Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Friday, June 27, 2014

" ترقی یافتہ ممالک "

  منجانب فکرستان
علمانیہ کا قتل: غوروفکر کیلئے
جن بیرئیرز کو ہٹانے پر 13ہلاکتیں 100 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے،حکومت نے وہ بیریئر دوبارہ لگوا دیے
اب اِس سانحہ کی اِس کے سِوا کیا توجیہہ ہوسکتی ہے کہ 13 لوگوں  کی موت اور 100 افراد  کا  زخمی  ہونا
  لکھا تھا: اسلئیے یہ سانحہ ہوگیا۔
 سانحہ پر لکھاریوں کا فوکسقانون محافظوں کاقانون شکن،گلوبٹ کو گرفتار نہ کرنا،شاباشیدینا اور سانحہپر ہونا 
چاہئیے تھا لیکنفوکس طاہرالقادری کی ذات پررہا،قانون محافظوں کی شاباشی نےممتاز قادری کی یادتازہ کردی
 جسے وکیلوں نے ہار پہنائے تھے اور شاباشی بھی دی تھی ۔۔
میرے  خیال  میں  کسی ترقی یافتہ  ملک کی  پولیس  کے  ذہن میں کسی قانون شکن کو قانون شکنی پر شاباشی 
دینے کا تصور تک نہیں آسکتا ہے اور نہ ہی وکیلوں کے ذہن میں کسی مجرم کو ہار پہنانے کا خیال آسکتا ہے
۔۔۔میرے خیال میں یہی پیمانہ ہے کہ: وہ ترقی یافتہ ہیں اور ہم غیر ترقی یافتہ ۔۔
اسکا ثبوت: رضا علی عابدی کے لکھے اِس  کالم سے بھی مل سکتا ہے جسکی چیدہ چیدہ باتیں درج ذیل ہے :
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
''ایک اور تازہ واقعہ برطانیہ ہی کاہے۔ سعودی عرب سے تیس برس کی ایک لڑکی ناہید علمانیہ اعلیٰ تعلیم کے لئے یہاں آئی۔ ابھی ایک روز وہ اپنے کالج کی طرف جارہی تھی کہ کسی نے اس پر چاقو سے حملہ کیا اوراس کے بدن میں چاقو سولہ مرتبہ گھونپا۔ لڑکی مر گئی۔ اس کی لاش تو والدین کے پاس بھیج دی گئی لیکن اب پولیس نے خطرناک قاتل کی تلاش میں رات دن ایک کر دیئے ہیں۔ اس کو آلۂ قتل کی تلاش ہے اور اس کا خیال ہے کہ قاتل نے چاقو کسی قریبی جھیل میں پھینکا ہے اور وہاں تین جھیلیں ہیں۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ جھیلوں کا سارا پانی نکال کر انہیں خالی کیا جار ہا ہے۔ 
میں نے ایک روز انٹرنیٹ پر ایک اخبار کھولا۔وہ اخبار ایک نام سے اردو میں اور مختلف نام سے انگریزی میں نکلتا ہے۔ میرے سامنے جو صفحہ کھلا اس کا دایاں حصہ اردو میں اور بایاں حصہ انگریزی میں تھا۔ دونوں میں سب سے اوپر ان کی شہ سرخیاں تھیں۔ اردو حصے کی سب سے بڑی خبر یہ تھی۔’’دشمن نفاق اور انتشار پھیلانے میں سرگرم ہے۔ صدر ممنون حسین‘‘اور اس ادارے کے انگریزی اخبار کی شہ سرخی کچھ یوں تھی۔ ’’کراچی۔ منگھوپیر سے سات لاشیں برآمد ہوئی ہیں‘‘۔یہ سوچنے کا مقام ہے کہ ہمارے نزدیک کون سی بات زیادہ اہم ہے۔ایک سیاستدان کے وہ گھسے پٹے فقرے جو صبح شام کانوں میں ڈالے جاتے ہیں اور وہ بھی کسی اور کے لکھے ہوئے، یا پھر آدھے درجن سے زیادہ شہریوں کا قتل اور وہ بھی پراسرار؟ کس نے مارا، کیسے مارا اور کیوں مارا، یہ ہماری ترجیحات میں نیچے آتا ہے اور وہ بھی بہت نیچے۔ اس کے بعد یہ واقعہ کہیں وقت کے غبار میں دب کر رہ گیا اور قاتل ملک کے ہجوم میں نہایت آسانی سے گم ہو گیا۔پکڑا بھی گیا تو کچھ روز بعد ہی شہر کی سڑکوں پر سینہ تان کر گھومتا نظر آیا۔یہ اندازِ فکر چند افراد کا نہیں، پورے معاشرے کا ہے۔۔ ایک شخص کی ہلاکت پوری انسانیت کی ہلاکت ہے۔ جس کتاب میں یہ ہیرے اور موتی میں تولی جانے والی بات لکھی ہے وہ کتاب جھوم جھوم کر پڑھنے ہی کے کام آتی ہے اور بس''۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭
نوٹ: وہ  دوست  جو  رضا علی عابدی  کا  پورا  کالم  پڑھنا  چاہیں، درج  ذیل لنک  پر  جائیں ۔۔
پوسٹ میں کہی گئی باتوں سےاختلاف/اتفاق کرناآپکا حق ہے۔اب مجھےاجازت دیں،پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔ 
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }