﷽
فکرستان سے پیش ہے پوسٹ ٹیگز: بفیلو/ 9/11/ مذاہب /بریجز / روح/25سال
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
راحیل اور ارم کے خیالات میں ہم آہنگی تھی اسلئے دونوں میں دوستی تھی اُنہوں نے سوچا اس خیالاتی دوستی کو مزید استحکام پہنچانے کیلئے جسمانی دوستی کرائی جائے والدین کی مُخالفت کے باوجود اُنہوں نے کورٹ میں جاکر شادی رچالی لیکن کچھ ہی عرصہ بعد یہ جسمانی دوستی روحوں کی د شمن بن گئی جو ایک دوسرے کو اپنی زندگی کہتے نہیں تھکتے تھے ایک دوسرے کی صورت سے نفرت کرنے لگے آخر کار گھریلو معمولی جھگڑے نے ارم کی جان لے لی راحیل نے ارم کا گلا دبادیا خود تھانے پُہنچ کر گرفتاری دے دی اقبالِ جرم کرلیا ۔ جج نے عُمر قید کی سزا سُنادی ۔ انسانی سوچ کا یہ کیسا تضّاد ہے کہ جانیں جاناں ہی جاں کے دشمن بن جاتے ہیں۔ اِس طرح کے کئی حقیقی واقعوں میں سے یہ ایک فرضی واقعہ ہے ۔ انسانی سوچ کے تضّاد کا حقیقی واقعہ درج ذیل ہے۔
انسانی سوچ کے تضّاد کا یہ واقعہ ریاست نیو یارک کےشہر بفیلو میں پیش آیا یہ خوشحال لوگوں کا شہر ہے۔ یہاں پر ایک ایسا پاکستانی نژاد جوڑا جن کے دو بچّے بھی تھے قیام پزیر تھا کہ جو 9/11 کے واقعہ کے بعد مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان بڑھی ہوئی تلخی پر دُکھی تھا اور اس تلخی کو کم کرانے کا عزم رکھتا تھا مسلم اور عیسائی کمیونٹی کے درمیان پُل باندھنا چاہتا تھا ،دونوں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا چاہتا تھا اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے جوڑے نے Bridges.T.V کے نام سے اپنا چینل قائم کیا مزمل چیف ایگزیکٹیو اور بیوی آسیہ مینیجر کے طور پر اِس چینل کو چَلارہے تھے لیکن میاں بیوی تنازعات نے ایسا رُخ اختیار کیا کہ بیوی نے طلاق لینا چاہا جبکہ مزمل نے تو آسیہ کے جسم سے اُسکی روح کو نکال باہر کیا ۔ اورخود ہی پولیس کو گرفتاری دےدی موقف اپنایا کہ اگر میں آسیہ کوہلاک نہ کرتا تو وہ مُجھے مار دیتی ۔ مزمل کا آسیہ کے سر کو تن سے جُدا کرنا شدید نفرت کو ظاہر کرتا ہے ۔
مزمل اور آسیہ مذاہب میں ہم آہنگی کے خواہاں تھے
عدالت نے مزمل کو 25 سال قید کی سزا سُنائی ہے ۔ انسانی سوچ کا یہ تضّاد سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ جنہوں نے ۔ 9/11 کے واقعہ کے بعد امریکی مسلمانوں اور غیر مسلم کے درمیان خلیج کو کم کرانے اور ہم آہنگی پیدا کرانے کیلئے Bridges جیسا ٹی۔وی اسٹیشن قائم کرنے والے جوڑے نے اپنی گھریلو زندگی کا پُل کیوں توڑ دیا۔ دوسروں میں سمجھوتہ کرانے والوں نے اپنی زندگی میں سمجھوتہ کو کیوںشامل نہیں کیا ؟ ۔ انسانی سوچ کا یہ کیسا تضّاد ہے ؟
۔ معاون سائٹ۔
۔ معاون سائٹ۔
ذیل کی وڈیو میں بھی انسانی سوچ کا تضّاد سُنایا جا رہا ہے ۔
*آپ کے خلوص کا طالب * ( ایم ۔ ڈی )۔
شاخِ نازک پہ جو آشيانہ بنے گا وہ نائيدار ہو گا
ReplyDeleteجذبات ہونا ايک اچھی خُو ہے مگر عمل کيلئے ہوشمندی لازم ہے
ميں پاکستان دو ايسے جوڑوں کو جانتا ہوں جنہوں نے محبت سے مغلوب ہو کر شادی کی ۔ والدين کی رائے کو کو اہميت نہ دی ۔ دو نوں کی زندگياں کچھ سال لڑائی جھگڑوں ميں گذر کر آخر عليحدگی ہوئی
ايسے جوذڑے بھی ہيں جنہوں نے اپنی محبت اپنے والدين کے ذريعہ پروان چڑھائی اور خوش و خرم زندگياں گذار رہے ہيں
محترم جناب افتخاراجمل بھوپالی صاحب ٭ آپنے نہ صرف قارئین کو اپنے خیالات سے نوازا بلکہ مثالیں دیکر ثبوت بھی فراہم کیا ۔
ReplyDeleteآپکا بُہت شُکریہ۔
خلوص کا طالب۔( ایم ۔ ڈی )۔
میں بہت سارے ایسے جوڑوں کو جانتی ہوں جنہوں نے پسند کی شادی کی اور وہ ایک مثالی زندگی گذار رہے ہیں۔ یہاں پسند کی شادیوں سے میری مراد وہ شادیاں ہیں جس میں لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور اپنی پسند اپنے بزرگوں تک پہنچاتے ہیں۔ بزرگ انکی خواہش کا احترام کرتے ہیں اور یوں یہ مرحلہ بحسن و کوبی طے پا جاتا ہے۔
ReplyDeleteاصل امتحان تو اس وقت شروع ہوتا ہے جب ساتھ رہنے کا مرحلہ آتا ہے۔ چیزیں شیئر کرنی پڑتی ہیں۔ جذبات شیئر کرنے پڑتے ہیں۔ اور اس مرحلے پہ آکر فریقین اور انکے والدین دونوں ہی غلطیاں کرتے ہیں۔ اس طرح روائیتی طریقے سے ہونے والی والدین کی پسند کی شادیاں بھی ناکام ہو جاتی ہیں۔
چیزوں میں صرف محبت، توجہ، گھر، مال و دولت نہیں شہرت بھی آتی ہے۔
بالخصوص ہمارے مشرقی شوہر، انکی تربیت ایسی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے ہم پلہ دیکھیں۔ اور انکی شہرت کو شیئر کر سکیں۔ بالکل ایسے جیسے ایک گھریلو خاتون اپنے شوہر کی شہرت اور اسکے مرتبے پہ فخر کرتی ہے یہ جذبہ مردوں میں پیدا نہیں ہو پاتا۔
خیر تعلقات کی مضبوطی اسی وقت سامنے آتی ہے جب شریک کرنے کے عمل سے گذرنا پڑے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ کسی کی شخصیت کا اندازہ لگانا ہو تو اسکے ساتھ سفر کر لیجئیے۔
محترمہ عنیقہ ناز صاحبہ٭ آپکا بُہت شُکریہ کہ آپ نے پوسٹ سے متعلق اپنا نقطہ نظر قارئین تک پہنچایا آپ چاہتیں تو اپنے نقطہ نظر کی حمایت میں ثبوت کے طور پر کئی نام پیش کرسکتیں تھیں میرے دماغ میں کچھ خوبصورت جوڑوں کے نام آگئے ہیں مسرت جبیں فرہاد زیدی ٭جاوید اقبال ناصرہ جاوید٭محمدعلی زیبا ٭ دلیپ کمارسائرہ بانو وغیرہ وغیرہ ۔ناکامی کا تناسب بھی ایساہی ہے مثلاً سنگیتا لیاقت سولجر٭کمال احمد رضوی سمعیہ ناز٭نورجہاں شوکت رضوی٭گرودت گیتادت وغیرہ وغیرہ ۔ اجازت دیں۔
ReplyDelete٭خلوص کا طالب ٭(ایم ۔ ڈی )۔