﷽
منجانب فکرستان ۔۔۔ پیش ہے۔۔۔ ریمنڈکی حالاتِ زندگی پر ایک طائرانہ نگاہ ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ریمنڈ کی حالاتِ زندگی پر نظر ڈالتے ہیں کہ وہ اس مُقام تک کیسے پہنچے ۔ ریمنڈ کے بیمار والد 55 سال کی عمر میں انتقال کرگئے نتیجہ میں ریمنڈ کو بھی ذیا بیطس ٹائپ 2 ہوگئی تھی لیکن علاج کے زریعے اُسنے اس بیماری سے نجات حاصل کرلی ۔
ریمنڈ 12 فروری 1948 نیویارک کے علاقے کوئنز میں پیدا ہوئے ۔ادارہ ایم آئی ٹی سےکمپیوٹرسائنس اور ادب میں گریجویشن کیا ۔وہ نظریہ لامتناہیت کے پُر جوش حامی ہیں ،یہ 15 جنوری 1965کی بات ہے۔کہ ریمنڈ نے ایک کوئیز گیم شو "I,have gota secret"میں حصّہ لیا تھا۔جس میں اُسنے پیانو پر ایک انوکھی دُھن بجائی تھی جسے مہمانوں نےبُوجھنا تھا۔ مہمانوں نے بوجھ لیا کہ یہ دُھن کمپیوٹر سے کمپوز شُدہ ہے۔ یہ کمپیوٹر ریمنڈ نے خود بنایا تھا ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کمپیوٹر سے اُسکا عشق روز بہ روز بڑھتاہی چلا گیا ۔ وہ اب کمپیوٹر کی روز افزوں بڑھتی ہوئی طاقت اور ذہن انسانی کا موازنہ کرنے لگا ۔ nasa نے تین سال قبل سینگولیریٹی یونیورسٹی قائم کی (جس کے بانی اسپانسروں میں گوگل شامل ہے) ریمنڈ نے سان فرانسسکو میں بھی سنگولیرٹی (درجہ لا متناہیت) انسٹیٹیوٹ فار آرٹیفیشل
انٹیلجنس قائم کیا ہے ۔ اس کے علاوہ اور بھی اس طرح کےادارہ بنائے ہیں جہاں سنگولیریٹی سے متعلق تعلیم دی جا تی ہے۔ ایسے سائنسداں ، دانشور و دیگر جو سنگولیریٹی پر یقین رکھتے ہیں singularian کہلاتے ہیں ۔
ریمنڈ مستقبل کا دریچہ اسطرح سے کھُولتے ہیں وہ کہتے ہیں ۔ حال ہی میں امریکہ میں سُپر کمپیوٹر "واٹسن" نے کوئز پروگرام "جیو پر ڈی" میں دو انسانوں کو شکست دےدی ہے جبکہ واٹسن کی کی میموری 1ٹیرا بائٹ ہے اور انسان کی 1اعشاریہ25 گویا واٹسن انسانی دماغ کا 80 ٪ ہے پھر بھی اُسنےانسان کو شکست دےدی۔ اُنکا کہنا ہے کہ 2020 تک انسان مصنوعی ذہن بنالے گا جو 2025 تک ترقی کرکے انسانی ذہنی سطح تک پُہنچ جائے گا اور 2045 تک یہ ذہن درجہ لامتناہیت کو پالے گا جو انسانی ذہانت سے ایک ارب گُنا زیادہ ہوگی ۔ تب تک نینوٹیکنالوجی بھی اتنی ترقی کرجائے گی کہ بُڑھاپے ودیگر پیچیدہ بیماریوں کو ختم کردے گی اسطرح انسان ہمیشہ جوان رہے گا اوروہ لافانی ہوجائے گا اور اگر چاہے تو اپنے شعور کو اسکین کراکے کمپیوٹر کے ذہن میں منتقل کرالے یا پھر اپنے شعور کو اِسکین کراکے سافٹ ویئرکے طور پر کمپیوٹر میں چلا جائے اسطرح سے ورچوئلی طور پر انسان ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی پاجائے گا۔ سائینسدانوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہیں کہ جسطرح سے کمپیوٹر ودیگر ٹیکنالوجی اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہیں ہیں اس سے لگتا ہےکہ 2045 کے آس پاس درج بالا خواب کی سی باتیں حقیقت کاروپ دھار لیں گی ۔ اُنکا کہنا ہے ایسا ہوکے رہے گا ۔
ریمنڈ ابھی 62 سال کے ہیں ۔ وہ مرنا نہیں چاہتے ہیں وہ2045 تک زندہ رہ کر کمپیوٹر میں داخل ہوکر پہلے لافانی انسان بننا چاہتے ہیں ۔ وہ اپنی صحت کو قائم رکھنے کیلئے روزانہ150 گولیاں مختلف قسم کی کھاتے ہیں ۔وہ 39 پیٹنٹ ایجادات کے مالک ہیں 19 اعزازی داکٹریٹ رکھتے ہیں ۔ ریمنڈنے بیسٹ سیلر کتاب "لا متناہیت قریب ہے" لکھی ہے ۔اسکے علاوہ ایک کتاب روحانی مشینوں کا دور بھی لکھی ہے۔اُنہیں بل کلنٹن نے قومی تمغہ برائے ٹیکنالوجی کے اعزاز سے نوازا جبکہ بل گیٹس نے ریمنڈ کے بارے میں کہا کہ مصنوی ذہا نت کے متعلق پیش گوئیاں کرنے والا بہترین دانشور ہے ۔
اور ہاں میں نے ریمنڈ نام کی مناسبت سے ذرا سسپنس پیدا کرنے کی کوشش کی ہے چونکہ ماہرین ذہن کہتے ہیں کہ سسپنس ذہن کی ورزش ہے ۔ تاہم جن لوگوں کی طبعیت پر میرا یہ انداز گراں گُزا ہو اُن سے میں معزرت خُواں ہوں ۔(اس پوسٹ کا مواد ایکسپریس نیوز میگزین سے ماخوذ ہے) ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سائنسدانوں کا کہنا ہے ایسا ہوکے رہے گا۔ اِس طلسم ہوشربا کو پڑھ کر آپکے ذہن میں جس قسم کے بھی خیالات آئیں پڑھنے والوں کے ساتھ شئیر کریں۔ یا اوپر دائیں جانب پول کلک کردیں ۔ آپکا بُہت شُکریہ۔ (خلوص کا طالب ۔ایم۔ڈی)۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سائنسدانوں کا کہنا ہے ایسا ہوکے رہے گا۔ اِس طلسم ہوشربا کو پڑھ کر آپکے ذہن میں جس قسم کے بھی خیالات آئیں پڑھنے والوں کے ساتھ شئیر کریں۔ یا اوپر دائیں جانب پول کلک کردیں ۔ آپکا بُہت شُکریہ۔ (خلوص کا طالب ۔ایم۔ڈی)۔
تاریخ کے طور پہ انسانی یاداشت بہت مختصر سی ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ انسانی وصف اسے سے پہلے بھی کئی بار کمال کی بلندیوں کو چھو کر پھر نئے سرے سے پستیوں کا سفر کرتا آرہا ہے۔
ReplyDeleteمسئلہ یہ کہ انسان کی پستی سے کمال تک کے اس سفر کی طوالت، دورانیہ اور مراحل کے بارے میں انسانی یاداشت خاموش ہے۔ اسلئیے جہاں کہیں بھی اور جب بھی انسان نے متنہاء سے لامتنہاء کی طرف چھلانگ لگانے کا سوچا تو یہی سوچا کہ یوں پہلی دفعہ ہونے جارہا ہے۔ جب کہ یہ ایک سرکل ہے جو شاید میلنز ہا میلنز سالوں سے دہرایا جارہا ہے۔ اور انسان لامتنہاء کی بجائے پھر اسی پستی میں پہنچ جاتا ہے جہاں سے اسکے سفر کا آغاز ہوتا ہے اور اسمیں لاکھوں سال میں شاید ایک چکر پورا ہوتا ہے۔ واللہ علم باالغئب
البتہ دنیا جب سے دنیا ہے اور حضرت انسان کے وجود کا پتہ چلتا ہے تب سے ابد صرف ایک ہی ہستی کو ہے باقی سب فانی ہے۔ رہے نام اللہ کا۔
بھائی جاوید گوندل ۔ آپکا بُہت شُکریہ کہ آپنے قارئین کے ساتھ اپنے ایک خیال کو شئیر کیا ۔ میری تو خواہش ہی یہ ہے کہ میرا ہر قاری اپنے خیال کا اظہار کرے چاہے وہ خیال کیسا ہی کیوں نہ ہو اسطرح میرا بلاگ مختلف الخیال لوگوں کے خیالات سے آراستہ ایک طرح کا خوبصورت گُلدستہ جیسا بن جائے ۔ جاوید بھائی میں نے ایک کتاب پڑھی تھی اُس میں بھی آپکے خیال سے ملتا جُلتا خیال پیش کیا گیا تھا۔ بھائی سچ بات تو یہ ہے کہ ہماری عقل بُہت محدود ہے ۔ (آپکے خلوص کا طالب ایم ۔ ڈی)۔
ReplyDeleteخواب ديکھنا يا منصوبہ بندی کرنا اور اپنے لئے نہائت مُشکل ہدف مقرر کرنا بُری بات نہيں ليکن ماضی اور حال کو مدِنظر رکھنا ضروری ہے ۔ مادی لحاظ سے ناممکن عمل روحانی لحاظ سے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ممکن بنا ديتے ہيں ۔ تاريخ ميں مرقوم ہے کہ ايک نيک انسان جس نے اللہ کی وحدنيت کے 99 دلائل لکھے تھے جب نزاع کا وقت آيا تو ابليس حاضر ہو گيا اور اللہ کی وحدانيت کی دليل مانگی ۔ عالم نے دليل دی تو ابليس نے مسترد کر دی ۔ اسی طرح 99 دلائل مسترد ہو جانے پر عالم تکليف ميں تھے کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے سينکڑوں ميل دور ايک اور عالم کو جب کہ وہ مسجد ميں واعظ کر رہے تھے ان کی حالت دِکھا دی اور وہ برملا بولے "کہہ دے کہ ميں اللہ کو بغير کسی دليل کے مانتا ہوں"۔ چنانہ اُنہوں نے ايسے ہی کہا اور ابليس رفوچکر ہو گيا اور وہ چين سے راہی ملکِ عدم ہوئے ۔
ReplyDeleteبھائی افتخار اجمل بھوپالی ۔ آپکا بُہت شُکریہ کہ آپنے میرے قارئین کو اپنے خیالات سے نوازا ۔( آپکے خلوص کا طالب ۔ایم ۔ ڈی)۔
ReplyDelete