Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Monday, September 19, 2011

٭ نریندر مودی شو اور پُر تاثر نظم ٭

منجانب فکرستان پیش ہے:سنجیوبھٹ کےخط کی تاثراتی نظم "بہتر ہوگا کہ ہم جنگ شروع کریں "۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 مذہبی نیتا  ہوں کہ سیاسی نیتا یہی وہ دو نیتا ہیں جو اپنی چرب زبانی کے زریعے  بڑے پیمانے پر انسانوں کو گمراہ کرتے ہیں۔حالیہ مثال نریندرمودی شو ہے جو 3 گھنٹے شو کی جگہ تین دن کا برت شو ہے اس شوکے زریعے وہ اپنے انسان خونی جسم پر ،انسان دوستی کا لیبل لگوانا چاہتے ہیں لیکن انٹیلی جنس انچارج سنجیو بھٹ ( لقب بہادربھٹ ) نے  کھلے خط میں لکھا ہے مودی کچھ بھی کرلے وہ گمراہ نہیں کر سکے گا۔خط میں پرتاثرنظم بھی ہے جسکا ترجمہ انقلاب انڈیا نے چھاپا ہے۔قارئین کیلئےنقل پیش ہے۔۔۔ گُزارش ہے کہ نظم سلو موشن میں پڑھیں شُکریہ۔۔۔۔
میرے پاس اصول ہیں ،لیکن طاقت نہیں ۔۔۔تمہارے پاس طاقت ہے ،لیکن اصول نہیں ۔۔۔ تم چونکہ تم ہو۔۔۔ اور میں چونکہ میں ہوں ۔۔۔ اس لیے مجھ میں اور تم میں سمجھوتا ممکن نہیں ہے ۔۔۔بہتر ہوگا کہ ہم جنگ شروع کریں۔۔۔میرے پاس سچائی ہے ،لیکن فوج نہیں ۔۔۔ تمہارے پاس فوج ہے ،لیکن سچائی نہیں ۔۔۔اس لیے مجھ میں اور تم میں سمجھوتا ممکن نہیں ہے ۔۔۔ بہتر ہوگا کہ ہم جنگ شروع کریں ۔۔۔تم میری گردن مروڑ سکتے ہو ۔۔۔ میں مزاحمت کروں گا ۔۔۔تم میری ہڈیاں توڑ سکتے ہو ۔۔۔ میں مزاحمت کروں گا ۔۔۔ تم مجھے زندہ دفن کرسکتے ہو ۔۔۔ میں پھر بھی مزاحمت کروں گا۔۔۔ سچائی میری شریانوں میں دوڑتی پھرے گی ۔۔۔اور میں لڑوں گا ۔۔۔مجھ میں جب تک طاقت ہے ۔۔۔میں لڑوں گا ۔۔۔ آخری سانس تک لڑتا رہوں گا۔۔۔لڑتا ہی رہوں گا تب تک۔۔۔جب تک تمہارے جھوٹ کا محل منہدم نہ ہوجائے ۔۔۔اور جھوٹ کے جس دیوتا کی تم پوجا کرتے ہو۔۔۔میرے سچائی کے فرشتے کے قدموں میں اوندھے منہ گر نہ پڑے۔۔۔۔۔شُکریہ۔ تصاویربشکریہ ( بی بی سی) نظم ترجمہ اردو بشکریہ( روزنامہ انقلاب)۔( ایم ۔ ڈی)
                                                                                 
                       




     
    فرض شناس۔ لقب بہادر بھٹ                                             مکارانہ ہنسی عیاں ہے 

2 comments:

  1. احمر

    بہت خوب
    لیکن جس نے بھی اس نظم کا ترجمہ کیا ہے اس سے ایک چوک ہوی ہے میرے خیال میں

    ان صاحب ، کو یہ جانتے ہوے بھی کہ وہ یہ نظم ہندوستان کے اخبار میں چھپوا رہے ہیں
    جہاں ہندو اور مسلمان دونوں بستے ہیں اور ابھی تک دونوں مذاہب میں ایک محاذ ارای کی کیفیت موجود ہے
    وہاں ' انہیں مودی کے لیے "جھوٹ کا دیوتا" اور اپنے لیے "سچای کا فرشتہ" جیسی مذہبی اصطلاحات استعمال نہیں کرنی چاہیے تھیں
    جبکہ ہم جانتے ہیں کہ دویتا ایک ہندو مذہبی اصطلاح ہے اور فرشتہ ایک مسلم مذہبی اصطلاح

    ہندو اسے دیوتا پر فرشتوں کا حملہ تصور کر سکتے

    شکریہ

    ReplyDelete
  2. محترم احمر صاحب آپکا شُکریہ کہ آپنے اپنے خیال کے مُطابق ایک اعتراض اُٹھایا اور مجھے ایک وضاحت کا موقع فراہم کیا اصل میں یہ نظم ایم ایس یونیورسٹی " بڑودہ" کے فارغ التحصیل جناب "بھوچنگ سونم " صاحب کی ہے ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کی سونم صاحب نے یہ نظم کس واقعہ سے متاثر ہوکر لکھی تھی۔ ہوسکتا ہے گجرات فسادات سے ہی متاثر ہوکر لکھی ہو ۔ انقلاب والوں نے تو بھٹ صاحب کے خط کا ترجمہ چھا پا ہے جس میں یہ نظم بھی موجود ہے۔ ہوسکتا ہے سونم صاحب نے جھوٹ کا دیوتا اور سچ کا فرشتہ ہی لکھا ہو تو ترجمہ کرنے والا تو اس میں تبدیلی نہیں کرسکتا ہے ورنہ سونم صاحب ہی ترجمہ پر اعتراض لگا دین گے ۔ رہی آپکے خدشہ والی بات تو عرض ہے کہ انڈیا میں اتنے مذہب پرستانہ فسادات نہیں ہوتے جتنے کہ پاکستان میں فرقہ وارنہ فسادات ہوتے ہیں وہ بھی عبادت گاہوں میں یہاں پر کسی فرقہ کی عبادت گاہ محفوط نہیں ہے ۔آپ کے احساسات کی میں قدر کرتا ہوں جو آپ ایسا سوچتے ہیں کہ کہیں سے بھی کوئی ایسی چنگاری نہ اُڑے کہ شعلوں میں تبدیل ہوجائے ۔ بہر حال آپکے تبصرہ کا شُکریہ۔( ایم ۔ ڈی )۔

    ReplyDelete