شرکت کرتی ہے ۔ یہ درس کتنے کامیاب جارہے ہیں اسکی ایک جھلک ممتاز قادری واقعہ پر مذہبی ٹمپریچر نے آپکو دکھادی ۔ اس جھلک میں روزافزوں اضافہ ہورہا ہے ۔ مُجھے صرف ایک بار ہی درس میں جانے کی سعادت حاصل ہوئی دوبارہ کبھی نہ جانے کی ٹھان لی ۔ پمفلٹ پر درس قُران لکھا ہوتا ہےشُروع بھی قُرانی آیت سے کرتے ہیں ۔اسکے بعدپورے درس میں زورِبیان/ حدیثیں بیان ہوتا ہے ان درسوں میں والدین کو یہ خوشخبری بھی دی جاتی ہے کہ آپکا بچّہ قُران حفظ کرلیگا تو آپکی بخشش ہوجائے گی ۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ حفظ کرنے کے بعد بھولنا بُہت بڑا گُناہ ہے۔ یعنی مدرسوں سے فارغ التحصیل طُلبا کیلئے مستقل روزی روٹی کا بدوبست کیا جاتا ہے کہ پوش علاقوں میں 10 سے15منٹ سُننے کا اچھا خاصا مُشاہراہ لیتے ہیں ۔
درس ، دُعائیں ، تسبیحیں ، کاؤنٹرز اتناسب کرنے کے بعد بھی ہم پوری دُنیا میں پِٹ رہے ہیں ۔ذلیل و خوار ہورہے ہیں ۔ علامہ اقبال دور میں ہم اتنے بھی ذلیل خوار نہیں تھے لیکن پھر بھی علامہ چیخ اُٹھے شکوہ کربیٹھے ، عُلما نے فتوے صادر کردیے چونکہ عُلما علامہ کے اُس دُکھ سے نہ واقف تھے جو اُنکو مسلمانوں کی حالت دیکھ کر ہوتا تھا عُلما آج بھی اُس دُکھ سے نہ واقف ہیں جوایک مسلمان مسلمانوں کی حالت زار پر محسوس کرتا ہےچونکہ اُنکی ساری توانائیاں اپنے مسلک کی افضلیت ثابت کرنے پر صرف ہوتی ہیں ۔ ہمیں غور کرنا چاہیئے کہ ترقی کی اس دوڑ میں کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہمارے عُلما ہمیں نزولی سمت میں دوڑا رہے ہوں ۔جس طرح ہمارے سیاسی رہنما مُلک کو نزولی سمت دوڑا رہے ہیں۔ اس لیے کہ معمولی خورد بینی جرسُومہ نے پٹِنے کے بعد قانونِ قُدرت کو اپناتے ہوئے صحیح سمت جدوجہد کرکے اینٹی بایوٹیکس کو شکست دینے کیلئے سُپر بگس بن گیا ۔ اِسطرح یہ ننھا سا جرسومہ ہمیں دعوتِ فکر دے رہا ہے کہ ہم غور و فکر کرنے والے بنیں ۔قانونِ قُدرت کی صحیح سمت کو پہچانیں اور اُس سمت جدو جہد کریں تاکہ ہم بھی سُپر مسلمان بن جائیں۔یا پھر ہم ہاتھ اُٹھا کر کہہ دیں کہ ہم چھوٹے سے جرسومہ سے بھی گئی گزری" نوع" بن گئے ہیں ۔
آپکے خلوص کا طالب ۔(ایم ۔ ڈی )۔
اسلام روايات کا توڑ لے کر آيا تھا ۔ آج اسلام غائب ہے اور ہر طرف روايات کا دور دورا ہے
ReplyDeleteمحترم جناب افتخار اجمل بھوپالی صاحب ٭ میرے کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم نےقُرآن کو صرف حفظ کرنے ، تلاوت کرنے، قُرآن خوانی کروانے یعنی ثواب تک تک محدود کردیا ہے ۔ جبکہ خُدا نے تو قُرآن کی صورت میں علم و حکمت کا خزانہ عطا کیا کہ جسے غور و فکر کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر سمجھتے ہوئے پڑھنے کا حُکم ہے تاکہ خُدا نے آخری پیغمبر کے زریعے جو ہمیں دینا چاہا ہے وہ ہم حاصل کرسکیں ، لیکن ہم تو بے سمجھے حفظ کرتے ہیں ، تلاوت کرتے ہیں اور قُرآن خُوانی کرواتے ہیں ۔ بے شک ثواب ہے لیکن قُران کا منشا تو علم و حکمت دینا ہے ۔وہ تو ہم حاصل نہیں کر رہے ہیں ۔ اسطرح بے سوچے سمجھے پڑھنے سے قُران کے زریعے خُدا کا جو منشا /پیغام ہے اُس سے ہم فیض یاب نہیں ہوپا رہے ہیں ۔ جس سے خلا پیدا ہوگیا جس نے بے شُمار فرقے پیدا کردیے اور ملتِ مسلمہ پارہ پارہ ہوگئی ۔ اگر عُلمائے کرام قُرآنی تعلیمات پر جمے رہتے، امّت کو اسی پر متحد رکھتے حفظ کے بجائے قُرآن میں موجود حکمت کو اُمّت پر آشکار کرتے تو اُمّت کا یہ حشر نہ ہوتا نہ کوئی فرقہ ہوتا ، نہ اُمّت پارہ پارہ ہوتی ، نہ یوں دست و گریبان ہوتی۔ چونکہ قُرآن پر سب متفق ہیں بمع اہل تشیع یہ ہی ہمارے اتحاد کا سمبل ہے ۔ ساری تفرقہ بازی اس لیے پیدا ہوئی کہ ہم نے قُرآن پر فوکس نہیں رکھا جوکہ خُدا اور قُرآن کا مقصد ہے۔ ۔ ۔ ۔ جب تک ہم اپنا فوکس قُرآن پر نہیں رکھیں گے تب تک ہم ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے ۔ کہاں تک سنوگے کہاں تک سُناؤں۔
ReplyDeleteمحترم جناب عبداللہ صاحب ٭ آپکی فراہم کردہ سائٹ میری پوسٹ کو فل سپورٹ کرتی ہے لیکن میں اس لیے اسکو پبلش نہیں کر رہا ہوں کہ پھر دوسرا نقطہ نظر رکھنے والے حضرات بھی پبلش کیلئے سائٹیں فراہم کریں گے اور اسطرح ایک فضول کی بحث شُروع ہوجائے گی جو میں اپنے بلاگ پر نہیں چاہتا ہوں ۔ ویسے سائٹ فراہم کرنے پر آپکا شُکریہ ادا کرتا ہوں۔
ReplyDelete