Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Tuesday, June 24, 2014

اِتفاق / اِختلاف ؟؟

  منجانب فکرستان
دوستو:آپ بزریعے بلاگ میرے خیالات پڑھ کر میرے بارے میں اچّھی/بُری یا جوبھی ایک رائے قائم
  کی ہوگی،اسی طرح ڈاکٹر صفدرمحمود صاحب کے کالم پڑھ کر( جن سے اِتفاق/اِختلاف رہتا ہے)یہ رائے
 قائم  کی ہے کہ ڈاکٹر صاحب نہایت شریف النفس انسان ہونگے ڈاکٹر صاحب کے کالم سے اقتباس۔ 
"میں اپنے بارے میں تھوڑا سا جانتاہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے اندر ایک عددباغی موجود ہے جوپیری مریدی، دربارداری، خوشامدی ماحول،خانقاہی ماحول اور فضول معاشرتی رسومات کے خلاف بغاوت کرتا رہتا ہے۔ اس لئے میں کبھی بھی ’’مرید‘‘ ٹائپ نہیں رہا۔ لیکن اس کے باوجوداللہ سبحانہ ٗ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجھے زندگی میں تین کامل اولیا کرام کی محفلوں میں بیٹھنے، جوتیاں سیدھی کرنے اور ان سے محبت کے رشتے میں منسلک ہونے کا موقعہ ملا۔ میرا وجدان کہتاہے کہ اولیائے اللہ صرف سچی جستجو اورمخلصانہ کوشش سے ملتے ہیں اور ان سے تعلق اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہوتا ہے۔ یوں تو مجھے بہت سی نیک اور عبادت گزار ہستیوں سے تعلق کاشرف حاصل رہا لیکن یہ تین اللہ والے ایسے کامل مرشد تھے جو احوال پر نظر رکھتے۔ اشاروںکنایوں میں ایسی باتیں کرجاتے جو سچ بن کر میرے سامنے آ جاتیں اور بعض اوقات مجھ پر وہ بات منکشف کر جاتے جس کاحال صرف میں ہی جانتا تھا۔ میں کہ مزاجاً تحقیق اور بقول ایک صاحب ِ باطن مغربی علوم زدہ ثبوت کے بغیر کسی بات پر اعتباراور اعتمادکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان محفلوں میں ایسے روحانی تجربات ہوئے کہ میں پہلی بارروحانیت کا قائل ہوا۔ اس لئے جب کوئی روحانیت کے بارے میں تشکیک یا شک کا اظہار کرتا یا تمسخر اڑاتا ہے تو سوچنےلگتا ہوں کہ ’’بھولئے مجھّے توں کی جانیں انارکلی دیاں شاناں‘‘ (اے کالی بھینس تم انارکلی کی شان نہیں سمجھ سکتی) میں جن بزرگوں کا ذکر کر رہاہوں ان سے میرا رشتہ قلبی محبت کا تھااوروہ تینوں اللہ کو پیارے ہوچکے لیکن میرے قلب و ذہن میں آج بھی زندہ ہیں حالانکہ ان میں سے دو ہستیوںکے انتقال کو تین اور دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزرا۔ ان کے حوالے سے قلبی وارداتوں کا ذکر کروں تو داستان طویل ہو جائے گی لیکن روایت یہی ہے کہ ایسی باتوں کو پردے میں ہی رہنے دیاجائے۔
بابامست اقبال شاہ صاحب سے میرا پہلا تعارف 1989میں ہوا جب محترمہ بینظیر بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد میاں برادران سے قریبی تعلق کا الزا م لگا کر مجھےاو ایس ڈی بنا دیا اور ہرقسم کا ٹارچر کیا۔ باباجی سے ایک دوست کے گھر میں ملاقات ہوئی۔ میں ان کے نام تک سے غیرمانوس تھا۔ ہاتھ ملاتے ہی کہنےلگے ’’بابا گھبرانا نہیں، تم اپنی تقرری کا آرڈرخودٹائپ کرو گے۔‘‘بینظیر حکومت ڈسمس ہوئی تو مجھےچیف سیکرٹری نےبلا کرکہا ’’ڈاکٹر صاحب! بتایئے کس پوسٹ پر جاناچاہتے ہیں؟‘‘ اس کے بعدباباجی سے دوستی ہوگئی اورملاقاتیں ہونےلگیں تو پتہ چلا کہ باباجی بچپن سے لے کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے قبل تک جذب کی حالت میںرہے۔ لنگوٹی میں موٹے ڈنڈے کے ساتھ لاہور کی سڑکوں پر پھرتے اوربازارِ حسن کے راستے مغرب کی اذان تک داتا دربار پہنچتے تھے۔یہ ’’ڈرل‘‘طویل عرصے تک جاری رہی۔ پھر بقول باباجی کپڑے پہننے کا حکم ہوا، پھر شادی کاحکم ہوا اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں گھرباراور اولاد سے نوازا۔ اس مجاہدے کا انعام تھا کہ ان کا دل حسد، رشک، لالچ، کدورت، نفرت اور ہر قسم کی دنیاوی آلائش سے پاک تھا اور ان کے قلب میں ہر وقت محبت کا زمزمہ بہتا رہتاتھا جس سے نیک اور گناہگار سبھی فیض یاب ہوتے تھے۔ ان کے بقول انہیں حضرت سید علی ہجویریؒ المعروف حضرت داتا گنج بخش سے فیض حاصل ہوا تھا۔ وہ مجھے اکثر یاددلاتے رہتے تھے کہ میری باگ حضرت داتا کے ہاتھ میں ہے۔ میں آزادنہیں۔
میرا محترم نسیم انور بیگ صاحب (اسلام آباد) سے گہرا قلبی تعلق تھا۔ کوئی اٹھارہ سال قبل وہ لاہور آئے تو باباجی سے ملنے کی خواہش کااظہار کیا۔ نسیم انور بیگ صاحب نے زندگی کا متعدد حصہ پیرس اور یونیسکو میں گزارا لیکن مغرب کی آندھیاں ان کے قلب میں روشن چراغ کو بجھا نہ سکیں۔ میں نے بیگ صاحب سے عرض کیا کہ چانس لے لیتے ہیں مجھے اندازہ نہیں اس وقت باباجی گھر پر ہوں گے یا نہیں۔ یہ ان کی باباجی سے پہلی ملاقات تھی۔ ہم باباجی کے گھر گئے۔ ملازم نے مجھے دیکھا تو اوپر والی منزل پر باباجی کو اطلاع دینے بھاگا۔باباجی سیڑھیاں اترتے آتے اور کہتے جاتے تھے ’’آج پیرس والا بابا آیا اے‘‘ انہیں کیسے خبر ہوئی، صرف میرا رب جانتا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد بیگ صاحب دوبارہ لاہور آئے۔ باباجی میرے گھر میں فرش پر بیٹھے تھے۔ بیگ صاحب آگئے اور پھراس وقت کے وفاقی سیکرٹری اطلاعات حاجی اکرم صاحب مرحوم بھی تشریف لے آئے۔چائے پیتے ہوئے اچانک باباجی بولے ’’ڈاکٹر بابا! تم حاجی کی جگہ پر۔ ڈاکٹر بابا! تم حاجی کی جگہ پر‘‘ یہ بات سن کر میں پریشان ہو گیا کیونکہ حاجی صاحب کچھ عرصہ قبل مجھے بتا چکے تھے کہ وزیراعظم میاں نوازشریف نے مجھے کہا ہے کہ میں کسی صورت بھی ڈاکٹر صفدر کو نہیں لوں گا۔ ایک ڈیڑھ ماہ بعد مجھے حاجی اکرم مرحوم کی جگہ پر لگا دیا گیا اور باباجی کے منہ سے نکلی ہوئی بات سچ ثابت ہوگئی۔ تین چاربارایسا ہوا کہ کہنے لگے ’’بابا! تم رزق حلال کھاتے ہو۔ یہ نوٹ اپنی جیب میں محفوظ رکھنا، خرچ نہ کرنا، اللہ تمہارے رزق میں برکت ڈالے گا‘‘ پھر سچ مچ رزق میں برکت پید ہونےلگی۔ ایک بار میں نے باباجی سے کہا کہ حضور! آپ نے مجھے جو دس روپے کا نوٹ دیا تھا وہ گم ہوگیاہے۔ فوراً بولے وہ میرے پاس واپس آگیا تھا۔ جیب میں ہاتھ ڈالا اور کہا ’’یہ ہے وہ نوٹ سنبھال کر رکھنا‘‘ہزاروں باتیں ہیں کس کس کا ذکر کروں۔ میری بیٹی کی شادی ہوئے چندماہ گزرے تھے۔ حسب ِ معمول بابا جی آئے توبیٹی کی تصویر پر نظر پڑی، کہنےلگے ’’بابا! اللہ بیٹی کو ہیرے ورگا بیٹا دے گا‘‘اور پھر ایسا ہی ہوا۔ میں دفتر میں بیٹھا تھاتو اچانک تشریف لے آئے اور کہا کاغذ پن دو۔ پھرکاغذ پر کچھ لکھااور کاغذ مجھے تھما دیا۔ لکھا تھا ’’بابا! تمہارا 22گریڈ کا ٹھپہ لگ گیا۔‘‘ میں نے کاغذ بریف کیس میں رکھ لیا جہاں باباجی کے لکھے کئی اور خطوط بھی رکھے تھے۔ چند برس بعد اللہ تعالیٰ نے ترقی کردی۔جنرل پرویز مشرف کو اقتدار میںآئے دو تین ماہ گزر ے تھے تو باباجی مجھے کہنےلگے ’’بابا! تم ظالموں کے ہتھے چڑھ گئے ہو۔ حضرت یونس ؑ والی دعا پڑھا کرو۔‘‘ میں بات سمجھ نہ سکا اور ایک ما ہ بعد اوایس ڈی بنا دیا گیا۔ چند ماہ قبل استنبول سے میری بیٹی اور داماد آئے۔
میں ان کو لے کر باباجی کے ہاں گیا، کہنے لگے ’’بہن! تمہارا رزق بندروںوالے شہر میں ہے، تیاری کرلو‘‘ مجھے علم تھاکہ باباجی لند ن کو ’’باندروں‘‘والا شہر کہتے ہیں۔ چار ماہ قبل داماد کو لندن میں پوسٹنگ مل گئی اور وہ لندن منتقل ہو گئے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے بابا جی مجھے تنہائی میں کہا کرتے تھے کہ بابا میں نے مدینہ شریف چلے جاناہے اورپھر وہیں سرکارﷺ کے قدموں میں رہناہے۔ پھر وہ مجھےایسی باتیں بتاتے جو میں لکھ نہیں سکتا کبھی کبھی میرے بارے میں ایسی باتیں کرتے جو میرے سینے میں دفن ہیں اور باباجی کی امانت ہیں۔ 8فروری کو صبح قلم پکڑا اوراخبار پر لکھا ’’مجھے جنت کی ٹھنڈی ہوائیں بلا رہی ہیں۔ مجھے مدینہ طیبہ کی ہوائیں بلا رہی ہیں‘‘اسی شام طبیعت معمولی سی خراب ہوئی اور ہسپتال لے جاتے ہوئے اچانک بگڑ گئی۔ ہسپتال سے چند منٹ کے فاصلے پر تھے بیٹے کا ہاتھ پکڑا، آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’بیلی مجھے لینے آگئے ہیں‘‘ قرآنی آیات پڑھیں اور دنیا سے پردہ کرگئے۔ ہر جمعرات شام داتا دربار جانا ان کا طے شدہ معمول تھا۔ جمعرات ہی کو نماز ِ عصر کے بعد ان کی نماز جنازہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے قدموں کی جانب ادا کی گئی اور شام کو میانی صاحب قبرستان میں دفن کردیا گیا کہ ہر جاندار کو موت کا ذائقہ چکھنااور دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ باباجی میرے پیارے مخلص دوست تھے، یار تھے اور ہمراز تھے۔ ان کے جانے کے بعدمجھے یوںلگتا ہے جیسے میں تنہا ہو گیاہوں لیکن یہ کہہ کر دل کو تسلی دے دیتا ہوں کہ یہ چار دن کی جدائی کوئی بات نہیں۔ انشا اللہ جلد اکٹھے ہوں گے۔
چندروز قبل میں ان کی قبر کے قدموں پہ کھڑا فاتحہ خوانی کر رہا تھاتو مجھےیوں محسوس ہوا کہ جیسے باباجی مجھے کہہ رہے ہوں ’’بابا فکر نہ کرو ہم تمہارے پاس ہیں‘‘ یہ میرا واہمہ تھا، لیکن پھر بھی مجھے سہارا دے گیا "۔

بشکریہ جنگ 

 پوسٹ میں کہی گئی باتوں سےاختلاف/اتفاق کرناآپکا حق ہے۔اب مجھےاجازت دیں،پڑھنے کا بُہت شُکریہ ۔ 
  {ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }

No comments:

Post a Comment